مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ تمام کامیابیاں اور تمام ناکامیاں داخلی ہوتی ہیں۔ دوسرا کوئی آدمی کو دھوکہ نہیں دیتا‘ بالکل وہ خود ہی۔ وہ خود ہی اپنا سب سے بڑا دشمن ہے‘ خود شکن!
آدمی کا معاملہ عجیب ہے۔ خیالات کی ایک جنت وہ آباد کرتا ہے اور اس میں قیام پذیر ہو جاتا ہے۔ کوئی اس سے زیادہ دھوکہ نہیں دیتی‘ جتنی کہ اپنی ذات سے‘ آدمی کی محبت۔ درویش سے پوچھا گیا کہ شیطان آدمی کو فریب دیتا ہے یا اس کا نفس۔ فرمایا: شیطان ایک کاشتکار ہے‘ جو نفس کی زمین میں کاشت کرتا ہے۔
اسلام آباد کی ایک خوشگوار شام‘ ایک ممتاز مصنف کے ساتھ‘ کئی یادگار کتابوں کے جو منصف ہیں‘ ایف 9 کے وسیع و عریض پارک میں سیر کرنے کا موقعہ ملا۔ انہیں ایک واقعہ سنایا۔ راولپنڈی سے مظفرآباد جاتے ہوئے متلی کی اذیت ناک کیفیت نے آ لیا۔ میڈیکل سٹور سے دوا نہ ملی تو کسی نے پنساری سے بات کرنے کا مشورہ دیا۔ قریب پڑی ایک بوری سے‘ بڑے میاں نے پودینے سے ملتی جلتی بوٹی اٹھائی اور نگل لینے کو کہا۔ کیسی معجز اثر دوا تھی‘ آدھ گھنٹے میں پوری طرح طبیعت بحال ہوگئی۔ اس پر انہوں نے ایک ششدر کر دینے والا انکشاف کیا۔ بتایا کہ کاروباری ضرورت کے تحت‘ یورپ میں سالہا سال طویل سفر وہ کرتے رہے۔ جہاں کہیں کوئی بیماری جنم لیتی ہے‘ اسی علاقے میں ایسی جڑی بوٹیاں ہوتی ہیں‘ جو اس کا سدّباب کرتی ہیں۔
بے تکلف اور خوش طبع آدمی سے عرض کیا: اس کے باوجود ‘ وجود باری تعالیٰ پر وہ ایمان نہیں رکھتے۔ کیا اس کائنات کا پیداواری نظام Botanical Code بجائے خود‘ اس کے خالق پر حتمی شہادت مہیا نہیں کرتا؟ انواع و اقسام کی مخلوقات کے لئے‘ ان کی ضرورتوں کا خودکار نظام‘ کیا آپ سے آپ وجود میں آگیا ہے؟ یہ کرہّ خاک اور اس کا درجہ حرارت۔ زمین سے سورج کا متعین فاصلہ زیادہ ہوتا تو برف زار وجود میں آتے‘ ذرا سا کم ہوتا تو دریائوں کے پانی کھول اٹھتے۔ خود انسانی پیکر میں اربوں قسم کے ہمیشہ برقرار رہنے والے توازن۔ کیا وہ ایک پروردگار کے وجود پر گواہی نہیں دیتے۔ کچھ دیر وہ سنتے رہے۔ پھر بولے: چھوڑوجی۔ مجھے پریشان نہ کرو‘ میں جناب عبدالمطلب کی سی کیفیت سے دوچار ہوں۔ جس حال میں ہوں‘ اسی میں جینا چاہتا ہوں۔
اپنے راستے کی سب سے بڑی رکاوٹ آدمی خود ہے۔ ازلی اور ابدی صداقتوں کے درمیان وہ تن کر کھڑا ہو جاتا ہے۔ قندیل کی روشنی کو وہ پا نہیں سکتا۔
نون لیگ کی قیادت کو مشورہ دیا گیا کہ قومی اداروں کے ساتھ غیرضروری تصادم سے گریز کرے تو پائے استحقار سے‘ اس نے ٹھکرا دیا۔ ناراضی کے باوجود‘ چوہدری نثار علی خان نوازشریف کے خیرخواہ تھے کہ جی ٹی روڈ کا رخ کرنے سے روکا۔ استدعا کی کہ موٹروے کے راستے‘ چپ چاپ وہ اپنے گھر چلے جائیں۔ جو کچھ بچ رہا ہے‘ وہ سمیٹ لیں اور مستقبل کی منصوبہ بندی کریں۔ نہ صرف یہ مشورہ قبول نہ کیا گیا بلکہ ان کا مذاق اڑایا گیا۔ پرویز رشید ایسے لوگوں کی بات مان لی گئی‘ جو اس معاشرے کے مزاج آشنا ہیں اور نہ سیاسی حرکیات کے شناور۔ اس ٹولے کا حال تو یہ ہے کہ آج تک قائداعظم اور پاکستان کو دل کی گہرائیوں سے قبول نہیں کر سکے۔ پاک فوج کی مذمت و مخالفت اور بھارت کے ساتھ ہم آہنگی‘ ان کی ترجیحات ہیں۔
جی ٹی روڈ کے مظاہروں سے میاں نوازشریف کو کیا ملا؟ خود ترسی ان پہ طاری ہوگئی اور بڑھتی چلی گئی۔ اسی حال میں عدالتوں کے خلاف انہوں نے جنگ کا اعلان کردیا۔ عسکری قیادت کو اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار ٹھہرانا شروع کردیا۔ پھر ایک دن ارشاد کیا کہ اب وہ نظریاتی ہوگئے ہیں۔ 69 سال کی عمر میں اچانک کوئی شخص نظریاتی کیسے ہو سکتا ہے؟ پھر اس نظریے کا مظہر کیا ہے؟ خود اپنی ذات سے والہانہ محبت؟ ہر اختلاف کرنے والے کی توہین؟
سمجھانے والوں نے انہیں سمجھانے کی کوشش کی۔ انہیں بتایا‘ نون لیگ کی تشکیل ہی ایسی نہیں کہ وہ ایجی ٹیشن کی تاب لا سکے۔ اپوزیشن کے علاوہ‘ تمام کے تمام قومی اداروں کو بلیک میل کر سکے۔ یہ ابن الوقتوں اور مفاد پرستوں کا ایک ٹولہ ہے۔ دودھ پینے والے مجنوں!سرکار کی چھتری کے نیچے‘ چھوٹے بڑے مفادات کی آبیاری کرنے والوں کا۔ پاکستانی معاشرے کی ساخت ایسی ہے کہ دربار تک رسائی اور سرپرستی کے ماحول ہی میں آدمی آسودہ رہ سکتا ہے۔ تھانے اور کچہری سے‘ سرکاری دفتر اور پٹوار سے واسطہ پڑتا ہے تو سفارش درکار ہوتی ہے۔
جس معاشرے میں کاشتکار کو کھاد اور گندم کی بوری تک کے لئے رسوخ کی ضرورت پڑتی ہو‘ اس طرح کے چونچلے وہاں ممکن نہیں۔ ذوالفقار علی بھٹو کے بعد یہ نوازشریف تھے‘ جنہیں ایک جمہوری سیاسی پارٹی کی تشکیل کا موقعہ ملا‘ بلکہ ان سے بھی زیادہ ۔ یہ موقعہ انہوں نے کھو دیا بلکہ آنکھ اٹھا کر بھی‘ اس کی طرف نہ دیکھا۔ دھڑلے سے اربوں کھربوں کے منصوبے بناتے اور نقد داد وصول کرتے رہے۔ نجکاری کی تو بڑے بڑے ادارے اپنے دوستوں کو سونپ دیئے۔ ذاتی کاروبار کو‘ اس جوش و جذبے کے ساتھ فروغ دیا کہ اتفاق فائونڈری کے بطن سے ایک عشرے میں 30 کارخانوں نے جنم لیا۔ بڑھتے بڑھتے ان کی دولت کروڑوں سے کھربوں تک جا پہنچی۔ گھر بنایا تو محلات کو مات کردیا۔ شہر کے وسط سے‘ تیس کلومیٹر کے فاصلے پر‘ سوئی گیس لے جائی گئی۔ سرکاری خزانے سے دو رویہ شاہراہ تعمیر ہوئی۔ اردگرد کی آبادیوں کے راستے بند کر دیئے گئے۔ چاردیواری تعمیر کرنے کی ضرورت محسوس کی تو ستر کروڑ روپے اس پر لٹا دیئے گئے۔ عوامی حکمرانوں کے تیور کیا یہ ہوتے ہیں؟ کیا خلقِ خدا ایسے لوگوں کے لئے قربانیاں دیا کرتی ہے؟۔
بے لچک رویے کا نتیجہ یہ ہے کہ ایک ایک کرکے‘ ہوا کا رخ پہچاننے والے انہیں‘ خیرباد کہتے جا رہے ہیں۔ ان میں وہ ہیں جو 2002ء میں دیکھتے ہی دیکھتے‘ پرائے ہوگئے تھے...اور وہ ہیں جو جنرل پرویزمشرف کے دور میں چمکے۔ اگر ماضی میں ان کا کردار یہ تھا تو اب مختلف کیوں ہوگا؟ کل امیر مقام اگر پرویزمشرف کے منہ بولے بھائی تھے۔ اگر 2008ء کے بعد تحریک انصاف سے وابستہ ہونے کے لیے بے تاب تھے تو آنے والے کل میں کیوں نہیں؟ امیر مقام تو رہے ایک طرف‘ ''لوہے کے چنے‘‘ خواجہ سعد رفیق‘ عمران خان کی چوکھٹ پہ حاضر ہوئے تھے۔ مفاد کا تقاضا غالب نہ آگیا ہوتا۔ خود میاں صاحب نے مفاہمت نہ کرلی ہوتی تو وہ تحریک انصاف کا حصہ ہوتے۔ چوہدری پرویزالٰہی کی گاڑی کے آگے بھنگڑا ڈالنے والے طلال چوہدری اور پرویزمشرف کے نفس ناطقہ دانیال عزیز‘ جو کل تک نوازشریف کا مذاق اڑایا کرتے۔ یہ بات میاں محمد نوازشریف کی سمجھ میں کیوں نہیں آتی کہ جس مؤقف پر‘ اپنے سگے کو وہ قائل نہیں کر سکے‘ خلقِ خدا کیوں تسلیم کرے گی؟ ان کے لیے جان ہتھیلی پر لے کر کیوں نکلے گی؟۔
مشاہدہ یہ کہتا ہے کہ تمام کامیابیاں اور تمام ناکامیاں داخلی ہوتی ہیں۔ دوسراکوئی آدمی کو دھوکہ نہیں دیتا‘ بالکل وہ خود ہی۔ وہ خود ہی اپنا سب سے بڑا دشمن ہے‘ خود شکن!