کیا عمران خان کے ساتھ بھی وہی ہو گا، فروری 1997ء کا الیکشن جیتنے کے بعد، جو نواز شریف کے ساتھ ہوا تھا۔ پہلے ہی اجلاس میں اپنی کچن کیبنٹ سے انہوں نے پوچھا تھا ''ہُن کی کریے‘‘ (اب کیا کریں)۔
کہا جاتا ہے کہ تاج محل اگر آج تعمیر کیا جائے تو دس بلین ڈالر اٹھیں گے۔ اس کے باوجود، ایسی دل آویز عمارت نہ بن سکے گی۔ کوئی بھی شاہ کار تعمیر کرنے کے لیے، جس مہارت، لگن اور ولولے کی ضرورت ہوتی ہے، وہ کہاں سے آئے گا۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
معجزۂ فن کی ہے خونِ جگر سے نمود
قوموں کی تعمیر و تشکیل، معاشروں کی اخلاقی اور علمی تربیت، ان کے سماجی ادارے، لاکھوں بستیوں کے لیے دفاع، امن و امان اور نظامِ عدل کا قیام، ریاضت کیشی اور ایسی جگر کاوی چاہتا ہے، جس میں سب دوسری چیزیں ثانوی ہو جاتی ہیں۔ آدمی اپنی ترجیحات کا اسیر ہوتا ہے۔ اپنے اعلیٰ ترین مقصد کو نسبتاً ادنیٰ چیزوں پہ کبھی قربان نہیں کرتا۔ ہمارے عہد کے عارف کا قول یہ ہے کہ اللہ اگر ترجیحِ اوّل نہیں تو سالک اسے نہ پا سکے گا۔ پچیس برس ہوتے ہیں ایک امریکی یونیورسٹی کے ڈین نے، درویش سے سوال کیا: آپ نے اللہ کو کیسے ڈھونڈ نکالا‘ میری ربع صدی کی کاوش تو رائیگاں رہی۔ اس نے جواب دیا: Professor! God is not a by-product of mathematical calculations. It can be the result of highest intellectual Curiosity ۔(خدا ریاضی میں کی جانے والی مشقت کی ضمنی پیداوار نہیں ہو سکتا‘ اعلیٰ ترین علمی تجسس کی بہترین ترجیح ہی سے پروردگارِ کون و مکاں تک پہنچا جا سکتا ہے)
پاکستان کا قیام ایک معجزہ ہے ۔ ایک ایسے شہ دماغ نے اس کا خواب دیکھا، تاریخِ انسانی جس کی شاید ہی کوئی دوسری مثال پیش کر سکے ۔ وہ ایک شاعر تھا مگر ایک عظیم سیاسی مفکر اور ایک بے پناہ فلسفی بھی۔ کوئی دوسرا شاعر کبھی نہیں تھا، جس نے اپنے معاشرے کو اس قدر بدل ڈالا ہو جتنا کہ اقبالؔ نے ۔ مضامینِ تازہ کے انبار ہی نہیں لگائے ، اسے ایک مردانہ آہنگ، سینکڑوں نئی تشبیہات اور یکسر نیا لہجہ عطا کیا ، حتیٰ کہ وہ ایک علمی مجدد کے مقام پر فائز ہوا۔
نصف صدی کے پیہم مباحثے کے بعد برصغیر کو بالآخر وہی سیاسی حل قبول کرنا پڑا، فلسفی شاعر نے جو تجویز کیا تھا۔ ہندوستان کے شمال مشرق اور جنوب مغرب میں دو اسلامی ریاستوں کا وجود۔ نئی مملکت کے قدیم اور نئے دشمن، ہندو انتہا پسند، نام نہاد قوم پرست کٹھ ملا، پرانے اشتراکی اور نئے بھارت نواز ، الحاد کی تحریکوں کے فرزند، این جی اوز کے نام پر غیر ملکی ایجنڈے کو بروئے کار لانے والے کارندے، سب کے سب مل کر بھی اب اس ملک کو منہدم نہیں کر سکتے۔ حالانکہ خود شکنی میں کوئی کسر ہم نے چھوڑی نہیں ، سیاسی جماعتوں اور نہ عسکری قیادت نے۔ پہاڑ جیسی غلطیاں ہم نے کی ہیں۔ اس کے باوجود ، اگر یہ مملکت قائم ہے تو اس لیے کہ نظریاتی بنیاد اس کی مضبوط ہے۔ بھارت اور مغرب نوازوں کی مدد سے، اس کی سب سے بڑی سیاسی پارٹی کا لیڈر کئی برس سے ، یہ بنیاد منہدم کرنے کی کوشش کر رہا ہے۔ ہر بار مگر اس نے خاک چاٹی ہے۔ تازہ ترین مثال توہینِ رسالت کے قانون میں نقب لگانے کی کوشش تھی ، جو ظاہر ہے کہ امریکی ایما پر کی گئی۔
بار بار اس نکتے کی نشاندہی کی گئی ، جو رسول اکرمﷺ سے منسوب ایک قول میں آشکار ہے: دانا وہ ہے جو اپنے عصر کو جانتا ہو۔ Modern Muslim State ‘ قائد اعظم کہا کرتے تھے ''ایک جدید مسلم ریاست‘‘۔ تحریکِ خلافت کی ڈٹ کر انہوں نے مخالفت کی تھی ، جب کہ سارا کا سارا مسلم برصغیر جذبات کے طوفان میں بہہ گیا تھا، حتیٰ کہ معلوم ہندوستانی تاریخ کے سب سے بڑے ہندو لیڈر، مہاتما موہن داس چند کرم گاندھی نے بھی اس کی حمایت کر دی تھی۔ محمد علی جوہر ایسا بے مثال لیڈر اس تحریک کا سب سے مقبول رہنما تھا‘ جس کے بارے میں اردو ادب کے نابغہ رشید احمد صدیقی نے لکھا تھا ''محمد علی بولتے تو یوں لگتا کہ شاہ جہاں کے ذہن میں تاج کا نقشہ ابھر رہا ہے، جیسے ابوالہول کی آواز اہرام مصر سے ٹکرا رہی ہے، جیسے کرپ کے کارخانے میں توپیں ڈھل رہی ہیں‘‘۔
محمد علی تھک گئے۔ پچاس برس کی عمر میں ذیابیطس نے ان کی توانائی چاٹنا شروع کر دی۔ چوّن برس کے تھے، جب لندن کی گول میز کانفرنس میں للکار کر انہوں نے کہا تھا: مجھے آزادی دو اور اگر نہیں تو دفن ہونے کے لیے ایک آزاد سرزمین؛ چنانچہ غلام ہندوستان نہیں، وہ آزاد فلسطین میں دفن کیے گئے۔ یہ الگ بات کہ اپنے علمی افلاس اور سیاسی پسماندگی کے سبب جلد ہی فلسطین عربوں سے چھین لیا گیا‘ اور برصغیر نے اپنی بیداری سے آزادی کی بیش بہا خلعت پہنی۔ اقبالؔ نے کہا تھا:
حکومت کا تو کیا رونا کہ وہ اک عارضی شے تھی
نہیں دنیا کے آئینِ مسلّم سے کوئی چارہ
مگر وہ علم کے موتی، کتابیں اپنے آبا کی
جو دیکھیں ان کو یورپ میں تو دل ہوتا ہے سیپارہ
پاکستان اس شخص نے حاصل کیا ، عمر کے آخری گیارہ برسوں میں جس کے پھیپھڑوں کو ٹی بی چاٹ رہی تھی۔ جس کی جیب میں کھوٹے سکے تھے ۔ جسے ہر محاذ پر ایسے قد آور حریفوں کا سامنا تھا۔ ابوالکلام آزاد، حسین احمد مدنی، عطاء اللہ شاہ بخاری، شیر بنگال فضل الحق ، خان عبدالغفار خان اور سب سے بڑھ کر مسلم لیگ سے سو گنا بڑی آل انڈیا کانگریس۔ ان سب کو اس نے شکست فاش سے دوچار کیا ۔ صرف الیکشن اور آزادی ہی نہیں جیتی بلکہ کتنے ہی جدید ادارے تعمیر کیے ۔ اخبار اس نے نکالا ۔ انشورنس کمپنی اس نے بنائی ۔ ایئر لائن کی بنیاد اس نے رکھی ۔ ملک کے وجود میں آنے سے پہلی ہی بیرونِ ملک سفیر اس نے بھجوائے ۔ اور اس حال میں کہ بعض اوقات نصف گھنٹے کی تقریر کے بعد وہ بے حال ہو کر رہ جاتا۔
کوئی افلاس سا افلاس ہے۔ کوئی غربت سی غربت ہے۔ بائیس کروڑ کے ملک میں ایک بھی ایسا آدمی نظر نہیں آتا، جسے ملک سونپا جا سکے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ نواز شریف سے زیادہ عمران خان پر خون کھولتا ہے۔ نواز شریف کی تربیت ہی ایسی تھی۔ دھن دولت کے انبار جمع کرنے اور جنرلوں کے سائے میں ایک سیاسی مافیا تشکیل دینے کے بعد ، کھوکھلا آدمی دیوتا بننے کے خواب نہ دیکھتا تو اور کیا کرتا۔ افسوس کہ عمران خان نے بھی یہی کیا۔ نرگسیت کی بیماری، غلامی کے مارے معاشروں میں نمایاں ہونے کے آرزو مندوں کو جو چھوت کی طرح لگتی ہے۔
پورے چار برس کپتان نے ایجی ٹیشن اور اس کی تیاریوں میں ضائع کر دیے۔ غیظ و غضب کا طوفان۔ اپنے حریفوں کی تذلیل اور انہیں پامال کرنے کا ولولہ۔ چار برس میں کم از کم دس لاکھ مرتبہ اس نے ہمیں یہ بتانے کی کوشش کی ہو گی کہ نواز شریف ایک ٹھگ ہے۔ مملکت میں تمام خرابیوں کی بنیاد۔ بہت لوگ اس سے اتفاق کرتے ہیں۔ اقتدار سونپنے پر اسے آمادہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ حکومت مل گئی تو وہ کیا کرے گا۔ فرسٹ کلاس کرکٹ کا ایک میچ بھی تیاری کے بغیر نہیں کھیلا جاتا۔ عجیب کپتان ہے جو کسی تیاری کے بغیر اس کشتی کو طوفانی پانیوں میں کھینے کا دعویٰ کرتا ہے، بائیس کروڑ جیتے جاگتے انسان جس میں سوار ہیں۔ کیا عمران خان کے ساتھ بھی وہی ہو گا، فروری 1997ء کا الیکشن جیتنے کے بعد، جو نواز شریف کے ساتھ ہوا تھا۔ پہلے ہی اجلاس میں اپنی کچن کیبنٹ سے اس نے پوچھا تھا ''ہُن کی کریے‘‘ (اب کیا کریں)۔