"HRC" (space) message & send to 7575

معاملہ ایک قانون کا نہیں

معاملہ ایک قانون اور ترمیم کا نہیں‘ بلکہ اللہ کے آخری رسولؐ اور ختم نبوت پر سچے ایمان کا۔ جس جس کے دل میں کھوٹ ہے‘ وہ رسوا ہو گا۔ دنیا کی دلدل میں دھنسے ہوئے دانشور اور لیڈر مگر غور نہیں کرتے۔ 
اس جہانِ آب و خاک میں محمدﷺ کا معاملہ سب دوسرے لوگوں سے مختلف ہے۔ رحمت عالمؐ نہیں وہ رحمۃ للعالمین ہیں۔ آدم ؑ سے عیسیٰؑ تک ہر پیمبر کی زندگی قابلِِ رشک ہے۔ اپنے اخلاقی‘ روحانی اور علمی فضائل سے نگاہ خیرہ کر دینے والی۔ الوحی اور ابدی اجالے کی چھینٹ جہاں کہیں پڑی ہے‘ بشر کی خاک نور سی ہو گئی ہے۔ اصحاب رسولؓ تک سے یہ کہا گیا تھا‘ جس کی آواز ان کی آواز سے بلند ہوئی‘ اس کے سب اعمال ضائع ہو جائیں گے۔ حالانکہ یہ وہ لوگ تھے‘ جن کے بارے میں ارشاد یہ تھا: اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی۔
انؐ کے سوا کوئی دوسرا نہ تھا‘ جو عرش بریں تک پہنچے۔ سب زمانوں‘ سب زندگیوں کے خالق و پروردگار کے روبرو۔ خود پروردگار کے الفاظ میں ''قاب قوسین‘‘ دو کمانوں سے بھی کم فاصلہ۔ ایک عجیب رمز ان دو الفاظ میں پوشیدہ ہے۔ دو عرب سردار وفا کا دائمی پیمان کرتے تو اپنی کمانیں ایک دوسرے کے سامنے رکھ دیا کرتے۔ 
اللہ کی آخری کتاب میں عالی جنابؐ کا ذکر ہر طرح سے‘ ہر اسلوب میں ہے‘ دوسرے بلند مرتبہ پیغمبروں کے ساتھ بھی۔ مگر جہاں کہیں ان سے الگ ہے‘ ایسا لگتا ہے کہ لہجہ ہی بدل گیا ہے۔ اکرام جیسے ایک ایک حرف میں جلوہ گر ہے۔ 
قسم ہے چاشت کی
اور قسم ہے رات کی جب وہ چھا جائے
تیرے رب نے تجھے چھوڑ نہیں دیا اور نہ ہی ناگوار جانا
اور بے شک تیرے بعد کے ایّام‘ پہلے دنوں سے بہتر ہیں
جلد ہی تیرا رب تجھے عطا کرے گا اور تو خورسند ہو جائے گا
کیا اس نے تجھے یتیم نہ پایا اور پھر ٹھکانا دیا
اور تجھے سرگرداں پایا تو اپنی طرف راستہ روشن کردیا
اور تجھے حاجت مند پایا تو غنی کر دیا
آخری پارے کی ایک اور سورہ میں یہ ہے: 
کیا ہم نے تیرا سینہ کھول نہیں دیا 
اور وہ بوجھ تجھ پر سے اٹھا لیا جو تجھے کچلے ڈالتا تھا۔
اور ہم نے تیرے لیے تیرا ذکر بلند کر دیا
چلتے چلتے‘ کہیں کتاب میں سرکارؐ کا ذکر اس طرح بھی آتا ہے کہ ایک عامی کا ذہن‘ سیاق و سباق کو پا نہیں سکتا۔ مثال کے طور پر دفعتاً کہیں ایک لفظ جگمگایا ہے ''لعمرک‘‘ تیری عمر عزیز کی قسم۔ صاحبِ علم و ادراک سے سوال کیا: کیا اس سے مراد ہے‘ حضورؐ کی حیات کا ہر لمحہ۔ کہا: بے شک کیونکہ استثنیٰ اس میں کوئی نہیں۔ 
چودہ سو سال بیت گئے‘ کیا کیا قصیدہ‘ کیا کیا نعت آپؐ کی شان‘ آپؐ کے فضائل میں لکھی گئی۔ جناب حسّان بن ثابتؓ کو جو اعزاز عطا ہوا وہ تو کبھی کسی کے حصے میں نہ آ سکے گا۔ خود حضورؐ کے فرمان پہ اشعار لکھے۔ اولین نعت گو ہیں اور پیہم لکھنے والے۔ 
دربار نبیؐ کے ایک اور شاعر کا قصہ قدرے عجیب ہے۔ عہدِ جاہلیت میں اٹھ جانے والے‘ عظیم شاعر زہیر بن ابی سلمیٰ نے ایک خواب اپنے فرزندوں کو سنایا: آسمان سے لٹکتی ہوئی ایک رسی میں نے دیکھی‘ کچھ نے اسے تھام لیا۔ میں نے کوشش کی تو سمٹ گئی۔ نبوت کے سوا یہ کچھ اور نہیں ہو سکتا۔ بیٹوں سے کہا:آخری پیمبر کا ظہور ہو تو اس پہ ایمان لانا۔ جبیر بن زہیر مدینہ منورہ پہنچا اور مشرف ہوا۔ اپنے بھائی کعب بن زہیر سے مشورہ کرکے وہ آیا تھا۔ کعب بڑا شاعر تھا اور معاشرے کا جانا پہچانا آدمی۔ امید وہ یہ رکھتا تھا کہ بھائی اس سے بات کرنے کے بعد فیصلہ کرے گا۔ بے ساختہ وہ ایمان لے آیا تو کعب برہم ہوا اور سرکارؐ کی شان میں گستاخی کے اشعار لکھے۔ اس کے قتل کا حکم صادر کر دیا گیا اور بظاہر یہ قطعی تھا۔ 
فتح مکہ کے بعد کا زمانہ۔ روشنی چاروں طرف پھیلتی چلی جاتی تھی۔ کعب کو افسوس اور صدمے نے آ لیا۔ مدینہ پہنچا‘ سر ڈھانپا اور حلیہ بدلا۔ ایک روایت کے مطابق سر پہ مصنوعی بالوں کی لٹیں بھی چپکا لیں۔ حاضر ہوا تو اصحاب رسول اس کی طرف لپکے مگر روک دیئے گئے۔ پھر وہ قصیدہ پڑھ سنایا‘ بعض کے خیال میں جسے قصیدہ بردہ کہنا چاہیے۔ اس لیے کہ سماعت کے فوراً بعد حضورؐ نے خود اوڑھی ہوئی چادر اسے بخش دی تھی؛ تاہم یہ اعزاز صدیوں بعد ایک دوسرے نعتیہ قصیدے کے مصنف امام بوصیریؒ کو حاصل ہوا۔
کعب کے قصیدے میں ایک ترمیم بھی آپؐ نے کی تھی۔ ایک مصرعے میں عالی جناب کو ہند کی بے پناہ شمشیر کہا گیا۔ فرمایا: نہیں ‘اللہ کی تلوار۔ رسول اکرمؐ کے جاں نشین‘ خلفائِ راشدین کے عہد میں‘ کعب سے یہ چادر قیمتاً حاصل کرنے کی استدعا کی جاتی رہی۔ وہ انکار کرتا رہا۔ بہت بعد میں عباسی خلفاء نے اس کی اولاد سے پائی۔ عیدین کے مبارک دنوں میں کندھوں پر ڈال کر وہ خطبہ دیا کرتے۔ عباسیوں کا اقتدار ہلاکو کی یلغار تک باقی رہا۔ شہر میں جو کچھ تھا تاتاریوں نے لوٹا یا جلا دیا۔ اُس چادر کی کچھ خبر نہ ملی کہ زمین نگل گئی یا آسمان کھا گیا۔ سیدنا عثمان غنیؓ کے عہد میں گم ہو جانے والی سرکارؐ کی انگشتری کی طرح‘ جو کنویں میں گر پڑی اور بہترین کوشش کے باوجود مل نہ سکی تھی۔ ڈاکٹر خورشید رضوی کی مشہور غزل میں‘ اشارہ اسی طرف ہے۔ 
وہ نگیں جو خاتمِ زندگی سے پھسل گیا
تو وہی جو میرے غلام تھے‘ مجھے کھا گئے
چادر اور انگوٹھی کا تو کیا ذکر۔ امت نے اپنے پیمبرؐ ہی کو کھو دیا۔ ان پہ نازل ہونے والی اللہ کی آخری کتاب کو کھو دیا۔ آسمان سے اپنا رشتہ توڑ ڈالا اور دشت و بیاباں میں بھٹکنے لگی۔ شعر اقبالؔ کا یاد رہا‘ اس کے مفہوم و معنی پہ نظر نہ رہی۔
کی محمدؐ سے وفا تو نے تو ہم تیرے ہیں
یہ جہاں چیز ہے کیا لوح و قلم تیرے ہیں
کتاب میں ہے: پیمبرؐ کی جس نے اطاعت کی‘ اس نے اللہ کی اطاعت کی۔ قرآن کریم مطلع کرتا ہے: اللہ اور اس کے فرشتے نبی (محمدؐ) پہ درود بھیجتے ہیں۔ کون و مکاں کا خالق آپؐ کو ''سراجاً منیرا‘‘ قرار دیتا ہے‘ دمکتا ہوا سورج۔ یہ شاعر کی نہیں‘ بندے کے لیے پروردگار کی مدح ہے۔ اپنی ایک ایک جہت میں بامعنی۔ اقبالؔ نے بھید کو پا لیا تھا‘ اسی لیے وہ اقبالؔ ہوا۔ 
چشمِ اقوام یہ نظارہ ابد تک دیکھے
رفعتِ شانِ ''رفعنا لک ذکرک‘‘ دیکھے
اسلام فقط اللہ نہیں بلکہ رحمۃ للعالمین اور قرآن کریم پر ایمان ہے۔ پوری طرح‘ دل کی گہرائیوں کے ساتھ۔ عمر ابن خطابؓ سے آپؐ نے پوچھا تھا: مجھ سے کتنی محبت کرتے ہو؟ عرض کیا: یا رسولؐ اللہ اپنی جان کے سوا ہر چیز سے زیادہ۔ فرمایا: جب تک اپنی جان سے بڑھ کر مجھے عزیز نہ رکھو گے ایمان مکمل نہ ہو گا۔ گزارش کی: یا رسول اللہ آج کے بعد اپنی زندگی سمیت‘ آپؐ ہر چیز سے زیادہ محبوب ہیں۔
انکسار ہر مقبول شخصیت کا وصف ہوتا ہے۔ آپؐ سے زیادہ کوئی منکسر نہ تھا۔ آپؐ کے جلال و جمال کی تاب نہ لا کر ایک خاتون کانپنے اٹھی تو فرمایا: مجھ سے نہ ڈرو‘ میں قریش کی ایک عورت کا بیٹا ہوں جو سوکھا گوشت کھایا کرتی تھی۔ اجلا مگر سب دوسروں جیسا لباس پہنتے۔ وہی سادہ ترین کھانا‘ مہینوں چولہے میں آگ نہ جلتی‘ بکری کے دودھ اور کھجور پہ بسر کر لیا کرتے۔ اپنی طرف نہیں‘ لوگوں کو وہ اللہ کی طرف بلاتے‘ قرآن کریم کی طرف۔ جو بات فاروق اعظمؓ سے کہی تھی‘ وہ اللہ کے حکم سے‘ امت کی تعلیم کے لیے۔ فرمان الٰہی ہے: اپنی مرضی سے وہ کوئی بات نہیں کہتے بلکہ وہ جو ان پہ نازل کیا جاتا ہے۔
معاملہ ایک قانون اور ترمیم کا نہیں‘ بلکہ اللہ کے آخری رسولؐ اور ختم نبوت پر سچے ایمان کا۔ جس جس کے دل میں کھوٹ ہے‘ وہ رسوا ہو گا۔ دنیا کی دلدل میں دھنسے ہوئے دانشور اور لیڈر مگر غور نہیں کرتے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں