"HRC" (space) message & send to 7575

فیشن

پنجاب کو گالی دینا فیشن کا حصہ ہے؛ چنانچہ اگر کوئی مرتکب ہو تو برا نہیں ماننا چاہئے۔ کیوں یہ فیشن وجود میں آیا‘ اس پہ پھر کبھی!
فضیل بن زیادؒ مکہ مکرمہ کے نواح میں تھے کہ شہر اُن پر ٹوٹ پڑا۔ بہت سے معززین بھی ۔ قبول ِ عام جب کسی کو حاصل ہو ‘تو برق رفتاری کے ساتھ ممتاز لوگ اسے اپنا لیتے ہیں۔ 
فضیلؒ حیران سے رہ گئے۔ وہ اس کی امید نہ کر رہے تھے۔ کم سخن اور گوشہ گیر تھے۔ دوسروں کا تو ذکر ہی کیا‘ سفیان ثوریؒ جیسے جلیل القدر صوفی کو بھی گاہے انتظار کرنا پڑتا۔ امیرالمومنین ہارون الرشید کو سفیان ثوریؒ کا سہارا ہوتا تو جناب سفیان ؒ کو تلاوت کا۔ 
نواحِ مکہ میں امنڈتا خیر مقدمی طوفان فضیلؒ کو خوش نہ آیا‘ تو انہوں نے ایک عجیب حرکت کی۔ آنے والے بہت دنوں میں جس کا چرچا رہا۔ مکہ مکرمہ ہی نہیں ‘ حجاز سے لے کر دمشق ‘ بصرہ اور بغداد تک ۔ انہوں نے ایک روٹی نکالی اور کھانے لگے ۔ غالباً اس طرح مزے لے لے کر تو نہیں ، جیسے بیرسٹرظفراللہ اسلامی سربراہی کانفرنس کے ہنگام‘ ایرانی صدر کی تقریر کے دوران کام و دہن کی تواضع کرتے رہے۔ فضیلؒ کا جرم اس سے بڑا تھا۔ یہ رمضان المبارک تھا... اور ان کا استقبال کرنے والے مکہ کے سب مکین روزہ دار تھے۔ 
اوّل تو لوگوں نے حیرت سے انہیں دیکھا۔ پھر کچھ آوازیں بلند ہوئیں ۔ شریعت کے پاس داروں کی۔ رفتہ رفتہ یہ لعن طعن میں بدل گئیں ۔ فضیلؒ نے سر اٹھا کر بھی نہ دیکھا اور خمیری روٹی کے لقمے چباتے رہے۔ آخر کار وہ سب کے سب چلے گئے ۔ فضیلؒ شہر میں تنہا داخل ہوئے۔ یہی تو وہ چاہتے تھے۔ 
بغداد میں اپنے چھوٹے سے گھر میں اسی طرح وہ تنہا پڑے رہتے ۔ ذکر و فکر میں مگن ۔ کبھی کوئی ملاقاتی آ نکلتا تو دروازہ تاخیر سے کھلتا ‘ کبھی تو بہت تاخیر سے ۔ بالآخر ایک حربہ آزمایا جاتا۔ کلامِ پاک کی کوئی تلاوت کرنے لگتا۔ کچھ دیر میں فضیلؒ اس حال میں سامنے آتے کہ ان کی آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوتیں۔ جیسا کہ ایک سے زیادہ بار لکھا : امیرالمومنین ہارون الرشید کی درخواست پہ سفیان ثوریؒ ساتھ لے گئے تو یہی قرینہ آزمایا گیا۔ 
بیت اللہ کے نواح میں بالآخر ایک نیاز مند نے فضیلؒ سے پوچھ لیا۔ کیوں آپ رمضان المبارک کی توہین کے مرتکب ہوئے ۔ کیوں آپ نے اتنے بہت سے لوگوں کا دل توڑا۔ اس رسوائی سے آپ کو کیا ملا؟ دوسرے سوالات کا تو درویش نے جواب نہ دیا‘ مگر توہین ِ رمضان المبارک کا ۔ ''میں ایک مسافر تھا‘‘ انہوں نے کہا ''اور مسافر پہ روزہ فرض نہیں‘‘ سامنے کی بات یہ تھی کہ ہجومِ خلق سے اور خلقِ خدا میں مقبولیت کے تصور ہی سے وہ خوف زدہ تھے۔ فقیر خوب جانتا تھا کہ یہ کیسی بری بلا ہے۔
اب تو خیر فن کے طور پر قبول کی جا چکی ‘ علمائے کرام میں سے جو لوگ فلم کے مخالف تھے ‘ ان کا استدلال یہ تھا کہ اس میں اداکاری ہوتی ہے۔ اداکار رفتہ رفتہ اپنی شخصیت کھو دیتا ہے۔ ''یہ قتل ِ عمد اور خود کشی سے بڑا جرم ہے‘‘ سید ابوالاعلیٰ مودودی نے کہا تھا۔
یہ تو معلوم ہے کہ اداکاروں کی زندگی میں تصنع بہت ہوتا ہے۔ زندگیاں ان کی نا خوشگوار ہوتی ہیں مگر یہ تحقیق طلب ہے کہ کیا وہ اپنی شخصیت کھو دیتے ہیں؟... اور اگر ایسا ہے تو کس قدر ۔ یہ اہلِ علم کا موضوع ہے، اخبار نویس کا نہیں ۔ 
مگر ایک بات ہم اچھی طرح سے جانتے ہیں اور بلا خوفِ تردید اس کا اظہار کر سکتے ہیں کہ مقبولیت کے آرزو مند علما، سیاست دانوں اور دانشوروں کی زندگی میں ریا کاری ضرور جنم لیتی ہے اور وقت گزرنے کے ساتھ بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ٹی وی کے واعظ ڈٹ کر جھوٹ بولتے ہیں یا اپنا موقف ضرورت کے مطابق ڈھال لیتے ہیں ۔ خلقِ خدا کو خوش کرنے کے لیے ۔ ان میں سے بعض پر تحقیق کی تو گھن آنے لگی۔ واعظوں کے مرید سیاسی خچروں سے بھی بدتر ہوتے ہیں ۔ دل و دماغ رہن رکھ دیتے ہیں ۔ یہ تقلید کا معاشرہ ہے ۔ خوف اور کمتری کا مارا ہوا۔ ہر آدمی کو ایک سہارا چاہئے ۔ ایک خاص مزاج ہزاروں برس کی غلامی میں ڈھلا ہے ۔ معاشرے کی علمی اور اخلاقی تعمیر سے ہماری امیدیں وابستہ نہیں بلکہ بعض افراد اور گروہوں سے ۔ آخری تجزیے میں یہ سب کے سب ایک جیسے ہیں ، ایک ہی تھیلی کے چٹے بٹے۔ کسی فیکٹری سے نکلنے والی صابن کی ٹکیوں ایسے تو نہیں کہ آخر کار آدم زاد ہیں مگر ملتے جلتے ۔ ان سب کا مرض ایک ہے ۔ قبولیت کی تمنا اور اقتدار کی خواہش ۔ جس طرح ہیروئن کا عادی ایک شخص ہر قیمت پر ہیروئن پی کر رہے گا، خواہ اپنی ماں کے زیور چرائے۔ اسی طرح اقتدار کی خواہش میں ہر سمجھوتہ جائز ہے۔ 
سینیٹر سراج الحق کی دیانت کے سبھی قائل ہیں ۔ ایک قابلِ رشک ریاضت کیش زندگی ۔ مگر دیکھیے کہ کہاں وہ کھڑے ہیں ، کس کے ساتھ اور کیا ارشاد فرما رہے ہیں ''یہ جنگ امریکہ اور مصطفیؐ کی غلامی کرنے والوں کے درمیان ہے‘‘۔ استغفراللہ، استغفراللہ ، امریکی سفیر کی بارگاہ میں وزارتِ عظمیٰ کی بھیک مانگنے والے کو لیڈر مان لیا۔ امریکہ کو ڈانٹ ڈپٹ کرنے والے کو امریکی ایجنٹ قرار دے دیا۔ 
میاں محمد نواز شریف اور حضرت آصف علی زرداری کے بارے میں تو بات کرنے کی ضرورت ہی نہیں ۔ کئی اعتبار سے عمران خان کا حال بھی پتلا ہے اور بہت ہی پتلا۔ ایسے لوگ اس کے ارد گرد جمع ہیں کہ اگر ان کے کارنامے بیان کیے جائیں ۔ بلا کم و کاست تو سننے والوں کو یقین نہ آئے ۔ ان میں سے ایک نے پچھلے دنوں ایک مقبول امیدوار سے قومی اسمبلی کا ٹکٹ عطا کرنے کے لیے اڑھائی کروڑ روپے طلب کیے۔ کم و بیش اپنے ایک ساتھی کا اتنا ہی روپیہ وہ ہڑپ کر چکا۔ 
اس وقت ، جب یہ سطور لکھی جا رہی ہیں ، دور دراز کے ایک شہر سے ایک بہت بڑا وفد جہانگیر ترین کی بارگاہ میں ہے کہ رحم کی درخواست کرے۔ ترین صاحب رحم کرتے ہیں یا نہیں ، کچھ کہا نہیں جا سکتا ۔ اس لیے کہ ذہنی طور پر اب وہ اقتدار میں ہیں ۔ بادشاہ کی مرضی ہوتی ہے کہ سنے یا نہ سنے۔ 
ایک آدھ نہیں ، 2013ء میں تحریکِ انصاف کے درجنوں لیڈروں نے ٹکٹ بیچے ، کروڑوں کمائے۔ اس بار یہ سہل نہیں کہ عمران خان ہی نہیں ، پارٹی کے بعض دوسرے لیڈر بھی نگران ہیں ۔ ان کے سوا کچھ اور لوگ بھی ۔ اس کاروبار کا مگر ایک اور انداز بھی ہے ۔ روپے لے لیے ، ٹکٹ مل گیا تو توبارہ ، نہ ملا تو روپیہ واپس ۔ اس باب میں امیدوار بیچارہ بہت کمزور ہوتاہے ۔ ذات ، برادری ، حلقے اور علاقے میں توہین کا خوف۔ اس ایک بیماری نے ،عزت کے جعلی تصور نے معاشرے کو بیمار کرکے رکھ دیا ہے۔ 
قبولیت اور پذیرائی ، قدیم علما ء نے اسی کو'' حبِ جاہ ‘‘کا نام دیا تھا۔ دولت اور اقتدار کی خواہش سے بھی بدتر۔ خود اقتدار کی خواہش بھی ایسی تباہ کن ہے کہ زرداری اور نواز شریف تو کیا ، عمران خان بھی جرائم پیشہ کو گوار اکرتے ہیں ۔ حضرت سراج الحق بھی ۔ 
ہم اخبار نویس بھی اسی مرض میں مبتلا ہیں ۔۔۔''حبِ جاہ‘‘ ہماری ترجیح بھی ریٹنگ ہے ، پذیرائی ہے ۔ خواہ اس کے لیے خود کو گالی دینی پڑے ۔ فیشن سے ہم انحراف نہیں کر سکتے ۔ وہ فضیلؒ ایسے اللہ کے بندے ہوتے ہیں کہ خلق سے جو محبت کرتے ہیں ‘ اس کی خوشنودی کے مگر طالب نہیں بلکہ اپنے مالک کی مرضی پہ خورسند۔
پنجاب کو گالی دینا فیشن کا حصہ ہے؛ چنانچہ اگر کوئی مرتکب ہو تو برا نہیں ماننا چاہئے۔ کیوں یہ فیشن وجود میں آیا‘ اس پہ پھر کبھی!

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں