گھمسان کا رَن ہے۔ بدگمانی، ہیجان اور گالم گلوچ۔ دلیل کسی کو یاد نہیں۔ دلیل ہی یاد نہیں۔ تدبر اور تفکر ہی کی توفیق نہیں تو اندھیرا کیسے چھٹے۔ منزلِ مراد کو کیسے روانہ ہوں؟
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
منفرد شاعر، نقّاد اور نثر نگار سلیم احمد مرحوم کے لہجے میں کاٹ اور پروازِ فکر بلند تھی۔ نادرِ روزگار حسن عسکری سے وہ متاثر ہوئے لیکن خود بھی ایک دبستان سے کیا کم تھے۔ اپنے پلنگ پہ گائو تکیے سے ٹیک لگائے خیال و فکر کے موتی رولتے تو ایک آبشار کی سی روانی‘ چراغاں سا ہو جاتا۔ صاحبِ مطالعہ سجاد میر نے ان سے فیض پایا۔ احمد جاوید نے بھی، جو خود ایک بڑے معلم ہیں۔ شاعر بھی، شارح بھی۔ دین کے ، ادب ، تصوف اور تاریخ کے بھی۔ خداداد صلاحیت جمالِ ہم نشیں سے فیض پا کر کچھ اور بھی جگمگاتی ہے۔ احمد جاوید کو ان کے شعر میں دیکھیے:
کاروبارِ زندگی سے جی چراتے ہیں سبھی
جیسے درویشی سے تم، مثلاً جہاں بانی سے ہم
خواب دیکھنے والی ایک نسل اور اس کی باقیات۔ اجلے سپنے مگر عملیت پسندی میں کمی اور کوتاہی بھی۔ خیر یہ ایک دوسرا موضوع ہے کہ پے در پے طوفانوں کے تھپیڑے کھانے کے باوجود بھی، مسلم برصغیر اب تک practical کیوں نہیں۔ خاص طور پر پنجاب، سندھ اور یو پی سی پی کے اناج خور۔ سلیم احمد کا جملہ یاد آیا تھا: لیڈر سڑک پہ لگے راہ دکھانے والے اشارے کی طرح ہوتا ہے۔ شاید اس میں کچھ اضافہ کرنا چاہئے: اندھیرے سویرے، کہر اور دھوپ کے سب موسموں میں خود اپنی مثال اور علم کے چراغ سے رہنمائی کرنے والا آدمی۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
میں ظلمت شب میں لے کے نکلوں گا اپنے درماندہ کارواں کو
شرر فشاں ہو گی آہ میری نفس مرا شعلہ بار ہو گا
بسترِ مرگ پر اپنے صوفی منش والد سے اقبالؔ نے پوچھا تھا: کیا میں نے آپ کی نصیحت پوری کی؟ کیا میں نے اسلام کی خدمت کا حق ادا کیا؟ اپنے مقصد میں لیڈر واضح ہوتا ہے۔ اس کے حصول کی حکمتِ عملی میں بھی۔ وہ درد اور خلوص کا پیکر ہوتا ہے مگر اشک نہیں بہایا کرتا۔ اپنا درد، علم، احساس اور ادراک وہ اپنے قبیلے میں بانٹتا ہے اور صلے کی تمنا نہیں رکھتا۔ جس مسلم برصغیر میں اقبالؔ نے جنم لیا تھا، مایوسی کے اندھیروں میں ڈوبا، وہ معاشی، اقتصادی، سیاسی اور روحانی اعتبار سے افلاس کا شکار تھا۔ اقبالؔ نے اسے راستہ دکھایا۔ جب وہ دنیا سے اٹھے تو اسے بدل ڈالا تھا۔ اب انہیں یقین تھا کہ مسلمان اپنی منزل پا لیں گے۔ جب یہ ناچیز اقبالؔ کو علمی مجدد کہتا ہے، جب وہ عرض کرتا ہے کہ فکری اثرات کے اعتبار سے وہ تاریخِ انسانی کے سب سے بڑے شاعر ہیں تو بعض کو اعتراض ہوتا ہے۔ یہی گزارش قائدِ اعظم کے بارے میں کرتا ہوں۔ یہ کہ پچھلی تین صدیوں میں ایسا بلند مرتبہ لیڈر نظر نہیں آتا۔ مؤرخ سٹینلے والپرٹ تو آگے بڑھ کر یہ کہتا ہے کہ کبھی کسی سیاستدان نے ایسا کارنامہ انجام ہی نہیں دیا۔ ایک قوم تشکیل دی ہو، اسے آزادی بخشی ہو اور ایک آزاد وطن بھی۔ یکسر استثنیٰ، پروردگار کی رحمت جوش میں آتی ہے، قوموں کی ابتلا تمام کرنا چاہتی ہے تو ایسی ہی نادرِ روزگار ہستیوں کو جنم دیتی ہے۔ محمد علی جناحؒ کی دیانت، صداقت اور بصیرت کو ایک صدی سے خراجِ تحسین پیش کیا جا رہا ہے۔ دوست ، دشمن ، اجنبی ، غیر جانبداری سے جائزہ لینے والا ہر متلاشی ان کا قائل ہوا۔ بس وہ کہ جو تعصب اور تنگ نظری کے مارے تھے، وہ بدقسمت، جو حجاب کے حوالے کر دئیے گئے کہ زہد و علم پہ ناز پالتے۔
جناح کی شخصیت کا سب سے حیران کن پہلو ان کا جذباتی توازن ہے۔ ابوالحسن اصفہانی نے چونکا دینے والی روداد بیان کی تھی۔ آسام کا ریفرنڈم درپیش تھا، جو اس خطے کو پاکستان یا بھارت میں شامل کرنے کا فیصلہ کرتا۔ مولانا عبدالحمید خاں بھاشانی بابائے قوم سے ملنے آئے، 1946ء کا الیکشن جیت کر جو مسلم برصغیر کے غیر متنازع لیڈر تھے۔ بنگال اور آسام کے مسلمانوں کی حالتِ زار کا ذکر کرتے ہوئے وہ رو دئیے۔ ملاقات تمام ہوئی تو اصفہانی نے، جو قائدِ اعظم سے سیاسی تربیت پانے والے خوش نصیبوں میں سے ایک تھے، بھاشانی کے خلوص کی داد دی۔ ہمیشہ بڑی تصویر دیکھنے والے جناحؒ نے کہا: مسلمانوں کو رونے والوں کی نہیں، جدوجہد کرنے والوں کی ضرورت ہے۔ فی الجملہ یہ کہ جذبات سے مغلوب ہونے والے لیڈر نہیں ہوتے۔ جس طرح کہ مجذوب قابلِ معافی اور بعض اوقات قابلِ قبول بھی مگر درویش، سالک، صوفی اور عارف نہیں ہوتا۔ جذبے کی فراوانی مبارک مگر زندگی ہوش و خرد سے بسر کی جاتی ہے۔ خواہشات کو راہ رو کیا جاتا اور لگامیں پہنائی جاتی ہیں۔ جس طرح بگھی میں جتے گھوڑوں کو کہ تمام قوت منزل کی طرف لے جانے میں صرف کریں۔
1969ء سے 1971ء تک، لاہور میں میاں افتخارالدین مرحوم کے گھر پہ کئی بار مولانا بھاشانی کے نیاز حاصل ہوئے۔ بے ساختہ بات چیت، سادہ لباس، بید کی چھال سے بنی خوبصورت مگر میلی ٹوپی اور پریشاں خیالی۔ دوسرے لیڈروں کے برعکس کرو فر سے بے نیاز، عبادت کے عادی مگر بے سمت۔ جذبات سے لبریز، حکمتِ عملی سے بے نیاز، کبھی مشرق اور کبھی مغرب کو سر پٹ۔ کبھی بنگالی قوم پرستی اور کبھی اشتراکیت کے واعظ۔ دلاور ایسے کہ ''جالو جالو آگن جالو‘‘ یعنی جلائو جلائو، آگ جلائو، کا نعرہ لگاتے۔ کمزور اس قدر کہ 2 جنوری 1965ء کے صدارتی انتخاب میں مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف فیلڈ مارشل ایوب خاں سے خفیہ گٹھ جوڑ کر لیا۔ عامیوں میں گھل مل کر بے نیازانہ زندگی کرنے پر مرید ان سے محبت بہت کرتے مگر یہ ایک لاحاصل حیات ثابت ہوئی۔ ابو مسلم خراسانی کی طرح ، جس کے بارے میں امامِ اعظم، امام ابو حنیفہ ؒ نے کہا تھا ''وہ شہید ہو گیا لیکن اس سے کچھ بھی بن نہ پڑا‘‘ خراسانی کا المیہ بھی یہی تھا۔ دلاوری مگر بے سمتی۔ بے علمی، سطحیت اور وہ خود پسندی، جسے بعد کے زمانوں میں نرگسیت کا نام دیا گیا۔
کہا جاتا ہے کہ پاکستان کا المیہ اچھی قیادت سے محرومی ہے۔ ہم اپنے لیڈروں کو کوستے ہیں اور لیڈر ایک دوسرے کو۔ کوستے کیا، کردار کشی کرتے ہیں۔ دبے لفظوں میں کبھی کوئی تاریخ کا سبق اور فرمانِ رسولؐ یاد دلاتا ہے: کسی قوم کو ویسے ہی لیڈر نصیب ہوتے ہیں، جیسا کہ اس کا کردار، مزاج اور اعمال۔ پھر کبھی کوئی حدیثِ رسولؐ سناتا ہے ''تمہارے اعمال ہی تمہارے عمّال ہیں‘‘ ۔ تھوڑی دیر کو ہم مؤدب ہو جاتے ہیں کہ اللہ کے رسولؐ کا ارشاد ہے، ادب اور محبت سے سننا چاہئے۔ پھر معمول غالب آتا ہے۔ انہی سطحی بحثوں، انہی الزام تراشیوں اور اسی ہائو ہو میں الجھ جاتے ہیں۔ افراد کی طرح، اقوام بھی اپنی عادات کی اسیر ہوتی ہیں۔ اپنے لیڈروں سے ہم اصحابِؓ رسول نہیں تو کم از کم اولیا کی سی نجابت اور حکمت کا مطالبہ کرتے ہیں۔ خود ہم کیا ہیں؟ ہم صحافی، تاجر ، صنعتکار ، زمین دار، اساتذہ ، ڈاکٹر اور انجینئر۔ سرکاری افسر اور سیاسی کارکن۔ کیا ان کی اخلاقی حالت بہتر بنانے اور انہیں تعلیم دینے کی کوئی ضرورت نہیں؟ جلسہ ، جلوس، تقاریر اور دھرنے۔ ہر لیڈر چیخ رہا ہے اور اس کے حامی بھی۔ گھمسان کا رَن ہے۔ بدگمانی، ہیجان اور گالم گلوچ۔ دلیل کسی کو یاد نہیں۔ دلیل ہی یاد نہیں۔ تدبر اور تفکر ہی کی توفیق نہیں تو اندھیرا کیسے چھٹے۔ منزلِ مراد کو کیسے روانہ ہوں؟
گرہ بھنور کی کھلے تو کیونکر، بھنور ہے تقدیر کا بہانہ
پسِ تحریر:پہلوانِ سخن شیخ امام بخش ناسخ ایک پیغام دلاور سخن ور منصور آفاق کے لیے چھوڑ گئے تھے:
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں