"HRC" (space) message & send to 7575

سسکتے ہیں ابھی چند چراغ

مگر اب کہاں‘ اب خورشید رضوی ہیں‘ اظہارالحق ہیں‘ افتخار عارف ہیں اور ظفر اقبال
ہے غنیمت کہ سسکتے ہیں ابھی چند چراغ
انہی ستاروں کی روشنی میں نثر نگار دشتِ صحرا کو قطع کرتے ہیں۔ نثر نگار شاعروں سے کبھی بے نیاز نہیں ہو سکے۔
ظفر اقبال تو ظفر اقبال ہیں۔ اپنے عہد کے سب سے بڑے شاعر۔ کچھ دن ہوتے ہیں برادرم جلیل عالی نے ڈانٹ پلا دی: نہ صرف نجیب احمد کا شعر، منیرؔ نیازی سے تم نے منسوب کیا بلکہ اس کا مثلہ بھی کر ڈالا ''پتوں کا رنگ خوف سے پہلے ہی زرد تھا‘‘ نہیں، بلکہ
پتوں پہ رخصتی کی رسومات قرض تھیں
پاگل ہوا کے ہاتھ میں شہنائی آ گئی
فون کی گھنٹی بجی۔ دوسری طرف جناب ظفر اقبال تھے۔ ایک چھوٹی سی ذمہ داری انہوں نے سونپی تھی۔ ڈانٹ سننے کے لیے ذہنی طور پر میں تیار ہو گیا مگر یہ ایک دوسرا موضوع تھا۔ فرمایا: گستاخی کا ارادہ ہے۔ شعر کی ٹانگ تم توڑتے ہی رہتے ہو۔ گاہے ذکر بھی کیا لیکن اب ذرا تفصیل کا ارادہ ہے۔ گستاخی کیسی، تصحیح سعادت ہے، استاد کا درجہ فائق۔
ایک آدھ غلطی کیا، درجنو ں نہیں، سینکڑوں بار۔ عزیزم سجاد کریم اور عمار چوہدری کرم فرماتے ہیں۔ جب بھی کوئی شعر نقل کروں، انٹرنیٹ پر جانچ لیتے ہیں ورنہ غلطیوں کی تعداد اور بھی زیادہ ہوتی۔ 9 برس ہوتے ہیں، جاوید چوہدری نے مشورہ دیا کہ فقط حافظے پہ بھروسہ نہ کرنا چاہیے۔ فوراً تو نہیں، کچھ عرصے بعد ایک عدد کمپیوٹر خرید لیا۔ عزیزم بلال الرشید نے فوراً ہی اس پر قبضہ کر لیا۔ سال بھر کے بعد دوسرے کمپیوٹر کا انجام بھی یہی ہوا۔ اسی پر یہ کالم کمپوز ہوتا ہے۔ دو ماہ قبل ایک اور خریدا۔ الماری میں پڑا ہے‘ نیا نکور۔
ساری زندگی ناکردہ کاری میں بیت گئی۔ لائبریری لبریز ہے۔ مزید کتابوں کی گنجائش اب اس میں نہیں۔ الماریوں میں ٹھنسی ہیں، میزوں اور تپائیوں پہ پڑی ہیں۔ ایک آدھ نہیں، کتنی ہی لغات دھری ہیں۔ سیڑھیاں چڑھنے اترنے میں تین چار منٹ سے زیادہ کیا درکار ہوں گے۔ چھ ماہ سے لائبریری میں قدم نہیں رکھا۔ چالیس برس ہوتے ہیں، بڑے بھائی میاں محمد خالد حسین نے بتایا: ایک ایسا ٹائم پیس میرے پاس ہے کہ ایک آدھ منٹ کے بعد دوبارہ بجتا ہے۔ پھر تیسری، چوتھی اور پانچویں بار۔ اللہ کے فضل سے اس کے باوجود، نیند پوری کیے بغیر، بستر سے اٹھے کبھی نہیں۔
1988ء میں کمپیوٹر سیکھنے کا ارادہ کیا تو ایک دوست کی خدمت میں حاضر ہوا۔ انہوں نے کہا: پندرہ دن کی بات ہے۔ اس کے بعد براہِ راست آپ کمپیوٹر پر لکھ لیا کریں گے، نک سک سے درست۔ تیس برس بیت گئے، عزم برقرار ہے۔
ساڑھے نو بجے شب سے صبح تین بجے تک جاری رہنے والی، جنرل کیانی کی ''محفلِ شبینہ‘‘، اچانک وہ بولے: آپ کی یادداشت بہت اچھی ہے۔ مجھے کچھ حیرت ہوئی۔ جنرل کے حافظے کا عالم یہ ہے کہ چار گھنٹے کی بریفنگ اور لیکچر کے لیے بھی نوٹس نہیں لکھتے۔ ذہن میں مرتب کرتے ہیں۔ ایسے آدمی سے، مجھ سے بے ترتیب کی یادداشت کا موازنہ کیا۔ عرض کیا: شعر، آیت، حدیث، حکایت اور دل کو چھو لینے والا واقعہ یاد رہتا ہے۔ جزئیات میں غلطی البتہ ہو جاتی ہے۔ تاریخ یاد نہیں رہتی۔ راستے بھول جاتا ہوں۔ چھ سات برس تک ماڈل ٹائون لاہور والے مکان میں حسن نثار سے ملنے جاتا رہا۔ ہر بار گلی کی نکڑ تک اسے زحمت کرنا پڑتی؛ الّا یہ کہ منظور حسین گاڑی چلاتا ہو۔ منظور حسین کو ہر بات یاد رہتی ہے، تمام لوگ، سب راستے، سب نام، لین دین کی ہر تفصیل۔ اپنا حال یہ ہے کہ 1978ء میں ایک بار اپنے ہی گھر کی راہ بھول گیا تھا، فیروز پور روڈ کی بجائے جب مسلم ٹائون سے ماڈل ٹائون کے ڈی بلاک میں داخل ہونے کی کوشش کی۔ والدہ مرحومہ بی بی جان ہمراہ تھیں۔ اس دن کی گھبراہٹ آج تک یاد ہے۔
یہ 1964ء تھا، جب تعمیرِ ملت ہائی سکول رحیم یار خان کی نویں جماعت میں استادِ گرامی انیس احمد اعظمی کو پہلی بار دیکھا۔ آموختہ پڑھا چکے تو دو حصوں میں بٹی کلاس کی راہداری میں ٹہلتے رہے۔ لحنِ دائودی اور اسداللہ خاں غالب ؔ
دم لیا تھا نہ قیامت نے ہنوز 
پھر تیرا وقتِ سفر یاد آیا
ساتویں جماعت کے ایک مقابلے میں بانگِ درا انعام میں پائی تھی۔ چند اشعار یاد تھے لیکن اب شعر و ادب کی لامتناہی بہشتوں کا دروازہ کھلا۔ میر تقی میرؔ، غالبؔ اور فیضؔ ہی نہیں، خواجہ میر دردؔ، ذوقؔ، آتشؔ، یاس یگانہؔ چنگیزی، جگرؔ مراد آبادی اور عبدالحمید عدم ؔ ہی نہیں، حیدر آباد کا جواں مرگ قابلؔ اجمیری بھی
تم نے پیمانِ محبت تو کیا تھا لیکن 
اب تمہیں یاد نہیں تو مجھے شکوہ بھی نہیں 
کس کڑے وقت میں بدلی ہیں نگاہیں تم نے 
جب مجھے حوصلۂ ترکِ تمنا بھی نہیں 
حیرتیں کہتی ہیں، وہ آ کے گئے بھی کب کے
ذوقِ نظارہ پریشاں ہے کہ دیکھا بھی نہیں
سینکڑوں اشعار ہیں، جو انیس صاحب سے سنے اور ازبر ہو گئے۔ یہ اردو شاعری کا عطر تھا۔ آئندہ برسوں میں دل و جان کی وادیوں میں اقبالؔ اترے اور ہمیشہ ہمیشہ کے لیے براجمان ہو گئے
خواجۂ من نگاہ دار آبروئے گدائے خویش
کہ ازما بجوئے دیگراں پر نہ کنند پیالہ را
اے میرے آقا اپنے گدا کی آبرو پہ نگاہِ کرم کیجیے۔ دوسروں کی آبجو سے پیالہ بھرنے کا روادار میں نہیں۔
مرزا شفیق مرحوم کو کروٹ کروٹ اللہ جنت نصیب کرے۔ اس کیف اور لہک سے امرائوالقیسؔ، زہیر بن ابی سلمیٰؔ، متنبیؔ اور اقبالؔ کے اشعار سنایا کرتے: 
الا لا یجہل عہدً علینا
فنجہل اجہل الجاہلین
خبردار کوئی ہم سے جہالت کی بات نہ کرے۔ ایسے میں ہم، سب سے بڑے جاہل ہو جایا کرتے ہیں۔
صحافت کی بے ترتیب زندگی میں مطالعے کا بے ترتیب سلسلہ جاری رہا۔ منیر نیازیؔ، مجید امجد، ظفر اقبال، افتخار عارف، خورشید رضوی، اظہارالحق اور شعیب بن عزیز اور بہت سے دوسرے تلامیذالرحمٰن
پربتوں کی ترائیوں میں ردائے رنگ تنی ہوئی
بادلوں کی بہشت میں گلِ آفتاب کھلا ہوا
اور ظفرؔ کا وہ حشر ساماں شعر:
دل کا یہ دشت عرصۂ محشر لگا مجھے 
میں کیا بلا ہوں، رات بڑا ڈر لگا مجھے
ظفر اقبال کا ایک اور شعر ہے جو آج بھی اسی طرح قیامت ڈھاتا ہے:
کاغذ کے پھول سر پہ سجا کے چلی حیات 
نکلی برونِ شہر تو بارش نے آ لیا
اب یہاں شعیب بن عزیز یاد آتے ہیں۔ بعض بلند پرواز، کم کوش جنہیں شاعر ہی نہیں مانتے
خوب ہو گی یہ سرا دہر کی لیکن اس کا
ہم سے کیا پوچھتے ہو، ہم کو ٹھہرنا کب ہے
اگر یہ بلند پایہ شاعری نہیں تو شاعری کس چڑیا کا نام ہے؟
طبیعت کا مدوجزر آج بے قابو ہے۔ صبح سویرے ایک دوست نے اطلاع دی، الحمدللہ ان کے فرزند کوکینسر لاحق نہیں، پرسوں پرلے روز ڈاکٹروں نے جو تشخیص کیا تھا؛ تاہم زندگی اب بھی خطرے میں ہے۔ اخبار اٹھایا تو ناچیز کے بارے میں ظفر اقبال کا کالم۔ کئی دن قبل ہی متنبہ انہوں نے کر دیا تھا۔ محض تنقید ہی پر اکتفا کرتے تو بھی اعزاز ہوتا۔ ازراہِ کرم کالم نگاری کی سند بھی عطا کر دی۔ ایاز قدرِ خود بشناس۔ (باقی صفحہ نمبر13پر)
چار برس کے بعد بلال الرشید نے آج واقعی ایک کالم لکھ ڈالا ہے۔ بہت دنوں سے سوچ رہا ہوں کہ یہ چھوٹی سے مشق اس کے حوالے کروں اور اپنا آرام بڑھا لوں۔ پڑھا اس نے بہت‘ غور و فکر بھی مگر کلاسیک میں دل نہ لگا۔ اس کے بغیر کیا؟ اس کے بغیر کیا۔ تاج محل میں جو مبتلا نہ ہوا وہ آرکیٹیکٹ کیسے بنے گا؟
منصور آفاق کچھ دیر میں آ پہنچیں گے۔ ایک بار پھر اُن سے پوچھوں گا: کیا واقعی احمد فرازؔ میر صاحب سے بڑ ے شاعر ہیں؟ اپنے دلائل وہ دہرا چکیں گے تو ناسخـؔ کا وہی مصرع ایک بار پھر ان کی نذر کروں گا ع
آ پ بے بہرہ ہے جو معتقد میرؔ نہیں
مگر اب کہاں‘ اب خورشید رضوی ہیں‘ اظہارالحق ہیں‘ افتخار عارف ہیں اور ظفر اقبال
ہے غنیمت کہ سسکتے ہیں ابھی چند چراغ
انہی ستاروں کی روشنی میں نثر نگار دشتِ صحرا کو قطع کرتے ہیں۔ نثر نگار شاعروں سے کبھی بے نیاز نہیں ہو سکے۔

 

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں