"HRC" (space) message & send to 7575

ڈرے ہوئے لوگ

گالم گلوچ سے نہیں‘ فساد سے نہیں‘ قوموں کی تعمیر پختہ نظریات پہ ہوتی ہے۔ ریاضت‘ حکمت‘ اصولوں کی پاسداری اور حسنِ کردار سے۔
وہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا
آدمی کو اللہ نے غیب کا علم نہیں بخشا۔ یہی کیا کم ہے کہ ماضی کی یادوں سے نمٹ لے اور آج کا بوجھ اٹھا لے۔ باایں ہمہ کل کی منصوبہ بندی اس کی مجبوری ہے۔ فرار کی کوئی صورت نہیں؛ چنانچہ وہ بیتے دنوں کو کھنگالتا اور فردا کے لئے چراغ روشن کرتا ہے۔
اب یہ لگتا ہے کہ تاریخ نے ایک ورق الٹ دیا ہے۔ ایک زمانہ تمام ہوا۔ ایک عہد شاید طلوع ہونے والا ہے۔ بیتے دنوں کا برا بھلا تجزیہ ہم کر سکتے ہیں‘ مستقبل پر حکم نہیں لگا سکتے‘ جو ابھی پردۂِ غیب میں ہے۔
گنبدِ نیلوفری رنگ بدلتا ہے کیا
دیکھئے اس بحر کی تہہ سے اچھلتا ہے کیا
پارلیمان نے جو آئینی ترمیم منظور کی‘ ختم نبوت کی شقیں اس میں کیوں شامل کر دی گئیں۔ کوئی اس سوال کا جواب نہیں دیتا۔ ارکانِ پارلیمنٹ محض اپنے سربراہوں کا حکم بجا لاتے ہیں۔ اپنا ذہن استعمال نہیں کرتے۔ لودھیوں‘ مغلوں‘ سوریوں‘ سکھوں اور انگریزوں کے دور سے ہماری اشرافیہ کا چلن یہی ہے۔ زیردستوں سے وہ مزارعین کے طرزِ عمل کی توقع رکھتے اور خود بادشاہوں کے خوشہ چین بنے رہتے ہیں۔ اسی سے تمیزِ بندہ و آقا کا وہ معاشرہ وجود میں آیا ہے‘ جس میں عدل کا حصول بہت مشکل ہے۔ اصول اور قانون نہیں‘ اہمیت آدمی‘ اس کے خاندان اور گروہ کی ہے۔
بارہا دیکھا ہے کہ سالانہ بجٹ کی بھاری بھرکم کتابوں کو عوامی نمائندے کھول کر دیکھنے کی زحمت بھی نہیں کرتے؛ حالانکہ اسی لئے وہ چنے جاتے ہیں۔ گیارہ برس ہوتے ہیں‘ لکھا کہ اپنی ضرورت کا 41 فیصد ڈیزل پاکستان خود پیدا کرتا ہے۔ جہاندیدہ حمید اختر مرحوم نے اس پر تعجب کا اظہار کیا۔ پوچھا کہ یہ اعدادوشمار کہاں سے لئے گئے۔ ظاہر ہے کہ سالانہ بجٹ کی دستاویزات سے۔ اسی طرح 2008ء میں پیپلز پارٹی کی حکومت قائم ہونے کے اگلے برس‘ عرض کیا کہ قمر زمان کائرہ کی وزارت اطلاعات کے لئے دو ارب روپے کی خفیہ رقوم رکھی گئی ہیں۔ اخبار نویسوں کو یقین نہ آتا تھا۔ گزارش کی کہ بجٹ کا مطالعہ فرمائیے۔ مدتوں سے یہ طریق چلا آتا تھا۔ کبھی کسی نے غور ہی نہ کیا تھا۔ وزارت خزانہ کے ایڈیشنل سیکرٹری فاروق گیلانی سے‘ اس طرح کے معاملات میں‘ یہ ناچیز رہنمائی کی درخواست کرتا۔ مرحوم نے انکشاف کیا کہ وزارت اطلاعات کے انتظامی ڈپٹی سیکرٹری کی حیثیت سے‘ اس فنڈ کے وہ نگران رہے ہیں‘ جس کا آڈٹ نہیں کیا جاتا۔ کچھ معززین کے نام بھی انہوں نے بتائے تھے جو اس سے فیض یاب ہوئے۔ وزارتِ اطلاعات کے خفیہ فنڈ پہ خبر کا اخبار نویسوں کو یقین آ چکا تو ہنگامہ اٹھا۔ اس فنڈ کو سمیٹ دیا گیا۔ زرداری صاحب نے اب ایک اور راہ نکالی۔ ایوانِ وزیر اعظم کی درخواست پہ رقم انیٹلی جنس بیورو کو منتقل کر دی جاتی۔ وزیر اعظم یہ رقم اپنے ہاں واپس طلب کرکے اپنی صوابدید سے صرف کر سکتے ہیں۔ شہباز شریف حکومت ختم کرنے کیلئے گورنر پنجاب سلمان تاثیر اور وزیر داخلہ رحمن ملک کو پچاس کروڑ روپے اسی طرح عطا کیے گئے۔ جیسے ہی نون لیگ کا اقتدار معطل ہوا‘ عرض کیا کہ پنجاب میں اب کوئی حکومت نہیں۔ اسمبلی کی تائید حاصل کرنا گورنر پنجاب اور وفاقی وزیر داخلہ کے بس کی بات نہیں۔ افسر شاہی کیا اندھی ہے کہ احکامات بجا لائے گی۔ کم و بیش آج بھی وہی صورت حال ہے۔
حکمران خوشامدیوں پر بھروسہ کرتے ہیں تو یہی ہوتا ہے۔ ساڑھے چار سو برس ہوتے ہیں‘ ہاتھی پہ سوار‘ آگرہ سے چونیاں تک‘ کئی ہفتوں کا سفر شہنشاہِ اکبر نے ٹوڈر مل سے ملاقات کے لئے طے کیا تھا۔ وہ ایک نابغہ سمجھا جاتا۔ شیر شاہ سوری کے عہد میں بندوبست اراضی کا ایک نظام اس نے وضع کرنے کی ابتدا کی تھی۔ سوری کی وفات کے بعد اقتدار پھر سے مغلوں کے ہاتھ لگا۔ چند سال افراتفری میں بیت گئے۔ جواں سال بادشاہ کا اقتدار جم چکا تو ایک بار پھر سے ٹوڈر مل کی تلاش شروع ہوئی۔ ہندو مذہب کا ماننے والا دانشور اندیشوں کا شکار تھا۔ جہاں پناہ نے جان کی امان کا اعلان کیا۔ پیغامبر بروئے کار آئے۔ پھر بادشاہ خود اس کے پاس پہنچا اور اس نظام کی تشکیل کا آغاز ہوا‘ معمولی تبدیلیوں کے ساتھ جو اب تک چلا آتا ہے۔ انگریزی دور میں بھی برقرار رہا۔ ہر چند ماہ بعد شہباز شریف جسے مکمل طور پر کمپیوٹرائزڈ کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔ تھانہ کلچر بدلنے کی طرح‘ صوبے کے سکولوں اور ہسپتالوں کو مثالی بنانے کی طرح۔ ان میں سے کوئی کام مگر وہ کر نہیں سکے۔ اسمبلی جاتے نہیں۔ کابینہ کی سنتے نہیں۔ اہل اور لائق وزرا سے کام لینے پہ وہ یقین نہیں رکھتے۔ پسندیدہ افسروں کے بل پر کاروبار حکومت چلانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ بظاہر متحرک‘ بظاہر بہت ہی فعال۔ کسی قدر مقبول بھی مگر آخری تجزیے میں ناکام و نامراد۔
آئینی ترمیم کا موضوع تو بالکل دوسرا تھا۔ تمام سیاسی پارٹیاں اس پہ متفق تھیں۔ 1974ء میں حتمی طور پر طے پانے والے ختم نبوت کے قانون میں تبدیلی کی ضرورت کیا تھی۔ مخالفین الزام عائد کرتے ہیں کہ واشنگٹن سے پارٹی سربراہ کو فرمائش موصول ہوئی اور انہوں نے وزیر کو حکم دیا۔ انکل سام کی خواہش تو یہ بھی ہے کہ توہین رسالت کا قانون بھی ختم کر دیا جائے۔ پرسوں پرلے روز علی الاعلان یہ مطالبہ امریکی دارالحکومت میں سنائی دیا۔
ہفتے کی شام سے یہ پروپیگنڈا بھی ہے کہ حکمران خاندان کا ایک فرد مشتعل مظاہرین کے ساتھ رابطے میں رہا۔ ان کی حوصلہ افزائی کی اور مالی امداد کا وعدہ بھی کیا۔ بظاہر یہ قرینِ قیاس نہیں؛ اگرچہ علانیہ ان کی حوصلہ افزائی تو کی۔ ارشاد فرمایا کہ بس میں ہوتا تو ان کے ساتھ جا شامل ہوتے۔ پورے یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ پنجاب حکومت چاہتی تو یہ لوگ 300 کلومیٹر کا فاصلہ طے کرکے اسلام آباد نہ پہنچ پاتے۔ ثانیاً مسلسل انیس روز تک پروپیگنڈے کی سہولت مہیا نہ کی جاتی تو اس قدر اشتعال نہ پھیلتا۔ بالکل واضح ہے کہ فیصلے تاخیر سے کئے گئے‘ مشیر ناقص اور حکمت عملی‘ حکمت و دانائی سے خالی۔ ملک بھر میں جو انتشار برپا ہے‘ میاں محمد نواز شریف اور ان کے ساتھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ نیتوں کا حال اللہ جانتا ہے مگر کم فہمی‘ لاابالی پن اور بے احتیاطی پوری طرح آشکار ہے۔ ڈرے ہوئے خود غرض لوگ کہاں اور دانش کہاں۔ اس کا مطلب مگر یہ نہیںکہ ملک کو فساد کے حوالے کر دیا جائے۔ کسی بھی معاشرے کے لئے انارکی ایسی خطرناک چیز کوئی دوسری نہیں۔ فساد فی الارض کو قرآن کریم بھیانک ترین جرم قرار دیتا ہے‘ قتل سے بڑھ کر۔ سول ادارے پہلے ہی تباہی سے دوچار تھے۔ یہ سیاستدانوں کا کیا دھرا ہے اور فوجیوں کا بھی۔ پنجاب اور سندھ پولیس پستی کی آخری حدود کو چھو رہی ہے۔ بیچارے پولیس افسر اور جوان معاشرے کی نفرت کا شکار ہیں۔ ہر کوئی قربانی کا بکرا انہیں بناتا ہے۔ یہ سلسلہ اسی طرح آگے بڑھا تو کوئی شخص‘ کوئی گھر اور کوئی دفتر محفوظ نہ رہے گا۔ خدانخواستہ یہی چلن رہا تو آج فسادیوں کی تحسین کرنے والے‘ کل رویا کریں گے۔ ہم بھارت کے پڑوسی ہیں‘ برطانیہ اور امریکہ کے معتوب۔ بہت غلطیاں ہم کر چکے‘ مزید کے ہم متحمل نہیں۔
حکومت کو جانا چاہئے۔ اب یہ اس کے بس کی بات نہیں۔ نیا الیکشن ضروری ہے مگر ظاہر ہے کہ فساد کے خاتمے اور سیاستدانوں کے علاوہ عسکری قیادت میں ایک کم از کم اتفاق رائے کے بعد۔ مکمل طور پر ایک آزادانہ الیکشن۔ خواہ اس کے لئے مزید چند ماہ انتظار کرنا پڑے۔
گالم گلوچ سے نہیں‘ فساد سے نہیں‘ قوموں کی تعمیر پختہ نظریات پہ ہوتی ہے۔ ریاضت‘ حکمت‘ اصولوں کی پاسداری اور حسنِ کردار سے۔
وہ سحر جو کبھی فردا ہے کبھی امروز
نہیں معلوم کہ ہوتی ہے کہاں سے پیدا
وہ سحر جس سے لرزتا ہے شبستانِ وجود
ہوتی ہے بندۂ مومن کی اذاں سے پیدا

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں