سرکارؐ نے فرمایا: سیدالقوم خادمہم۔ قوم کا سردار وہ ہے، جو اس کا خادم ہو۔ آپؐ کے قولِ مبارک پہ غور کرنے کی فرصت مگر کہاں۔ نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان کے ملفوظات سنتے رہیے، سر دھنتے رہیے۔
یہ اندازِ فکر کا مسئلہ ہے اور اس کا کوئی آسان علاج نہیں۔ مریض دوا کھائے اور نہ پرہیز کرے تو معالج کیا کر سکتا ہے۔ حکمرانی کے باب میں ہم مریضانہ سوچ کا شکار ہیں۔ کچھ متحرک اور منظم لوگ ہوں جو ہمارے مسائل حل کر ڈالیں۔ کہنے کو جمہوریت ہے مگر لاشعور میں وہی بادشاہ بستے ہیں۔ واعظوں نے اس طرزِ فکر کو پختہ کیا ہے۔
عمر فاروقِ اعظمؓ کے محاسن خطیب بیان کرتا ہے۔ ان کی سادگی، نجابت، بے غرضی اور بے نفسی۔ یہ نہیں بتاتا کہ قحط اور جنگوں کے باوجود، سوشل سکیورٹی اور ملٹری انٹیلی جنس سمیت 26 ادارے تعمیر کیے۔ ججوں کی تنخواہیں گورنروں سے تین گنا زیادہ تھیں؛ حالانکہ گورنر بھی معاشرے کے بہترین لوگ ہوتے۔
امیرالمومنینؓ خطبہ ارشاد فرما رہے تھے کہ پریشان حال ایک غیر ملکی تاجر نمودار ہوا۔ اس نے کہا: ٹیکس ادا کر دیا گیا مگر گھوڑے بکے نہیں۔ واپسی پہ پھر ٹیکس دینا ہو گا۔ فرمایا: بالکل نہیں۔ اطمینان سے تم چلے جائو۔ اب یا تو پیغام رسانی کا کوئی مربوط اور قابلِ اعتماد نظام تھا یا پہلے سے ہدایات جاری تھیں۔
افراد نہیں بلکہ ادارے امن، عدل اور استحکام کے ضامن ہوتے ہیں۔ جب سے آدمی اس دنیا میں آیا ہے اور جب تک جیتا رہے گا، تنازعات موجود رہیں گے اور جرم بھی۔ دیکھنا یہ ہوتا ہے کہ ریاست کس طرح ان سے نمٹتی ہے۔
خلافت کی جگہ ملوکیت نے لی تو خلقِ خدا سے بے نیازی برتی جانے لگی۔ محلّات تعمیر ہوئے۔ دمشق کے سلاطین نے جاگیریں استوار کیں اور دادِ عیش دینے لگے۔ اللہ کی بارگاہ میں دعائیں باریاب ہوئیں تو دمِ واپسیں سلیمان بن عبدالملک نے عنانِ اقتدار عمر بن عبدالعزیز کو سونپ دی۔ قدرت کو شاید یاد دلانا تھا کہ پیروی اصولوں کی ہو تو ہر زمانہ عہدِ فاروقی ایسا جگمگا سکتا ہے۔ پہلے ہی دن اپنی جاگیروں کے کاغذات قینچی سے کاٹ کر پھینک دئیے۔ مزروعہ زمینیں کاشت کاروں کے حوالے کر دیں۔ پھر تمام شہزادوں کے۔ بنو امیہ ٹیکس وصولی میں بڑے ہی بے رحم تھے۔ بعض علاقوں میں نو مسلموں سے بھی جزیہ لیا جاتا۔ بہانہ یہ تھا کہ مصلحتاً انہوں نے اسلام قبول کیا ہے۔ ایک ایک صوبے کے بارے میں امیرالمومنینؒ معلومات جمع کرتے اور خط پہ خط لکھا کرتے۔ نمازِ عشا کے بعد ایک مجلس میں، جب دمشق کے اہلِ علم سے عمرؓ ابنِ خطاب کا پڑپوتا مشورے کیا کرتا۔ ایک دن گھبرا کر کسی نے کہا: امیرالمومنین اس طرح تو خزانہ خالی ہو جائے گا۔ ناراضی سے ارشاد کیا: ہاں‘ میں چاہتا ہوں کہ خزانہ خالی ہو جائے اور میں اس میں جھاڑو دے دوں۔ یا للعجب، ٹیکس کی آمدن بڑھی اور بڑھتی چلی گئی؛ حتیٰ کہ عہدِ فاروقی کے برابر جا پہنچی۔
لاہور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس منصور علی شاہ کہتے ہیں کہ پنجاب کو دس ہزار ججوں کی ضرورت ہے، جو پونے دو ہزار سے زیادہ نہیں۔ برسوں سے ماہرین چیخ رہے ہیں کہ پولیس میں تفتیش کا شعبہ الگ کیا جائے اور اس کے لیے زیادہ رقوم مختص ہوں۔ ایک دن بیٹھے بٹھائے وزیرِ اعلیٰ نے پنجاب پولیس کی تنخواہیں دُگنی کر دی تھیں۔ کچھ بھی اس سے حاصل نہ ہوا۔ یہی رقم اگر عدالتی نظام کو بہتر بنانے اور تفتیش کے شعبے کو منظم کرنے پہ صرف کی جاتی۔ پختون خوا کی طرح تھانوں میں اگر موثر مصالحتی کمیٹیاں قائم کر دی جاتیں تو بیشتر مقدمات نمٹ گئے ہوتے۔ معاشرے کو کچھ نہ کچھ امن اور قرار نصیب ہوا ہوتا۔ جیسا کہ پرویز خٹک کے صوبے میں ہوا؛ حالانکہ ٹیم ان کی نا تجربہ کار تھی۔ خٹک کے مقابلے میں شہباز شریف کہیں زیادہ متحرک اور تجربہ کار ہیں۔ فرق یہ ہے کہ پختون خوا میں پولیس اور سول سروس میں سیاسی مداخلت برائے نام ہے۔ پنجاب میں منصب اسے ملتا ہے، جو روحانی پیشوائوں کی طرح شریف خاندان کی اطاعت کرے۔
قصور کا المناک واقعہ رونما ہوا تو سوشل میڈیا پہ محترمہ مریم نواز نے ارشاد کیا کہ عدالتیں ملزموں کے ساتھ نرمی نہ برتیں۔ ان کے گرامی قدر والد نے صوبائی حکومت کو ہدایت کی کہ مجرم جلد از جلد کیفرِ کردار تک پہنچائے جائیں۔ اس پولیس اور ان عدالتوں کو بہتر بنانا کس کی ذمے داری تھی؟ لاہور، راولپنڈی اور ملتان کے لیے میٹرو بس کا مطالبہ کس نے کیا تھا؟ ان پر ڈیڑھ سو ارب روپے کس لیے ضائع کر دئیے گئے۔ انتہا یہ ہے کہ ایوانِ وزیرِ اعظم کے غسل خانے پر ظلِ الٰہی میاں محمد نواز شریف نے اڑھائی کروڑ روپے خرچ کر ڈالے۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ کسی کو شرم نہیں آتی۔ احتساب کا کوئی نظام نہیں۔ دمشق کے گورنر امیر معاویہؓ نے گارے اور پتھروں سے ایک ڈیوڑھی بنا لی تھی تو پشت پر ہاتھ باندھ کر مدینہ منورہ لائے گئے تھے۔ اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ایوانِ وزیرِ اعظم میں، سنہری غسل خانہ بنانے پر اسمبلی میں التوا کی ایک تحریک بھی پیش نہ ہو سکی۔
میاں صاحب نے فرمایا کہ وکیلوں کی بھاری فیسوں نے ان کی کمر توڑ دی۔ یہ اس آدمی کا حال ہے، جس کی جائیداد کا تخمینہ پانچ سو سے چھ سو ارب روپے لگایا جاتا ہے۔ ڈالر کی قیمت میں تیرہ فیصد اضافے کے بعد پچاس ارب اور بڑھ گیا ہو گا۔ فرمایا: پہلے سے علم ہوتا تو میں عدالتی نظام بہتر بنانے کی کوشش کرتا۔ کوئی بے خبری سی بے خبری ہے۔ ماڈل ٹائون میں پانچ گھنٹے قتلِ عام ہوتا رہا اور وزیرِ اعلیٰ کو خبر نہ ہو سکی۔ عدالتی نظام مسخ ہوتے ہوتے برباد ہو گیا اور وزیرِ اعظم کو پتہ نہ چل سکا۔
پتہ پتہ، بوٹا بوٹا، حال ہمارا جانے ہے
جانے نہ جانے گل ہی نہ جانے، باغ تو سارا جانے ہے
خبطِ عظمت اور نرگسیت کے مارے ہوئے لوگ، عام آدمی کو جو انسان نہیں سمجھتے۔ اختلاف کرنے والے سے نفرت کرتے ہیں۔ بے فکری سے قومی خزانہ لٹاتے اور خلقِ خدا سے امید رکھتے ہیں کہ ان کی پوجا کرے۔ ایک ایک سرکاری اشتہار پر جن کی تصاویر چھپتی ہیں۔ ایک ایک سڑک اور پل تعمیر کرنے پر قوم سے جو داد کے طالب ہیں۔ گویا کوئی ذاتی احسان ہے۔ دنیا کی کسی قوم کو ایسے عالی ظرف کب نصیب ہوئے ہوں گے۔ اجڑے ہوئے سنگاپور کو لی کوان یو نے عظیم معاشی قوت بنا دیا۔ چین میں ساٹھ کروڑ انسان غربت کی دلدل سے نکال لیے گئے۔ مہاتیر محمد کے ملائیشیا میں فی کس آمدنی پچاس ڈالر سے پانچ ہزار ڈالر تک جا پہنچی۔ کسی نے اپنی قوم پہ احسان نہ جتلایا۔ شریف خاندان جتلاتا ہے؛ حتیٰ کہ زرداری صاحب بھی۔ زرداری صاحب کا مطالبہ یہ ہے کہ اقتدار کی کشمکش میں مارے گئے ذوالفقار علی بھٹو اور بے نظیر بھٹو کو قرونِ اولیٰ کے شہدا میں شمار کیا جائے اور آنجناب کو ان کا وارث مانا جائے۔ لوٹ مار کی اجازت انہیں حاصل رہے۔ چند بڑی سڑکیں اور پل بنانے والے شریف خاندان کی خواہش یہ ہے کہ انہیں قائدِ اعظم کی سی عظمت کا امین سمجھا جائے۔ قائدِ اعظم اپنی اولاد کو اقتدار سونپنے کے آرزومند نہیں تھے۔
عمران خان اور ان کے پیروکاروں کا اندازِ فکر بھی یہی ہے۔ جب تک یہ خود پسند لیڈر اور ان کے فدائین کی غلامانہ فکر کار فرما ہے، معاشرہ اسی طرح خوار و زبوں رہے گا، اسی طرح بیمار۔ ابدیت سفر کو ہے، مسافرکو نہیں۔ اہمیت قوم اور ملک کی ہے، خود اپنی قصیدہ گوئی کرنے والے لیڈروں کی نہیں۔
سرکارؐ نے فرمایا: سیدالقوم خادمہم۔ قوم کا سردار وہ ہے، جو اس کا خادم ہو۔ آپؐ کے قولِ مبارک پہ غور کرنے کی فرصت مگر کہاں۔ نواز شریف، آصف علی زرداری اور عمران خان کے ملفوظات سنتے رہیے، سر دھنتے رہیے۔