کیا یہ علماء کرام واقعی انبیاء کے وارث ہیں؟ نفرت کے یہ سوداگر!
گرامی قدر استاد حافظ ابنِ قیم ّ کا شاگرد‘ ان سے ملاقات کی تیاری میں لگا تھا۔ آئینے کے سامنے کھڑا ہوا تو یکایک خیال آیا: رحمتہ اللعالمینؐ اسی طرح اچانک ‘ شہر میں وارد ہوتے تو کیا ایسا ہی اہتمام وہ کرتا؟ اس کے دل نے کہا: بالکل نہیں‘ بھاگتا ہوا چلا جاتا اور آپؐ کے قدم لیتا۔
ایک مذہبی جماعت کے اجتماع میں شرکت کے لئے اسلام آباد سے اخبار نویس لاہور پہنچا۔جہاز کا ٹکٹ بھیجا۔ بہت اصرار انہوں نے کیا تھا۔ ہوائی اڈے پہ خیرمقدم کرنے والوں میں تپاک اور خوش دلی تھی۔ نواحِ شہر میں تقریب کے مناظر دل گرما دینے والے تھے۔ کچھ نہ کچھ حسنِ ظن بھی ان سے یقینا تھا۔ پھر ایک مقرر سٹیج پہ نمودار ہوا۔
عکرمہ بن ابو جہل کا قصّہ اس نے بیان کیا۔ فتح مکّہ کے بعد سمندر کا انہوں نے رخ کیا کہ دوردراز کی کسی سرزمین میں جا بسیں۔ کشتی کو طوفان نے آ لیا تو مسافروں نے پروردگار کو پکارا۔ یااللہ! یا اللہ!
ہر موت تکلیف دہ ہوتی ہے مگر سمندر کی سب سے اذیت ناک۔ اور بھی ایسے ہوں گے کہ دلاوری استثنیٰ ہے‘ معدوم نہیں۔ تاریخ نے مگر‘ ایک ہی آدمی کی داستان محفوظ رکھی ہے‘ بحرِ احمر کے طوفان کو‘ جس نے آنکھ اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور اپنے منصوبے کی جزئیات میں مگن رہا۔ بالکل اسی طرح جیسے اقبالؔ عالمگیر جنگ سے بے نیاز‘ ''اسرار و رموزِ بے خودی‘‘ لکھتے رہے۔
پھر عرشے پروہ نمودار ہوا اور گھنٹوں کے غوروفکر کا حاصل اس نے بیان کردیا۔ ''کاروبار حکومت میں وقت بہت ضائع ہوتا ہے۔‘‘ اس نے کہا اور دستبردار ہونے کا ارادہ ظاہر کیا۔ ''میں ایک لشکر بنائوں گا اور زمین کے آخری کونے تک اللہ کے دشمنوں کا پیچھا کروں گا‘‘ سوانح نگار نے بیان کیا ہے‘ جس نے ساری زندگی فاتح کے ساتھ بسر کی تھی۔ اس آدمی کا نام صلاح الدین ایوبی تھا۔اس نے لکھا ہے: میں حیران رہ گیا اور میں نے کہا: موت کے خوف سے چہرے زرد ہیں اور آپ اس قدر شانت!
وہی آدمی‘ حالتِ جنگ میں‘ جس نے اپنا گھوڑا دشمن رچرڈ کے حوالے کردیا تھا۔ رچرڈ شیر دل‘ جو آج بھی برطانیہ کا ہیرو ہے۔ یہی نہیں‘ جب وہ بیمار ہوا تو علاج کے لئے اپنا طبیب‘ بھیجا ۔ جنگ بھی کیسی کہ جس پر بیت المقدس کے مستقبل کا انحصار تھا۔
قاہرہ کی تسخیر کے ہنگام‘ جس کے بعد خیرہ کن فتوحات کا آغاز ہوا‘ صلاح الدین نے کسی محل میں قیام سے گریز کیا۔ وہ ایک لائبریری میں جا بیٹھا۔ نسبتاً ایک چھوٹے سے مکان میں بسیرا کیا۔ صبح دم اسے جامع مسجد میںدیکھا جاتا‘ جہاں بعض اوقات وہ جھاڑو دیا کرتا۔ پھر وہ پھلوں سے ناشتہ کرتا اور پریڈ گرائونڈ میں چلا جاتا۔
جنگ میں جو قتل ہوئے‘ سو قتل ہوئے۔ دو صدیوں کے بعد بیت المقدس آزاد ہواتو چشمِ آفتاب نے وہ منظر دیکھا‘ مغرب آج بھی جس سے مسحور ہے۔ اجنبی ممالک سے یروشلم میں در آنے والے ایک ایک باسی کو اس نے اپنے گھروں کو لوٹ جانے کی اجازت دی۔ دس دینار فی کس جرمانے کے عوض... اور جو لوگ یہ جرمانہ ادا نہ کر سکے‘ ان کا قرض سب سے پہلے‘ خود سلطان اور پھر اس کے امیروں نے ادا کیا۔
بے سبب نہیں کہ جب سے فلمی صنعت وجود میں آئی ہے‘ ہر دس بیس برس کے بعد صلاح الدین پر ایک نئی فلم بنتی ہے یا ڈرامہ سیریل۔ عربوں نے کتابیں لکھیں۔ سب سے بڑھ کر تو وہی اس کے رفیق کی‘ سلطان جس سے فقہ کی تعلیم بھی پایا کرتا۔ زیادہ خراجِ تحسین لیکن مغربی مصنفین نے پیش کیا۔ تیمور اور چنگیز خان سمیت درجن بھر تاریخ ساز شخصیات کا صورت گر ہیرالڈ لیم تو اس طرح اس پہ نثار ہوتا ہے‘ جس طرح شاعر اپنے محبوب پر۔ ''بادشاہ نہیں‘ وہ ایک ولی تھا‘‘ اس نے لکھا ہے۔ یہی بات جناب عمر بن عبدالعزیز کے باب میں‘ ان کے ہم عصر قیصرِ روم نے کہی تھی: بادشاہ نہیں‘ وہ ایک راہب تھا‘ دنیا اس کے قدموں پر نثار ہوگئی مگر اس نے آنکھ اٹھا کر بھی اس کی طرف نہ دیکھا۔
کبھی ہم ایسے تھے۔ اپنی رواداری‘ وسعتِ قلب اور انسان دوستی‘ پہ دشمن سے بھی داد پانے والے...اور کیوں نہ ہوتے ہم سرکارؐ کے امتی تھے۔ اب ہم نہیں ہیں اور ہمارا شاعر یہ کہتا ہے۔
رحمتِ سید لولاکؐ پہ کامل ایماں
امت سیّدِ لولاکؐ سے خوف آتا ہے
واعظ نے یہ کہا: عکرمہ نے مشرکین کو ''اللہ اللہ‘‘ پکارتے سنا تو یہ کہا: اپنے بتوں سے تم کیوں مدد نہیں مانگتے۔ ''نہیں‘ نہیں‘‘۔ انہوں نے کہا: ایسے میں زمین و آسمان کے خالق ہی کو پکارا جاتا ہے۔ جیسا کہ سب جانتے ہیں‘ وہ لوٹ آئے اور صفِ اوّل کے مجاہدین میں شامل ہوگئے۔ وہ لوگ جو جان ہتھیلی پہ لیے پھرتے تھے‘ جن کا مثیل دنیا نے پھر نہ دیکھا۔ مغلوں اور ترکوں کے لشکر دیکھے مگر وہ نہیں۔
اپنا مرکزی خیال مقّرر واضح کر چکا تو اس نے کہا: پاکستانی مسلمان مشرکینِ مکّہ سے بھی بدتر ہیں‘ مصیبت اور موت میں بھی قبروں کو پکارتے ہیں۔
خاموشی سے اخبار نویس اٹھا‘ طبیعت کی خرابی کا بہانہ کیا اور اسلام آباد جانے کے لئے‘ لاہور واپس آگیا۔
بارہ برس ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے مذہبی مکتبِ فکر کے سب سے جیّد عالم نے فون پر رابطہ کیا۔ چھوٹتے ہی بولے: آپ کے معتوب طبقے سے میرا تعلق ہے۔ عرض کیا: بالکل نہیں۔ کسی بھی مسلمان کا اعتراض علماء سو پر ہوگا۔ آپ کے والدِ بزرگوار کی دل و جان سے میں عزت کرتا ہوں‘ اپنے شیوخ کی ناراضی مول کر‘ انہوں نے تحریکِ پاکستان میں حصہ لیا تھا اور والہانہ۔کوئی دن میں کچھ کتابیں انہوں نے ہدیہ کیں۔ ایک میں اپنے بزرگوں اور دوسری میں اپنی مدح!
پانچ برس ہوتے ہیں‘ ایرانی سفارت خانے کے اصرار پہ تہران کا قصد کیا۔ ایرانی بالعموم مرتب اور شائستہ ہیں۔ جلد ہی احساس ہوا کہ اپنے پاکستانی مہمانوں کو وہ قدرے کمتر سمجھتے ہیں۔ یہ بھی گوارا تھا‘ظاہری تواضع کے باوجود کہ خود ترسی میں گندھی قوم پرستی ایرانیوں کی گھٹی میں پڑی ہے۔ پاکستان سے بالخصوص کدنہیں۔ ہمارے ساتھ عشروں تک خوشگوار مراسم بھی رہے۔ ترکوں اور عربوں سے‘ ان کی آویزش صدیوں سے چلی آتی ہے۔ آج کے عرب حکمرانوں کی وکالت کوئی اندھا ہی کر سکتا ہے؛ باایں ہمہ نفرت کی بھی ایک حد ہوتی ہے۔ دو برس ہوتے ہیں‘ ایران کی ممتاز ترین شخصیات میں سے ایک نے کہا: فلاں ملک کے عرب حکمران‘ طائف کے مشرکین سے بھی بدتر ہیں۔
قاتلوں کے اس پورے گروہ کو مثالی سزا عدالت نے سنا دی ہے‘ جس نے معصوم مشال کو بے دردی سے قتل کیا تھا۔ اپوزیشن کا دل اب بھی ٹھنڈا نہیں ہوا کہ وہ گردنوں کی ایک پوری فصل کاٹ دینا چاہتے ہیں۔ موقع ملے تو عمران خان اور پختون خوا پولیس کی مذمت بھی کرتے ہیں۔ جانتے بوجھتے ہوئے کہ ملک بھر میں وہی سب سے بہتر ہے۔ اس سے زیادہ عدالت بھی کیا کرتی کہ دس ماہ میں مقدمہ نمٹا دیا۔ اس معاشرے میں جہاں وکیل مجرموں کے مددگار ہوتے ہیں‘ معصوموں کے نہیں۔ جہاں تفتیش کرنے والے مقدمے نہیں‘ ورثا کی جیبوں پہ نظر رکھتے ہیں۔ پختون خوا پولیس کے خلاف نون لیگ کی مہم کل بھی جاری رہی۔ اقتدار کی جنگ میں حیا نام کی کوئی چیز نہیں ہوتی۔
جھوٹ بولنے اور نفرت پھیلانے والوں میں سیاستدان کسی سے پیچھے نہیں‘ مگر علماء کرام؟ قولِ رسول اکرمؐ جنہوں نے پڑھا اور پڑھاتے ہیں‘ ''رحم کرو‘ تم پہ رحم کیا جائے گا۔‘‘ ''سلامتی دو‘ تمہیں سلامتی عطا ہوگی‘‘۔
مشال کے قاتل انجام کو پہنچے لیکن نفرت کے وہ عوامل تو وہیں کے وہیں ہیں۔ فقط فصل کاٹنے سے کیا ہوگا۔ آبیاری تو شدومد سے جاری ہے...اور یاللعجب کون یہ کاروبار کرتا ہے؟ علماء جنہیں‘ انبیاء کے وارث کہا گیا۔
کیا یہ علماء کرام واقعی انبیاء کے وارث ہیں؟ نفرت کے یہ سوداگر!