''وامرھم شوریٰ بینھم‘‘ کسی کو یہ فرمان یاد نہیں‘ کسی کو بھی نہیں۔ وعظ ہی وعظ ہے‘ عمل کہیں نہیں۔ قال ہی قال ہے۔
عجیب لطیفہ ہے۔ مولانا عبدالغفور حیدری نے فرمایا کہ نواب زہری کے خلاف تحریکِ عدم اعتماد‘ سینیٹ کا الیکشن سبوتاژ کرنے کے مترادف ہے۔ پھر جمعیت علماء اسلام کے ارکان اسمبلی نے اس تحریک پہ دستخط کیوں کئے؟ اخبار نویسوں نے مولانا فضل الرحمن سے پوچھا تو ارشاد کیا کہ یہ صوبائی مسئلہ ہے۔ اتحاد مرکز میں ہے صوبے میں نہیں۔ صوبے کی جمعیت سے وزیراعلیٰ نے رابطہ کیا تو جواب ملا کہ مرکزی امیر سے بات کیجئے۔ آخری اطلاع یہ ہے کہ میاں نواز شریف سے مولانا کی بات ہو گئی ہے؛ اگرچہ آپ کے باب میں کوئی اطلاع آخری نہیں ہوتی۔ پختونخوا میں اگر آج وہ جماعت اسلامی کے حلیف ہیں تو کل نون لیگ کے ہو سکتے ہیں۔
بلوچستان کا بحران ہمارے اخلاقی اور سیاسی افلاس کی بدترین علامت ہے۔ اوّل دن سے میاں محمد نواز شریف نے محمود اچکزئی کو گود میں بٹھا رکھا ہے۔ بس کی گانٹھ یہی ہے۔ جمعیت علماء اسلام اپوزیشن میں بیٹھنا کب گوارا کرتی ہے۔ حزب مخالف کا حصہ بنی تو اس لیے کہ پختونخوا ملی عوامی پارٹی سے جنم جنم کا بیر ہے۔ پانچ برس تک مولوی صاحبان صوبے میں غالب و کار آفریں رہے۔ ڈٹ کے اقتدار کے مزے لوٹے۔ پشتون پٹی میں انہی کے ردعمل میں محمود خاں کو ووٹ ملا۔
محمود خاں عجیب آدمی ہیں۔ 27 دسمبر 1979ء کو روسی افواج افغانستان میں داخل ہوئیں تو شاد تھے۔ کچھ عرصے بعد‘ اس کی حمایت کرنے وہ کابل تشریف لے گئے۔ مدتوں وہاں مقیم رہے۔ اے این پی کے اجمل خٹک اور باغی بلوچ سردار خیر بخش مری کی طرح‘ روسیوں کی شکست اور واپسی کے بعد ان سب لوگوں کو معاف کر دیا گیا۔ انہیں واپس آنے اور پاکستانی سیاست میں حصہ لینے کا موقع دیا گیا۔ دنیا کا شاید ہی دوسرا ملک یہ گوارا کرتا۔ اس کے باوجود یہ لوگ اپنی روش پہ قائم رہے۔ ایرانی اور افغان انٹیلی جنس سے اچکزئی کے روابط ایک کھلا راز ہیں۔ سال گزشتہ وزارت داخلہ کا ایک خط سوشل میڈیا پہ گردش کرتا رہا۔ وزارت خارجہ کو جس میں مطلع کیا گیا تھا کہ ایرانی انٹیلی جنس سے اتنی رقم آنجناب نے وصول فرمائی ہے۔ خاں صاحب نے کبھی اس کی تردید نہ کی۔ اسی طرح ایک افغان انٹیلی جنس افسر کے ساتھ ان کی تصاویر چھپتی رہتی ہیں۔ بلوچستان میں دہشت گردی کے مرتکب‘ افغانستان کے حق میں آئے روز کوئی فتویٰ وہ جاری کرتے رہتے ہیں۔ اٹھائیس برس سے جاری‘ کشمیریوں کے قتل عام پہ کبھی آپ کو ملال نہیں ہوا۔ میاں محمد نواز شریف اس شخص کو اپنا نظریاتی حلیف کہتے ہیں۔ دونوں جید لیڈروں میں قدرمشترک کیا ہے؟
باغی ارکان کو جتنا غصہ وزیراعلیٰ پہ ہے‘ اس سے زیادہ محمود اچکزئی پر۔ نواب ثناء اللہ زہری پہ اعتراض یہ ہے کہ ارکان اسمبلی کیا‘ وزراء کی بات بھی وہ نہیں سنتے۔ سات کروڑ روپے کے ترقیاتی منصوبوں کی فائلیں لے کر ایک ممبر‘ سال ڈیڑھ سال ان کے دفتر کا طواف کرتا رہا... باریابی نہ ہو سکی۔ ہنگامہ اٹھا تو اسے وزیر بنا دیا۔ اڑتالیس گھنٹے کے بعد ہی اس نے وزارت واپس کر دی۔ توہین کا قرض چکا دیا۔
اپوزیشن کی بات سمجھ میں آتی ہے‘ نون لیگ کے ارکان نے کیوں بغاوت کی؟ یہ میاں محمد نواز شریف اور محمود اچکزئی کے طرزِ سیاست کا ثمر ہے۔ میاں صاحب نے اچکزئی کو اختیار سونپا تو سونپ ہی دیا۔ کوئی فورم نہ تھا جس پر سرکاری پارٹی کے ارکان بات کر سکتے۔ شکایات کا ازالہ ہو سکتا۔ پورے صوبے میں گنتی کے چند ڈیم ہیں۔ اچکزئی کے بھائی کا حلقہ خوش بخت ہے کہ اس کے لیے تیس ڈیم منظور ہو چکے۔
سیاست میں جمہوریت اور عدل کے تقاضوں پر پیہم لیکچر دینے والے محمود اچکزئی کو موقع ملا تو اسمبلی کے ٹکٹ رشتے داروں میں بانٹے اور وزارتیں بھی۔ محاورہ سچا کردیا: اندھا بانٹے ریوڑیاں‘ مڑ مڑ اپنوں کو۔
حالیہ بغاوت سے سینیٹ کا الیکشن خطرے میں پڑتا ہے یا نہیں؟ اسٹیبلشمنٹ کا اس میں کوئی کردار ہے یا نہیں؟ وقت ہی بتائے گا۔ الیکشن کمیشن کی وضاحت یہ ہے کہ الیکشن رکے گا نہیں‘ زیادہ سے زیادہ یہ کہ صوبے کی نشستیں بعد کے لیے اٹھا رکھی جائیں۔ بلوچستان کی سیاست پر موجودہ کشمکش کے اثرات بہرحال گہرے ہوں گے۔ اطلاع ہے باغیوں کو چھبیس ارکان کی حمایت حاصل ہو چکی۔ مزید ارکان کے آنے کی وہ امید رکھتے ہیں۔ جمعہ کی شب وزیراعلیٰ کے حامی‘ وفاقی وزیر حاصل خاں بزنجو تعجب کا اظہار کرتے رہے کہ قاف لیگ کی شروع کردہ تحریک میں نون لیگ‘ جمعیت علماء اسلام اور اختر مینگل کی پارٹیاں کیسے شامل ہو گئیں۔ اس سوال کا ایک جواب یہ ہے کہ پارٹیوں کی نہیں‘ یہ ارکان کی بغاوت ہے۔ ایک آدھ نہیں‘ سب کے سب ناراض ہیں۔
ناوک نے تیرے صید نہ چھوڑا زمانے میں
تڑپے ہے مرغ قبلہ نما آشیانے میں
دوسرا پہلو یہ ہے کہ یہ آئندہ الیکشن کی تیاری ہے۔ مثال کے طور پر اختر مینگل ایک بار پھر وزیراعلیٰ بننے کی امید پال رہے ہیں۔ کوئٹہ کے اخبار نویس کہتے ہیں کہ ان کے لہجے کی تلخی اب کم ہے۔ اب وہ کچھ عملیت پسند دکھائی دیتے ہیں۔ اسی طرح جمعیت علماء اسلام کوئٹہ میں اقتدار کا خواب کیوں نہ دیکھے۔ ارکان اسمبلی نواب زہری اور محمود اچکزئی کے درباری کیوں بنیں؟ کبوتر عقابوںکے پنجوں میں کیوں تڑپتے رہیں؟ منتظم کو ایک مشفق باپ کی طرح ہونا چاہیے۔ جس کے لاڈلے اور مقہور نہ ہوں۔ مگر عالی ظرفی ہر ایک کو نصیب نہیں ہوتی۔ اس کا تعلق باطن سے ہوتا ہے‘ آموختے سے نہیں۔ اکثر واعظوں کی زندگیاں ان کے ملفوظات سے مختلف ہوتی ہیں۔
شیخ محشر میں جو پہنچے تو اعمال ندارد
جس مال کے تاجر تھے‘ وہی مال ندارد
خبر یہ ہے کہ راتوں کی خاموشی میں میاں نواز شریف وزیراعلیٰ کو بچانے کی سرتوڑ کوشش کر رہے ہیں۔ سید مشاہد حسین کی اصطلاح مستعار لیتے ہیں۔ دیگوں کے منہ اگر کھول دیئے جائیں تو ممکن ہے وہ کامیاب رہیں۔ لیگی ارکان اور حلیفوں کے علاوہ‘ اپوزیشن پارٹیوں کے بھی کچھ نہ کچھ مطالبات تسلیم کرنا ہوں گے۔ سب سے بڑا مطالبہ ترقیاتی فنڈز کی فراہمی اور ملازمتوں میں حصہ رسدی ہے۔ بتیس ہزار ملازمتیں امیدواروں کے انتظار میں ہیں۔ الزام ہے کہ اہل اختیار حاجت مندوں سے نقد داد وصول کرنے کے خواہش مند ہیں۔ کچھ نہ کچھ دینا ہی پڑے گا‘ خاص طور پہ مولانا فضل الرحمن کو۔ اس فن میں میاں صاحب طاق ہیں۔ حاصل بزنجو کا خیال بہرحال یہ ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد کی کامیابی کے نوے فیصد امکانات ہیں۔ بزنجو صاحب کی رائے زیادہ معتبر اس لیے نہیں کہ کھال مست ہیں۔ اپنے عالی قدر والد غوث بخش بزنجو سے‘ اس باب میں آپ مختلف ہیں۔ زبان حال سے گویا پکارتے ہیں۔
مجھ کو تو ہوش نہیں‘ تم کو خبر ہو شاید
لوگ کہتے ہیں کہ تم نے مجھے برباد کیا
معلوم نہیں بچوں کی سی معصومیت سے بات کرنے والا یہ آدمی‘ اپنی وزارت کے ادق معاملات کیسے نمٹاتا ہے۔
اونٹ کس کروٹ بیٹھے گا۔ کوئی دن جاتا ہے کہ بات کھل جائے گی۔ سیاسی طور پر بلوچستان ہمیشہ سے منقسم ہے اورمستقل قریب میں منقسم ہی رہے گا۔ باقی تین صوبوں میں بھی‘ سیاسی پارٹیوں کی تشکیل جمہوری نہیں۔ بلوچستان میں حال اور بھی برا ہے۔ میاں محمد نوازشریف‘ نواب ثناء اللہ زہری اور جناب محمود اچکزئی نے اسے اور بھی بدتر کیا۔
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
بغاوت کے نتیجے میں کیا کچھ اصلاح ہوگی؟گرد اڑتی ہے‘ منظر ابھی واضح نہیں۔ ابھی کچھ کہا نہیں جا سکتا۔
''وامرھم شوریٰ بینھم‘‘ کسی کو یہ فرمان یاد نہیں‘ کسی کو بھی نہیں۔ وعظ ہی وعظ ہے‘ عمل کہیں نہیں۔ قال ہی قال ہے۔