چوتھی آواز پہ چھاکو واپس چلا جاتاہے۔
اسی خطیب کی عمر تب دو سو برس تھی، امیر معاویہ ؓ نے جب اسے یاد کیا۔ امیرؓ سنتے بہت تھے۔ سیکھنے میں لگے رہتے۔ مشورہ بہت کرتے۔ معاف کر دیتے اور صبر کر لیا کرتے۔ ایک نہیں عربی ثقافت اور شاعری کی تاریخ 22 جلدوں پر مشتمل کتاب، ''بلوغ الارب‘‘ میں لکھا ہے کہ چار ایسے شاعر اور ادیب عربوں میں گزرے ہیں، جو دوسو برس کی عمر کو پہنچے۔ ان میں سے ایک کا تذکرہ تفصیل کے ساتھ ہے۔ برادرم ذوالقرنین کی عنایت سے بہت پہلے اس کتاب کا خلاصہ پڑھا تھا۔ چار جلدوں پر مشتمل ہے۔
جہاں تک یاد پڑتا ہے۔ نماز ظہر ادا کی جا چکی تو امیرؓ نے خطبے کی فرمائش کی۔ بولا : میرا عصا تو لائو۔ کسی نے کہا : امیرؓ کے سامنے عصا سے کیا کرو گے؟۔ اس نے جواب دیا: اپنے رب سے موسیٰ جب کلام کررہے تھے تو عصا سے کیا کررہے تھے؟ ایک پہر بیت گیا۔سامعین مبہوت اسے سنتے رہے۔ نماز عصر کا وقت آ پہنچا۔ امیر ؓنے اشارہ کیا مگر اس نے دیکھا ان دیکھا کر دیااور یہ کہنے پر اکتفا کیا : ہم اسی چیز میں مصروف ہیں ، جس کی طرف ہمیں بلایا جانے والا ہے، یعنی اللہ اور اس کے رسولؐ کا ذکر ۔ باردگر درخواست کرنے سے پہلے ، امیرؓ نے اس کی تحسین کی ،بے شک '' تم عربوں کے سب سے بڑے خطیب ہو‘‘،'' بلکہ تمام جنوں اور انسانوں کا‘‘ اس نے کہا ۔
اس وقت سوالات کا سلسلہ اختتام کو پہنچ رہا تھا۔ ان میں سے ایک یہ تھا : کچھ ایک ہی نام والے لوگوں کے بارے میں بتائو۔ مدینہ منورہ کا بڑے میاں نے انتخاب کیا۔ جناب عبد اللہ بن مسعود ؓ، جناب عبد اللہ بن عباسؓ، حضرت عبد اللہ بن عمر ؓاور عالی مرتب عبداللہ بن زبیر ؓ کی تصویر کشی کی۔ حضرت عبد اللہ بن مسعود ؓکی دانائی کا تذکرہ کیا۔ عبد اللہ بن عمر ؓ کے بارے میں کہا: تمام علم اور تمام حلم۔ عبد اللہ بن زبیر کا حوالہ دیا توعجیب بات کہی، جو شاید کسی کے سان گمان میں نہ تھی ۔ ''وہ پہاڑ سے لڑھکتا ہوا پتھر ہے ۔ ‘‘
عشروں بعد ، یہ راز تاریخ کے سینے پر کھلا ۔ امویوں کے خلاف ، جب آپؐ نے خروح کیا۔ بڑا حصہّ ان سے چھین لیا۔ دمشق والے پتوار ڈالنے پر آمادہ ہوگئے۔ وہ فقط امان چاہتے تھے، آنجناب نے مگر انکار کر دیا۔ باقی تاریخ ہے۔
آدمی کی عادات ہوتی ہیں اور بدلتی نہیں۔ سرکار ؐ کا فرمان یہ ہے : اپنی جگہ سے کوہِ احد ہل سکتا ہے مگر عادت نہیں ۔
کچھ عامیوں کی بات بھی ہو جائے۔ اندرون لاہور کے ایک چھوکرے ، چھاکو کا ایک دن ذکر کیا تھا۔ گھر کے باہر ، تھڑے پر بیٹھا، دوستوں سے گپ لڑایا کرتا۔ رات بھیگنے لگتی تو کھڑکی کھلتی اور ماں کی آواز سنائی دیتی ''چھاکو بیٹے گھر لوٹ آئو‘‘ ۔ ''آتا ہوں اماں ‘‘ بیزاری سے وہ جواب دیتا اور مبتلا رہتا۔ آدھ گھنٹے میں دوسری بار مگر مختلف لہجے میں چھاکو ! ‘‘۔ کچھ دیر میں تیسری آواز ''اوئے چھاکو ‘‘ کوئی آدھ گھنٹے بعد ایک چیختی ہوئی صدا'' انسان کے بچے بنو چھاکو ‘‘ ۔ چھاکو لپک کر گھر میں داخل ہو جاتا۔
شیر بنگال فضل الحق مجذوب سے تھے۔ قائداعظمؒ کو کئی بار انہوں نے پریشان کیااور سخت پریشان ۔ ایک بار ڈھاکہ میں لیگی کارکنوں سے خطاب کرتے ہوئے، جناب جناح نے ان سے اظہار بیزاری کیا، ''کرسمس کے تحفے کے طور پر، یہ آدمی میں وائسرائے کی خدمت میں پیش کرتا ہوں ‘‘ ۔ 1946 ء کا الیکشن اس متلون آدمی نے مسلم لیگ کے خلاف لڑا اور خاک چاٹی؛؟ اگر چہ چند برس بعد پھر سے ابھر آئے ۔
جہاں میں اہل ایماں صورت ِخورشید جیتے ہیں
ادھر ڈوبے ادھر نکلے ،ادھر نکلے ، ادھر ڈوبے
قیام پاکستان کے بعد وہ کراچی پہنچے۔ قائداعظم کے اے ڈی سی ، رضا ربانی کے والد عطا ربّانی نے لکھا ہے: اس وقت وہ آئین ساز اسمبلی کی عمارت میں داخل ہوئے، جب گورنر جنرل کو گھر جانا تھا۔ راہداری میں کھڑے رہے، تاآنکہ وہ نمودار ہوئے۔ ازراہ احترام وہ اتنا جھکے کہ دہرے ہوگئے۔ نگاہ اٹھا کر بھی قائداعظم نے دیکھا نہیں۔ ناک کی سیدھ میں چلتے گئے۔ اس آدمی سے ہمیشہ ہمیشہ کے لئے وہ مایوس ہو چکے تھے۔
آدمی کی افتادِطبع ہی اس کی تقدیر۔ اس افتاد طبع کا مطالعہ کرنا چاہئے۔ کسی کے مزاج کو سمجھے بغیر ، اس پر حکم لگایا نہیں جاسکتا۔ کسی بھی سیاسی مدبر کی طرح ، قائداعظم ؒنے امکانات کے دروازے کھلے رکھے۔ سیاسی مدّبر وہ ہوتا ہے جو ،لمحۂِ موجود میں نہیں جیتا۔ ماضی کو سمجھتا ہے۔ حال میں اٹھنے والے سب سوالوں پر غور کرتا اور مستقبل کو ملحوظ رکھتا ہے۔
قائداعظمؒ نے انگریز وائسرائے اور برطانوی زعما سے مذاکرات کئے، آل انڈیا کانگریس کے سربراہ پنڈت جواہر لعل نہرو یا ہندوئوں کے باپو موہن داس کرم چند گاندھی کے ساتھ، پنجاب کے وزیراعلیٰ سر سکندر حیات یا سرحدی گاندھی باچا خان سے، ہمیشہ لچک کا مظاہرہ کرتے۔ احترام ملحوظ رکھتے۔ بہت سوچ سمجھ کر اپنا موقف طے کرتے۔ ایک کے بعد دوسری دلیل دیا کرتے۔ ہر سوال کا جواب دیتے لیکن ترس کھاتے نہ ضد میں مبتلا ہوتے۔ احمقوںسے کبھی نہ الجھتے۔ خود پر ہونے والی ذاتی تنقید کا شاد ہی جواب دیتے ۔الزام تراشی سے گریز ۔
برصغیر کا یہ مزاج ہی نہ تھا۔ تمہید ، ذاتی تعلق کا اظہار ، خوشامد یا دھمکی۔ ان کا اندازہی دوسرا تھا۔ اعلیٰ درجے کی رومان انگیزی اور حقیقت پسندی کا ایک حسین امتزاج۔ جلال میں جمال گھلتا ہوا۔ تعصبات سے بالا تھے۔ مدبر ہوتا ہی وہ ہے ، جو معاشرے کی تقسیم سے اوپر اٹھ جائے۔ برصغیر انہیں سمجھ نہ سکا۔ آج بھی نہیں سمجھتا۔ ملّاور ملحد آج بھی ان سے عناد رکھتے ہیں اور عناد میں کیسا تجزیہ ۔
قائداعظم ؒ کا برصغیر ملاّ اور اشتراکیوںکی چراہ گاہ تھا۔ کھوکھلے نعرے، جذباتی تقاریر ، سنہرے سپنے ، گلابی وعدے۔ قائداعظمؒ بلا کے ریاضت کیش تھے۔ ہر وقت متوجہ، منہمک اور یکسو۔عدالت میں کھڑے ہوں ، پارٹی کے اجلاس یا فریق مخالف سے مذاکرات میں مصروف ، نگاہ مخاطب کے چہرے پر رکھتے ۔ مشتاق یوسفی نے لکھا ہے کہ چہرہ اور آنکھیں ، پائوںسے سرتک ، چہرہ ہی چہرہ۔ مخالف وکیل تو کیا جج بھی محتاط رہتے۔ بعض بھگت چکے تھے۔ ان میں سے ایک نے کہاتھا : مسٹر جناح ؒ، کسی تھرڈ کلاس مجسٹریٹ سے، آپ مخاطب نہیں ۔ فرمایا : مائی لارڈ ، آپ بھی کسی تھرڈ کلاس وکیل سے بات نہیں کررہے۔ گاہے ججوں میںنخوت ہوتی ہے، وکیل کو بلندی سے دیکھتے ہیں۔ ایسا ہی ایک جج تھا۔ اس نے کہا : آواز بلند کیجئے، سنائی نہیں دے رہی ۔ ارشاد کیا: ایکٹر نہیں میں وکیل ہوں۔ کچھ دیر میں دوسری بار اصرار کیا تو بولے : کتابوں کا ڈھیر سامنے سے ہٹا دیجئے،تاکہ آپ سن سکیں ۔
نوازشریف کے ہمدم دیرینہ سے پوچھا۔ میاں صاحب کو کیا ادراک نہیںکہ بہت دن فساد پھیلانے کی انہیں اجازت نہ دی جائے گی۔ سب جانتے ہیں کہ سی آئی اے اور ایم آئی سکس کی مدد سے ، افغانستان کے ٹٹو ، جس میں بھاڑے کے ہیں ، بھارتی '' را‘‘ پاکستان کو غیر مستحکم کرنے پر تلی ہے۔ ٹھہرے ہوئے لہجے میں اس جہاندیدہ آدمی نے کہا : میاں صاحب ابھی نہ تھمیں گے۔ انتخابی مہم کے ہنگام تو ہرگز نہیں۔ نظرثانی کاآغاز وہ گرفتار ہونے کے بعد کریں گے۔ چار سے چھ ماہ کے اندر وہ سپر انداز ہوسکتے ہیں۔ اس وقت تمام شرائط وہ مان لیں گے۔ جس طرح جدہ جاتے ہوئے ، اپنے ہاتھ کاٹ کر جنرل مشرف کے حوالے کر دیئے تھے ۔
چوتھی آواز پہ چھاکو واپس چلا جاتاہے۔