"HRC" (space) message & send to 7575

وزیرِ اعظم عمران خان؟

رفتہ رفتہ ، دھیرے دھیرے ، لیڈروں کے سحر سے ہم نکل رہے ہیں ۔ اسی میں امید کی کرن پوشیدہ ہے؛ اگرچہ انسانوں کو دیوتا ثابت کرنے والے اب بھی بہت ہیں۔
اندازے اگر درست ہیں تو الیکشن 2018ء کے بعد عمران خان اقتدار میں ہوں گے ۔ یا ایسی حکومت وجود میں آئے گی، جس میں ان کا کردار دوسروں سے زیادہ ہو گا ۔ دعووں اور وعدوں سے نہیں ، آدمی اپنے عمل سے پہچانا جاتا ہے ۔ چند ماہ میں واضح ہو جائے گا کہ اپنے حریفوں‘ میاں محمد نواز شریف اور آصف علی زرداری سے وہ کس قدر مختلف اور بہتر ہیں یا انہی کی طرح ایک ناکام حکمران ۔ تحفظات موجود ہیں ۔ ان کی مردم شناسی اور معاملہ فہمی کے بارے میں ۔ پارٹی ان کی چوں چوں کا مربہ ہے ۔ مردانِ کار کی کمی ہے ، اہم ذمہ داریاں جنہیں سونپی جا سکیں۔ کاروبارِ حکومت سنبھالنے کے لیے کچھ زیادہ تیاری انہوں نے کی نہیں۔ خود سیاسی حرکیات کا پورا ادراک وہ نہیں رکھتے ، مشیر ناقص ۔ اس لیے کہ لیڈر کے ارد گرد اس کی اپنی ذہنی سطح کے لوگ ہی جمع ہوا کرتے ہیں ۔ محمد علی جناح کی طرح ایک لیڈر یا تو دوسروں کو متاثر کرتا اور تربیت دے کر ان کی صلاحیتیں اجاگر کرتا ہے یا ان سے متاثر ہو کر فیصلے صادر کرتا ہے ۔ کسی قدر بڑائی کے فریب کا شکار، کپتان ایک سادہ سا آدمی ہے۔ آسانی سے جو دوسروں پہ اعتبار کر لیتا ہے ۔ جسے وہ لوگ دھوکہ دے سکتے ہیں ، جن پر وہ بھروسہ کرتا ہو۔ ایک بار مثبت رائے جب وہ قائم کر لے ، شاذ ہی کسی کے باب میں بد گمانی کا مرتکب ہوتا ہے؛ الّا یہ کہ وہ اس ناچیز کی طرح منہ پھٹ واقع ہوا ہو ۔ ہر سطح پر اس کی پارٹی میں ایسے لوگ نمایاں ہیں ، عوامی تاثر جن کے بارے میں منفی ہے ۔ مثلاً صدر دفتر میں براجمان ایک ممتاز عہدیدار ، جو تاوان کی طرح چندہ وصول کرتا ہے ۔ کپتان اب مخصوص لوگوں کے گھیرے میں ہے ۔ ہر آدمی کی ان تک رسائی نہیں اور بعض اوقات انہیں تاریکی میں رکھنا ممکن ہو جاتا ہے ۔ مثلاً پختون خوا میں احتساب کا نظام ، جس میں دنیا کے بہت ممتاز اور مخلص ماہرین میں سے ایک اس کا مددگار تھا مگر صوبائی حکومت اسے چکمہ دینے میں کامیاب رہی ۔ ایسے ہی لوگوں کے طفیل ، 2013ء کے الیکشن میں پی ٹی آئی کی سیٹیں 80، 85 سے کم ہو کر تیس پینتیس رہ گئی تھیں۔
اس کے باوجود بہت سے لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ وہ تر دماغ آصف علی زرداری اور جہاندیدہ نواز شریف سے بہتر ہو گا۔ آشکار ہے کہ اس میں ان دو ''عظیم‘‘ رہنمائوں کے ''اوصافِ حمیدہ ‘‘ نہیں پائے جاتے ۔ بہرحال اسے ایک مافیا تشکیل نہیں دینی۔ تمام اہم سرکاری مناصب ، خاص طور پر سول سروس اور قومی اداروں میں اپنے کارندے مسلط نہیں کرنے۔ اس کا کوئی ذاتی کاروبار نہیں اور آکٹوپس کی طرح قومی زندگی کے ہر شعبے میں پنجے گاڑنے کا وہ اشتیاق نہیں رکھتا۔ آصف علی زرداری اور نواز شریف غیر ملکی طاقتوں کے باب میں جس ہولناک مرعوبیت کا شکار ہیں ، اس سے وہ محفوظ ہے ۔ 
آصف علی زرداری دو عدد حادثات کی پیداوار ہیں۔ محترمہ بے نظیر بھٹو کے ساتھ ان کی سگائی اور اچانک ان کا المناک قتل‘ ورنہ میاں بیوی میں طے شدہ معاہدے کے تحت وہ امریکہ میں زندگی بتایا کرتے ۔ کبھی کبھار ہی بچوں سے ملاقات کے لیے وطن تشریف لایا کرتے ۔ بے نظیر بھٹو نے دریافت کر لیا تھا کہ ان کی ناکامیوں کا سب سے بڑا سبب ان کے شوہرِ نامدار ہیں ۔ میاں محمد نواز شریف کی نمود جنرلوں کی سرپرستی کا کرشمہ ہے ۔ اوّل جی ایچ کیو کے علاوہ آئی ایس آئی کی چھتری اور پھر جوڑ توڑ کے اس جال کا شاخسانہ ، مفاد پرستوں کی سرپرستی جس کی بنیاد ہے ۔ سیاسی خوشامدیوں ، کاروباری دوستوں بلکہ پورے کاروباری طبقے اور اہم اخبار نویسوں اور اشاعتی اداروں کے مفادات کی نگہ بانی ۔ وہ سرکاری افسر بھی جو اشارۂء ابرو پہ حرکت میں آئیں ۔ 
جب بھی ابروئے درِ یار نے ارشاد کیا
جس بیاباں میں بھی ہم ہوں گے، چلے آئیں گے 
اپنے ذاتی محاسن سے زیادہ عمران خان اپنے جلیل القدر حریفوں کے عیوب سے ابھرے ہیں ۔ اپنے حلیفوں کی مدد سے اگر ایک موثر حکومتی ڈھانچہ تشکیل دینے اور ترجیحات قائم کرنے میں کامیاب رہے تو ملک ابتری سے نجات پائے گا۔ ان کی ذات میں ایک عظیم نجات دہندہ کا امکان پایا نہیں جاتا مگر انہیں کرنا ہی کیا ہے ؟ کرپشن میں کمی اور یہ ممکن ہے کہ ذاتی طور پر وہ کرپٹ نہیں ۔ امن و امان کی مکمل بحالی ۔ پولیس کی حد تک کامرانی کا امکان بہت ہے کہ وہ پولیس کے بل پر حکومت کرنے کا تصور نہیں رکھتا... اور جی ہاں ، پٹوار! خرید و فروخت کی ہر رجسٹری کی اگر جانچ ہو سکے ، جیسا کہ اب پختون خوا میں ہے تو برسوں نہیں ، یہ زیادہ سے زیادہ چند ماہ کا مسئلہ ہے ۔ ایف بی آر کی تشکیلِ نو ، جس میں کم از کم 1200 ارب سالانہ ہڑپ کر لیے جاتے ہیں ۔ فقط اس عمل سے کم از کم 20 بلین ڈالر سالانہ کا اضافہ ممکن ہے ۔ زراعت اور کان کنی کی تدوینِ نو سے پانچ سال میں مزید اتنا ہی اضافہ قابلِ فہم ہے ۔ سکولوں اور ہسپتالوں کی تعمیرِ نو کا کچھ تجربہ اسے حاصل ہے ۔ 
غالباً یہ 2010ء کا موسمِ گرما تھا۔ سوات میں دہشت گردی پر ایک سیمینار کے بعد ، ظہرانے کے خوشگوار ماحول میں گپ شپ تھی ۔ ذرا سے فاصلے پر وزیرِ اعظم یوسف رضا گیلانی اور جنرل اشفاق پرویز کیانی ممتاز سرکاری شخصیات کے ساتھ فروکش تھے ۔ ادھر ہماری میز پر چند جنرل حضرات ، سید مشاہد حسین اور اے این پی کے میاں افتخار حسین۔ سیاق و سباق کے بغیر میاں صاحب میری طرف لپکے اور فرمایا '' عمران خان کو جو لوگ وزیرِ اعظم بنانے پر تلے ہیں ، وہ تک (تھک) جائیں گے۔‘‘ سننے والے حیر ت زدہ رہ گئے کہ اس آدمی کو سوجھی کیا ہے ؟ ناچیز خاموش رہا ۔ ایسی مضحکہ خیز بات پر تبصرے کی ضرورت ہی کیا تھی ۔ اس ملک کو غنڈوں نے برباد نہیں کیا۔ جتنے وہ طاقتور نظر آتے ہیں ، اتنے ہی کھوکھلے ، بزدل اور کمزور ہوتے ہیں بلکہ میاں افتخار حسین اور رضا ربانی ایسے شرفا نے، جو پرلے درجے کے بدعنوان لیڈروں سے سمجھوتہ کر لیتے ہیں۔ سب شہر، تمام گلی کوچے ایسے شرفا سے بھرے پڑے ہیں ۔ ایک قوم تب ادبار سے نجات پاتی ہے ، جب اس کی ایک بڑی تعداد آنکھیں کھول کر اپنے ماحول کا جائزہ لے سکے ۔ محض کسی ایک یا چند لیڈروں کے بل پر کوئی قوم کبھی دلدل سے نہیں نکلی ۔ اسی لیے عظیم رہنما وہ ہوتا ہے ، جو معاشرے کو حریتِ فکر کا درس دیتا ، آزادی کا شعور عطا کرتا ہے۔ بھٹو، بے نظیر ، نواز شریف اور زرداری ایسے لیڈر نہیں ۔ خوشامدیوں کے جلو میں وہ آسودہ رہتے ہیں ۔ اپنی ذات ہی پر جسے اصرار ہو، وہ امتوں کا رہبر نہیں ۔ محض ایک زیادہ بڑا چالباز ہوتا ہے ، فقط ایک شعبدہ باز ۔ 
لیڈر وہ ہوتا ہے ، جو بانٹتا اور تقسیم کرتا ہے ۔ اختیار، اقتدار اور ذمہ داریاں ۔ جو قوم کو جگاتا ہے ۔ لاکھوں کروڑوں انسانوں کو رو بہ عمل لاتا ہے ۔ نہ کہ اپنی پیروی پر آمادہ کرنے والا نرگسیت کا مریض ۔ 
رفتہ رفتہ ، دھیرے دھیرے ، لیڈروں کے سحر سے ہم نکل رہے ہیں ۔ اسی میں امید کی کرن پوشیدہ ہے؛ اگرچہ انسانوں کو دیوتا ثابت کرنے والے اب بھی بہت ہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں