افسوس‘ صد افسوس سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا لیڈر زینہ زینہ دلدل میں اتر رہا ہے۔ خیر خواہوں میں کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ کوئی اسے بچانے والا نہیں۔
عبدالصمد اچکزئی کو بلوچستان کا گاندھی کہا جاتا تھا۔ کوئی پرجوش پاکستانی یہ سنتے ہی جذباتی ردّعمل کا شکار ہو سکتا ہے۔ ٹھہرنا اور غور کرنا چاہیے۔ آل انڈیا کانگرس ہی سب سے بڑی سیاسی پارٹی تھی۔ تحریک آزادی کا بے خوف رہنما ہونے کے علاوہ‘ موہن داس کرم چند گاندھی کو ایک روحانی شخصیت کا تشخص بھی حاصل تھا۔ صدیوں کی پامالی کے بعد‘ سیاسی افق پہ ابھرنے والے آدمی کا تاثر یہ تھا کہ دنیا سے اسے دلچسپی نہیں۔ لاکھوں‘ کروڑوں آدمی‘ اس کی آواز پہ لپک اٹھتے‘ عبدالصمد اچکزئی تو دور دراز ایک قبائلی خطے کے مکین تھے‘ جو انگریزی استعمار سے نجات کے آرزومند ہوں گے۔ ابوالکلام آزاد‘ مولانا حسین احمد مدنی اور عطاء اللہ شاہ بخاری سمیت‘ جمعیت علمائِ ہند اور احرارِ اسلام کے اکابر بھی‘ جس کے اسیر تھے۔
اسلام کی روحانی اقدار سے ناآشنا آج کے سیکولر اور لبرل بھی‘ گاندھی کو ایک ایسی اساطیری شخصیت کے طور پہ دیکھتے ہیں‘ اپنے عہد کے دوسرے لیڈروں سے جو بہت بلند اور کئی طرح سے ممتاز تھے۔
یہ اقبالؔ تھے‘ اپنے عہد کے علمی مجدد‘ سب سے پہلے جنہوں نے ادراک کیا کہ گاندھی‘ اس لافانی عظمت کو چھو لیں گے‘ جو محروم اور دل فگار ہندو اکثریت کی نفسیاتی ضرورت ہے۔ سب سے پہلے انہوں نے کہا تھا: ایک دن وہ مہاتما ہو جائیں گے۔ مجدد وہ شخص ہوتا ہے‘ جو ماضی کو سمجھتا ہو‘ اپنے عہد میں اٹھنے والے ہر اہم سوال کا جواب دے اور مستقبل کے لیے اشارات چھوڑ جائے۔ ایک قوم کی حیثیت سے مطالعے اور غور و فکر سے‘ ہمیں واسطہ نہیں۔ سنجیدہ ہوتے تو سمجھ پاتے کہ بیسویں صدی میں دو ہی آدمی تھے‘ جن کے بارے میں یہ بات کہی جا سکتی ہے۔ خاموشی سے تزکیہ نفس کے محاذ پر علم اور عمل کے چراغ جلاتے‘ خواجہ مہر علی شاہ دوسرے تھے۔ اس قدر اقبالؔ ان کا اکرام کرتے کہ خط لکھتے تو لہجہ ایک شاگرد کا ہو جاتا۔ تصوف کے طالب علم یہ کہتے ہیں کہ عظیم صوفیا کی روشن قطار میں وہ آخری تھے۔
نبوت کے جھوٹے دعوے دار مرزا غلام احمد قادیانی کو‘ خواجہ نے مناظرے کا چیلنج دیا۔ درویش خوف اور غم سے آزاد ہوتا ہے۔ سازوسامانِ دنیا سے گاہے‘ یکسر بے نیاز۔ گولڑہ گائوں سے تنہا نکلے۔ ریل گاڑی میں سوار ہو کر لاہور چل دیئے۔ گوجر خان کے ریلوے سٹیشن پر ایک مرید ان کے ڈبّے میں داخل ہوا اور حیران رہ گیا۔ ہم نفسوں اور مریدوں میں سے ایک بھی ساتھ نہ تھا۔ افغانستان کے امیر عبدالرحمن اور امان اللہ خان سمیت لاکھوں تھے۔ ایک اشارے پر وہ سر ہتھیلی پہ رکھ لیتے مگر صوفی قیادت کا آرزومند ہوتا ہے اور نہ ذاتی شوکت و وجاہت کا۔ جواں سال مرید نے سوال کیا کہ انگریزی حکومت کے عہد میں‘ قادیانی‘ جن کے لاڈلے ہیں‘ تنہا مسافرت کا خطرہ آپ نے کیوں مول لیا۔ فرمایا: میں اپنے ذاتی کام سے نہیں جا رہا‘ وہ جانے جس کے لیے جاتا ہوں۔
لاہور پہنچے تو مرزا نے مناظرے سے انکار کر دیا۔ کہا کہ زبانی مباحثہ نتیجہ خیز کبھی نہیں ہوتا۔ بعد میں ہر کوئی اپنی فتح کے ڈنکے بجاتا ہے؛ چنانچہ مقابلہ تحریری چاہیے۔ خواجہ نے اس پر یہ کہا: بالکل بجا۔ کاغذ اور قلم کا بندوبست ہو۔ خلق خدا کے درمیان‘ ہم دونوں کو بیٹھ جانا چاہیے۔ قلم‘ کاغذوں پہ رکھ دیئے جائیں۔ پھر ہاتھ سے چھوئے بغیر‘ جس کا قلم خود بخود لکھے‘ وہی سچا ہو گا۔ مرزا یہ چیلنج کیوں کر قبول کرتا؟
واپسی کے سفر میں‘ گوجر خان کے ریلوے سٹیشن پر‘ بارِ دگر مرید حاضر ہوا اور پوچھا: جنابِ والا! کیا آپ کا قلم لکھ دیتا؟ ''میں نہیں جانتا‘‘ خواجہ نے ہمیشہ کی متین آواز میں کہا ''جھوٹا ہونے کے باوجود‘ اگر وہ اتنے بہت سے دعوے کیا کرتا ہے تو سچا ہو کر‘ میں ایک دعویٰ کیوں نہ کرتا‘‘۔ اپنی موت تک مرزا غلام احمد نے‘ اس کے بعد کبھی کوئی مناظرہ نہ کیا‘ حالانکہ اس کی شناخت یہی تھی‘ جس کے بل پر وہ ابھرا اور شہرت پائی تھی۔
ایک بیچارے عبدالصمد اچکزئی ہی کیا‘ مسلمان اپنے رہنمائوں کو سمجھ نہ سکے۔ چلتا ہوں تھوڑی دیر ہر ایک رہنما کے ساتھ/ پہچانتا نہیں ہوں ابھی راہبر کو میں۔ قائد اعظمؒ کو بھی بہت دیر سے انہوں نے شناخت کیا۔ مدتوں ورنہ مولویوں‘ قبائلی سرداروں‘ وڈیروں‘ خوانین اور ذات پات میں الجھے رہے۔
سرحدی گاندھی عبدالغفار خان کو آخر میں کانگرس نے تنہا چھوڑ دیا تھا۔ جمعہ خاں صوفی نے اپنی تازہ کتاب ''Ghaffar Khan, Reluctant Nationalist ‘‘ میں ان دنوں کی روداد کمال فصاحت سے رقم کی ہے۔ کیبنٹ مشن پلان میں صوبوں کے گروپ بننا تھے۔ اس میں پختون خوا‘ پنجاب‘ سندھ اور بلوچستان کے ساتھ ہوتا۔ صوبوں کے اختیارات مگر غیر معمولی تھے۔ کانگرس نے مسترد کیا تو پیروی پر تلے‘ عبدالغفار خاں نے بھی مخالفت کر دی۔ نتیجہ یہ نکلا کہ بتدریج پاکستان کی راہ ہموار ہو گئی۔ 3 جون 1947ء کو برصغیر کی تقسیم کا اعلان ہوا تو غفار خاں کے قدموں تلے زمین باقی نہ رہی۔ ابوالکلام آزاد نے باچا خاں کو مشورہ دیا کہ مسلم لیگ میں شامل ہو جائیں۔ وہ سرحدی گاندھی کے حقیقی قد کاٹھ سے واقف تھے۔ ان کے بقول کانگرس انہیں روپیہ دیتی۔ خرچ کرنے کے بجائے جو وہ اپنی جیب میں ڈال لیتے۔ ابوالکلام کے دل میں اس آدمی کی کس قدر عزت ہو سکتی تھی؟ انہیں یہ مشورہ دینے میں تامل کیوں ہوتا؟ غفار خاں نے برا مانا۔ نرگسیت کے مارے سب لوگ ایسے ہی ہوتے ہیں۔ ادنیٰ خواہشات کے جلو میں خبطِ عظمت۔ ابوالکلام یہی بات نہ سمجھ سکے کہ کسی بھی خبطی آدمی میں آخرکار خبط ہی غالب آتا ہے۔ قید خانے میں بھٹو کے ساتھ یہی ہوا تھا۔ بدلی ہوئی دنیا سے بے خبر وہ اپنی عظمت کے گیت گاتے اس دنیا سے چلے گئے۔ اپنے کارنامے گنواتے‘ آخرکار وہ ڈھے پڑے۔ کس چیز کے لیے انہوں نے جان دی؟ کس چیز کے لیے بھٹو خاندان برباد ہوا؟ آصف علی زرداری کے اقتدار اور اپنے وطن کو کرپشن کے سپرد کر دینے کے لیے؟
تجزیہ ناقص ہو تو حکمت عملی ظاہر ہے غلط ہو گی‘ اور بربادی تک لے جائے گی۔ قدرتِ کاملہ کے قوانین سے انحراف کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ کبھی محرومی‘ کبھی زندگی اور کبھی رسوائی سے۔ عبدالغفار خاں اور ذوالفقار علی بھٹو جیسے لوگ تاریک راہوں میں مارے گئے تو بے چارے نواز شریف کیا چیز ہیں۔ غفار خاں نے اپنے عزم اور ریاضت سے ایک جماعت پیدا کی جو اب تک برقرار ہے۔ بھٹو غیر معمولی ریاضت‘ ذہانت اور تحرک کے آدمی تھے۔ اپنے عصر سے آشنا‘ دنیا بھر کی سیاست سے باخبر ایک شاندار مقرر اور مصنف۔ اپنی محبت میں مبتلا ہو کر‘ اگر وہ خوار ہوئے تو میاں صاحب مکرم کیسے بچیں گے۔ سہل کوش‘ دھن دولت کے پجاری اور خوشامد کرنے والوں میں گھرے ہوئے۔ اس آدمی کو اللہ کے آخری رسولؐ نے ناکامی کی نوید دی تھی‘ ایمان کا دعویدار ہونے کے باوجود جو اپنی پسند کی راہ چلنے پہ مصر رہے۔ بارہا ناچیز نے عرض کیا: خطا سے نہیں‘ آدمی خطا پہ اصرار کرنے سے برباد ہوتے ہیں۔
محمود خان اچکزئی اگر اپنے مرحوم باپ کا گیت گائیں تو یہ قابل فہم ہے۔ اولاد کو باپ سے محبت ہوتی ہے۔ بہت کم ہوتا ہے کہ وہ اس کی شخصیت کا تجزیہ کر سکے۔ اس کے سحر سے نکل سکے۔ خاص طور پہ ایک ہیرو کی اولاد۔ خاص طور پہ ایک قبائلی معاشرے میں۔
میاں صاحب نے عبدالصمد اچکزئی کا گیت کیوں گایا‘ تاریخ جن پہ فیصلہ صادر کر چکی۔ 75.6 فیصد ووٹوں سے‘ مسلم برصغیر نے پاکستان کے قیام کا گونجتا گرجتا اعلان کیا تھا۔ کاش کوئی میاں صاحب کو سمجھا سکتا 22 کروڑ کی آبادی کا ایٹمی پاکستان ایک اٹل حقیقت ہے‘ دائمی‘ ابدی‘ سرمدی اور الوحی۔ معلوم نہیں تاریخ یہ لطیفہ کس طرح لکھے گی کہ مسلم لیگ کا ایک سربراہ‘ اس کے نظریاتی مخالفین کو سچا ثابت کرنے پہ تل گیا تھا۔ ویسی ہی حرکت میاں صاحب نے لاہور میں کی تھی۔ کہا تھا کہ پاکستانیوں اور بھارتیوں کا کلچر ایک ہے‘ وہ سب آلو گوشت کھاتے ہیں۔
افسوس‘ صد افسوس سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا لیڈر زینہ زینہ دلدل میں اتر رہا ہے۔ خیر خواہوں میں کوئی اس کا ہاتھ پکڑنے والا نہیں۔ کوئی اسے بچانے والا نہیں۔