ہر فسادی کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنا ہوتا ہے ۔ قرآنِ کریم میں ارشاد یہ ہے: فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے۔
امام حسنؓ کے کارنامے کا بہت کم ادراک کیا گیا ہے کہ اتنی بڑی سلطنت سے کس سہولت کے ساتھ وہ دستبردار ہو گئے۔ امامؓ اپنے عصر کے عظیم ترین سکالرز میں سے ایک تھے ۔ سیدنا علی ابن ابی طالب کرم اللہ وجہہ نے واعظوں پہ پابندی عائد کی تو جن چند لوگوں کو اجازت مرحمت کی، ان میں سے ایک خواجہ حسن بصریؒ بھی تھے۔ خواجہؒ سے انہوں نے پوچھا تھا : آپ نے یہ سب کہاں سے حاصل کیا؟ عرض کیا: آپ سے اور حسنؓ سے۔
امامؓ جانتے تھے کہ باہمی تصادم میں قوت زائل ہو گئی تو ریاست کا انجام کیا ہو گا۔ طوائف الملوکی جو فتنۂ فساد کو ہوا دیتی ہے ۔ جان، مال اور آبرو کی حفاظت ممکن نہیں رہتی ۔ مؤرخ کہتے ہیں کہ امامؓ کے زیرِ نگیں ممالک کا اقتدار سنبھالنے کے بعد امیر معاویہ نے سب سے پہلے جس چیز پر توجہ دی ، وہ پولیس کی تشکیلِ نو تھی۔
خوف اور امید کے درمیان آدمی جیتا ہے ۔ انسانی صلاحیت آزادی میں بروئے کار آتی ہے ۔ اس کی سرشت میں مگر بے مہار ہونے کا رجحان پایا جاتا ہے ۔ خوف سے اگر وہ بے نیاز ہو جائے تو گاہے درندگی پہ اتر آتا ہے۔ انسان محتاج ہیں کہ انہیں تعلیم دی جائے اور ادارے تعمیر کیے جائیں، جو انہیں حدود و قیود میں رکھیں ۔ اگر نہیں تو دوسروں پہ عرصۂ حیات وہ تنگ کر دیں گے۔
کتنے دن بیت گئے کہ عدالت تحریکِ لبیک کے سربراہ علامہ خادم حسین رضوی کو اشتہاری قرار دے چکی ۔ اس کے باوجود ڈٹ کر سیاسی سرگرمیوں میں وہ مصروف ہیں ۔ دو چار سو فدائین کے ساتھ داتا دربار کے سامنے کی سڑک انہوں نے بند کر رکھی ہے... اور حسبِ عادت دھمکیوں پہ دھمکیاں دے رہے ہیں۔ حکومتِ پنجاب خوف زدہ ہے اور انہیں گرفتار کرنے کی ہمت نہیں کر رہی ۔ ایک سہمی ہوئی ریاست کوئی ریاست نہیں ہوتی ۔ وہ لاقانونیت کے دروازے کھولتی ہے ۔ جس طرح جانوروں کے باڑے کا دروازہ کھلا چھوڑ دیا جائے ۔ کھیت اور کھلیان برباد ہونے کے لیے چھوڑ دئیے جائیں ۔ بار بار علامہ خادم حسین رضوی اور ان کے ساتھیوں نے ثابت کیا ہے کہ قانون کی رتی برابر انہیں پروا نہیں ۔ ججوں اور جنرلوں کو انہوں نے گالیاں دیں ۔ اخبار نویسوں کا تمسخر اڑایا اور حکومت کو بے معنی بنانے کی کوشش کی۔
لاقانونیت کی طرف مائل کوئی بھی گروہ خطرناک ہوتا ہے‘ لیکن سب سے زیادہ مذہبی طبقات، اگر وہ قانون کو پائوں تلے روندنے پر تل جائیں۔ اسلام آباد میں علامہ صاحب کا تین ہفتے کا دھرنا ہم دیکھ چکے ، جس کے آخری دنوں میں ان کے جانبازوں نے اپنے مخالفین کے گھروں پر حملے کیے۔ نوبت یہاں تک پہنچی کہ حکومت کو فوج طلب کرنا پڑی۔ درحقیقت یہی وہ مرحلہ تھا ، جب پہاڑ ایسی غلطی کا ارتکاب کیا گیا۔ اعلانیہ فوجی افسروں نے اپنے دستخطوں کے ساتھ ان کے مطالبات تسلیم کرنے کی ضمانت دی ۔ اس کے بعد یہ امید کیسے کی جا سکتی تھی کہ ریاستی اداروں کی ذرا سی وقعت بھی باقی رہے گی ۔
ایم کیو ایم ، طالبا ن اور بلوچ علیحدگی پسندوں کے ہاتھوں بد امنی کے طویل ادوار سے ملک گزرا ہے ۔ اذیت ناک تجربات سے ہم نے کیا سیکھا؟ حکمرانوں کا مرض یہ ہے کہ وہ سول ادارے تعمیر کرنے کے قائل نہیں ۔ وہ ایسی پولیس اور ایسی سول سروس چاہتے ہیں ، جو ان کے اشارۂ ابرو پہ بروئے کار آئیں۔ لاچار عدالتیں ، جو کسی کو انصاف مہیا نہ کر سکیں اور حالات کے رحم و کرم پر ہوں ۔ اسی ماحول میں خونخوار اشرافیہ پنپتی اور من مانی کرتی ہے؛ اگرچہ آخر کار وہ خود بھی اس کا شکار ہو جایا کرتی ہے ۔ جس طرح کل کا بھٹو اور آج کا شریف خاندان ، معلوم نہیں ، جس کا مستقبل کیا ہے۔
اپوزیشن کی خرابی یہ ہے کہ وہ حکومت کو للکارنے والی ہر قوت کی حوصلہ افزائی کرتی یا کم ازکم لا تعلق رہتی ہے ۔ اسی کا نام عاقبت نا اندیشی ہے ۔ افسوس کہ ذرائع ابلاغ کا کردار بھی مثبت نہیں ، بعض صورتوں میں تو شرمناک ۔ کبھی کبھی احساس ہوتا ہے کہ اس بے مہار میڈیا کے ساتھ ملک میں کبھی امن قائم نہ ہو سکے گا۔ علامہ خادم حسین رضوی کی جن تقاریر کا الطاف حسین کی طرح بائیکاٹ کیا جانا چاہئے تھا، وہ تفریحی پروگرام کے طور پہ نشر کی جاتی رہیں ۔ ان سے حظ اٹھایا جا تا رہا۔ یہ خیال کسی ذہن میں کیوں نہ ابھرا کہ کیا ہم ایک اور الطاف حسین ، طالبان کا ایک اور گروہ تو نہیں پال رہے؟
نو سو برس ہوتے ہیں، منت سماجت کے بعد امام غزالیؒ ملک شاہ کے ہاں تشریف لائے تو ایک ہیبت تاریخ ساز معلم کے ساتھ دربار میں داخل ہوئی ۔ بادشاہ نے پوچھا: امام مسلمانوں کا حال کیا ہے؟ فرمایا : اس طرح ان کی گردنیں ٹوٹ رہی ہیں، جیسے تیرے گھوڑوں کی گردنیں سنہری لگاموں کے بوجھ سے۔ شاہ نے مدرسہ نظامیہ کی سربراہی سنبھالنے کی درخواست کی تو امام نے سنی ان سنی کر دی اور یہ کہا : اگر میں بغداد چلا آیا تو طوس کے غریب بچوں کو کون پڑھائے گا؟ مگر جب اس نے خونخوار اسمٰعیلی گروہ کے بارے میں کتاب لکھنے کی التجا کی تو فوراً ہی قبول کر لی ۔ ظاہر ہے کہ مسلمانوں کا امام امن اور ریاست کی اہمیت کا ان سب سے زیادہ فہم رکھتا تھا۔ غزالیؒ نے کہا تھا:
لوگ سوئے پڑے ہیں، فقط علم والے بیدار ہیں
علم والے خسارے میں ہیں، فقط عمل والے فائدے میں ہیں
عمل والے خطرے میں ہیں، فقط اہلِ اخلاص نجات پاتے ہیں
اہلِ اخلاص پھسل جاتے ہیں، صرف اہلِ انکسار ہی محفوظ رہتے ہیں
گروہی ، لسانی اور علاقائی عصبیتوں پہ آگ بھڑکانے والے بھی تباہ کن ثابت ہوتے ہیں لیکن مذہبی لوگ ایسا کرنے پر تل جائیں تو زمین فساد سے بھر جاتی ہے۔ ان کی غیر معمولی وحشت کی بنا ان کے زعمِ تقویٰ سے پھوٹتی ہے۔ اپنے لیے ہمیشہ وہ جواز ڈھونڈ لیتے ہیں ۔ خود فریبی کے عالم میں وہ یہ سمجھنے لگتے ہیں کہ ابدی صداقتوں کا علم وہ اٹھائے کھڑے ہیں ۔ جنرل محمد ضیاء الحق کے بارے میں اس ناچیز کی ہرگز وہ رائے نہیں عام طور پر جس کا اظہار کیا جاتا ہے۔ وہ انہیں ذاتی زندگی میں دیانت دار اور ایک عظیم محب وطن سمجھتا ہے ؛ با ایں ہمہ ہر حال میں اقتدار بچانے کی تمنا تباہی لاتی ہے ۔ شریف خاندان کی سرپرستی کے علاوہ ، مذہبی طبقات کو بے لگام کرنے کا جو کارنامہ انہوں نے انجام دیا، آج تک اس کی قیمت ہم چکا رہے ہیں۔
اللہ کے آخری رسولؐ نے ذاتی اصلاح کو ''جہادِ اکبر‘‘ قرار دیا تھا۔ ہم نے قتال کو سب کچھ سمجھ لیا۔ قرآنِ کریم میں جہاد کے موضوع پر 28 آیات ہیں ۔ ان میں سے 20 کا تعلق تزکیۂ نفس کے ساتھ ہے ، صرف آٹھ کا قتال سے۔ مزید برآں ریاست کا کام صرف ریاست کرتی ہے ، بے لگام گروہ اگر اس کارِ خیر میں مصروف ہو جائیں تو انتشار کے سوا کچھ ہاتھ نہیں آتا۔ انتشار بھی ایسا کہ گاہے ایک نسل تک محدود نہیں رہتا۔
کراچی میں قتل و غارت کا سلسلہ تیس برس تک جاری رہا۔ ہزاروں بے گناہ قتل ہوئے۔ خدا خدا کرکے امن اب بحال ہوا ہے اور اب بھی پوری طرح کہاں بحال ہوا۔ طالبان کے طفیل ساٹھ ہزار پاکستانی اپنی زندگیاں ہار گئے۔
دل کا اجڑنا سہل سہی پر بسنا سہل نہیں ظالم
بستی بسنا کھیل نہیں ہے، بستے بستے بستی ہے
کب تک ، آخر کب تک وحشت میں ہم مبتلا رہیں گے ؟ کب یہ راز ہم پر کھلے گا کہ ریاستی اداروں کو پامال کر کے کبھی کوئی قوم سکھ کا سانس نہیں لے سکتی۔ ہر فسادی کے ساتھ آہنی ہاتھ سے نمٹنا ہوتا ہے۔ قرآنِ کریم میں ارشاد یہ ہے : فتنہ قتل سے بڑھ کر ہے۔