عسکری قیادت کو‘ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہئے‘ جو افواج کودلدل میں اتار دے۔
زندگی کی رِہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یوں سمجھ لے‘ کوئی آئینہ خانہ بارِ دوش ہے
1526ء میں شروع ہونے والا مغل اقتدار 1712ء میں بکھرنے لگا۔ انارکی بڑھتی گئی‘ حکومتیں کمزور ہوتی گئیں۔ ایک کے بعد‘ مہم جوئی کرنے والوں کی دوسری جماعت ابھرنے اور ڈوبنے لگی۔ چھوٹی ریاستوں کے نقشے اور حکمران بدلنے لگے۔ اردو کے پہلے عظیم شاعر میر تقی میرؔ نے اسی ماحول میں آنکھ کھولی اور زندگی کی۔
چور اچکّے‘ سکھ‘ مرہٹے‘ شاہ و گدا زر خواہاں ہیں
چین سے ہیں جو کچھ نہیں رکھتے‘ فقر ہی اک دولت ہے اب
احمد شاہ ابدالی نے ہندوستان پر حملہ کیا تو مسلمانوں نے خوش آمدید کہا کہ مرہٹوں کے اقتدار کا اندیشہ تھا۔ وہ بھارت کی موجودہ انتہا پسند قیادت سے بھی کہیں زیادہ گنوار اور خونی تھے۔ پانی پت کی دوسری جنگ میں مرہٹوں کو اس نے ہرا دیا۔ مغل سلطنت مگر اپنی باقی ماندہ قوت سے محروم ہو گئی۔ کچھ عجیب و غریب استثنیٰ بھی وجود میں آئے۔ پنجاب سے میسور کا رخ کرنے والے‘ ناخواندہ جینئس حیدر علی نے ایک ریاست پہ قبضہ کر لیا اور اسے توسیع بخشی۔ اسی کے فرزند ٹیپو سلطان کے بارے میں اقبالؔ نے کہا تھا: ایک مسلمان حکمران کی تمام اخلاقی صفات‘ اس میں جمع ہو گئی تھیں۔ بے تعصب‘ انصاف اور غریب پرور۔ انتشار اور لاقانونیت نے پنجاب کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ لاہور کی ابدالی نے اینٹ سے اینٹ بجا دی اور سب کچھ لوٹ کر لے گیا۔ تہجد گزار فاتح کی ذاتی زندگی مثالی رہی ہو گی‘ مگر وہ فتح کا ذائقہ چکھنے اور مالِ غنیمت سمیٹنے ہی آیا تھا۔ اپنے نوتخلیق وطن‘ افغانستان یا مسلم برصغیر کی تعمیر نو کے لئے بہرحال نہیں۔ پنجابی کہاوت یہ ہے: کھادا پیتا لاہے دا‘ باقی احمد شاہے دا۔ جو کھا پی لیا‘ وہ غنیمت ہے‘ باقی سب کچھ احمد شاہ ابدالی کا۔
ریاست کیوں ضروری ہے؟ پھر ریاست کا طاقتور ہونا کیوں ضروری ہے؟ ہمارے لیے ایک مثال ہی کافی ہے۔ ایک خالص قبائلی معاشرے میں پیدا ہونے والے بنی نوع انسان کے سب سے بڑے محسن‘ رسول اکرم ؐنے مدینہ منورہ میں قرار پاتے ہی‘ حکومتی نظم و نسق تشکیل دیا... میثاق مدینہ کے تحت‘ جو تاریخ کا پہلا تحریری دستور تھا۔ عرب حکومت کے وجود سے نفرت کرتے تھے۔ وہ قبائل کے ایک کہنہ نظام سے وابستہ چلے آتے تھے‘ جو انہیں تحفظ فراہم کرتا۔ ان کی ثقافت‘ مزاج اور امنگوں کا آئینہ دار تھا۔ حکومتی نظم و ضبط کے لئے عرب قبائل کی ناپسندیدگی فوراً ہی ظاہر ہو گئی‘ جب پیغمبرِ آخرالزماںؐ کے پردہ کرتے ہی‘ انہوں نے زکوٰۃ کی ادائیگی سے انکار کر دیا۔ سیدنا ابوبکرؓ کی اولین ترجیح ریاست کی رٹ قائم کرنا تھا۔ یہ ایک روحانی تقاضا بھی تھا کہ اخلاق استحکام ہی میں پروان چڑھ سکتا ہے۔ آزادی آدمی کی سرشت میں ہے۔ آدم علیہ السلام نے ممنوعہ درخت کا پھل کھا لیا تھا۔ پھر انہیں جتلایا گیا کہ آزادی ڈسپلن کے بغیر قائم نہیں رہ سکتی۔
نون لیگ کی تباہی پر جشن منانے والوں کو غور کرنا چاہئے کہ حکومت کے ساتھ‘ اگر ریاست بھی کمزور ہو گئی تو کیا ہو گا؟... بجا کہ یہ ان کا کیا دھرا ہے مگر دوسرے بھی شریک ہیں۔ ماضی کے حکمران بھی۔ ہم سب 1971ء میں بھگت چکے‘ 1977ء کے زخم آج تک مندمل نہیں ہو سکے‘ جنون کا شکار ہونے والے کئی فریق‘ جس کے ذمہ دار تھے۔ غالب آنے اور حریف کو تباہ کرنے کی انسانی جبلت وحشت کے ساتھ بروئے کار آتی ہے تو توازن تمام ہو جاتا ہے۔ پھر ہٹلر‘ مسولینی اور چھوٹی سطح پر الطاف حسین ایسے کردار پیدا ہوتے ہیں۔ ہٹلر نے دوسری عالمگیر جنگ کا آغاز کیا‘ اور پانچ کروڑ انسان قتل ہو گئے۔ الطاف حسین نے کراچی کو یرغمال بنا کر‘ ملک کو تباہی کے کنارے لا کھڑا کیا۔ جرمن قوم کی توہین کی گئی تھی۔ مہاجر محروم اور لاچار کر دئیے گئے تھے۔ خون کو مگر خون سے نہیں‘ پانی سے دھویا جاتا ہے۔ افراد ہوں‘ سیاسی اور لسانی گروہ‘ علاقائی طاقتیں یا جمی جڑی اقوام‘ انتقام کی خو غالب آ جائے تو تمام زندگی‘ اسی کی نذر ہو جاتی ہے۔ حکومت خواہ کتنی ہی قصوروار ہو‘ حضرت مولانا خادم حسین رضوی کا مقصد خواہ کتنا ہی بلند ہو‘ ان کے اندازِ سیاست نے افراتفری میں اضافہ کیا ہے۔
برصغیر میں قوموں کی باہمی آویزش نے انگریزی استعمار کا دروازہ کھولا۔ غلامی اپنے مکروہ اثرات چھوڑ گئی ہے۔ اگرچہ آزادی اس سے پہلے بھی نہ تھی۔ مرکز میں بادشاہ‘ دور دراز پھیلے خطوں میں مقامی حکمرانوں اور جاگیرداروں کا سکّہ چلا کرتا۔ شاہی خاندانوں کے علاوہ دولت کا بڑا حصہ‘ نوابوں‘ زمینداروں اور جنرلوں کے علاوہ عیّار تاجروں کے ہاتھ میں تھا‘ سیاست کی پیچیدہ حرکیات میں فروغ کی راہیں جو تلاش کر سکتے تھے۔ پیشہ ورانہ مہارت اور تعلیم رکھنے والے عام آدمی کے لئے‘ انگریزی عہد میں اس سے کہیں زیادہ مواقع موجود تھے۔ غلامی سے گھن ہی آنی چاہئے۔ کئی دائروں میں مگر قانون کی حکمرانی تھی۔ پولیس اور عدالتیں‘ اصلاً حکمرانوں کے مفادات ہی کو ملحوظ رکھتیں‘ مگر عام آدمی کو احساس تحفظ بھی عطا کرتیں۔ سب سے بڑھ کر امن‘ کئی نسلیں‘ جس کو ترستی آئی تھیں۔
یہ ایک تکلیف دہ منظر ہے کہ ایک جج نے اسلام آباد کے معاہدے پر‘ فوج کو بے رحمانہ تنقید کا نشانہ بنایا۔ دوسرا تحسین کرتا ہے۔ انارکی اسی کو کہتے ہیں‘ جو اگر پھلتی چلی جائے تو ریاست کا وجود ختم ہو جاتا ہے۔ ہمارا مہربان بھارت‘ جس کے لئے سرگرم ہے۔ امریکہ اور بھارت کے علاوہ‘ افغانستان کے پیشہ وروں (Mercenaries) کی حمایت بھی اب اسے حاصل ہے۔ بعض ملّا اور بعض ملحد بھی ان کے مددگار ہیں۔ ملّا‘ جو تحریک طالبان پاکستان میں متشکل ہوئے۔ ملحد جو کل تک سوویت یونین کے دستر خواں پہ براجمان تھے اور اب این جی اوز بنا کر مغرب کے۔ صرف ملا اور ملحد ہی نہیں‘ تمام مفاد پرست۔ ان میں سیاسی لوگ بھی شامل ہیں۔ حکومت کے علاوہ اپوزیشن کے وہ لیڈر بھی‘ ہر قیمت پر جو اقتدار چاہتے ہیں۔ جن کے کان میں کسی نے پھونک دیا ہے کہ حکومت اگر مل جائے تو سب کچھ وہ ٹھیک کر لیں گے۔ شدید آویزش میں قائم ہونے والی حکومتوں کی کوئی قوّت ہوتی ہے اور نہ عمر۔
کوئی ادارہ باقی نہیں بچا۔ پارلیمنٹ کبھی طاقتور تھی ہی نہیں۔ سیاسی جماعتوں کی تشکیل جمہوری نہیں۔ افسر شاہی کو گھن کھا گیا کہ تقرر میرٹ پر نہیں ہوتا۔ جج اگر اچھے بھی ہوں تو اپنا حکم نافذ کیسے کریں کہ تفتیش میں پولیس ان کی مدد کرتی ہے اور نہ نفاذ میں حکومت۔ پولیس وزراء اعلیٰ کے رحم و کرم پہ ہے اور حوصلے اس کے ٹوٹ چکے۔ میڈیا کو حصولِ زر سے دلچسپی ہے یا رسوخ میں حصہ بٹانے سے۔ وحشت کے عالم میں ہر گروہ اپنا مقدمہ لڑتا ہے۔ کسی کو ملک کی فکر بھی ہونی چاہئے۔ مکالمے کی اب ابتدا ہونی چاہئے‘ وگرنہ سب پچھتائیں گے۔ اتفاق رائے کے حصول کی کوشش‘ جس کی بنیاد آئین اور اخلاقی اصولوں کی پاسداری پہ ہو۔
ہمارے پاس صرف ایک ادارہ باقی ہے‘ مسلّح افواج۔ اعتبار ہے تو اس کا ہے۔ اب اسی پر ذمہ داری ہے جیسا کہ دھرنے سے واضح ہوا مگر آئین اسے اختیار نہیں دیتا۔ یہی بات ایک اہم آدمی نے کہی مگر ایسے پیرائے میں کہ فساد اس سے ختم نہ ہو گا‘ مزید بڑھے گا۔
معاشرے کبھی بخار میں مبتلا ہو جاتے ہیں۔ 1974ء کے پختون خوا‘ 1983ء کے سندھ‘ مختلف ادوار میں بلوچستان اور پھر کراچی میں۔ اب پنجاب بھی اس کا شکار ہے۔ ہوش اور توازن کی آوازیں بہت کم رہ گئیں۔ یک رخے مہم جُو ہر کہیں ابھر آئے ہیں۔
بے شک حکمران جماعت کے لیڈر المناک جرائم کے مرتکب ہوئے ہیں۔ مگر عسکری قیادت کو‘ سپہ سالار جنرل قمر جاوید باجوہ کو کسی بھی ایسے اقدام سے گریز کرنا چاہئے‘ جو افواج کو دلدل میں اتار دے۔
زندگی کی رِہ میں چل لیکن ذرا بچ بچ کے چل
یوں سمجھ لے‘ کوئی آئینہ خانہ بارِ دوش ہے