کیسے کیسے عام سے لوگوں کو، کیسی کیسی اہم ذمہ داریاں کپتان سونپتا جا رہا ہے۔ عزائم بلند ہوں تو احتیاط بھی سوا ہونی چاہئے۔ مردانِ کار کے بغیر معرکے سر نہیں کیے جاتے۔ وگرنہ وہی بیت جاتی ہے، جو شاعر پہ گزری تھی۔
ہمّت بُلند تھی مگر افتاد دیکھنا!
چپ چاپ آج محوِ دُعا ہو گیا ہوں میں
دنیا بھر میں زیر بحث، عمران خاں کے خطاب کو اس لیے اگر تاریخی کہا جائے کہ یہ ایک عظیم منشور کا اعلان ہے تو بجا۔ مگر امتحان تو میدانِ عمل میں ہوتا ہے، کامیابی اور ناکامی بھی۔
سخت زمینوں میں اپنے گدازِ قلب کا نم اور بیج بونے والے جنرل ناصر جنجوعہ کا دور تھا کہ کوئٹہ میں میجر شہزاد نیّر سے ملاقات ہوئی۔ ان کا ایک شعر پہلے سے سن رکھا تھا۔
فلک سے رفتگاں نے جھک کر دیکھا
بساطِ خاک سے اٹھنا ہمارا
سوشل میڈیا پہ مشتہر، آج ان کے ایک شعر نے دل کو چھو لیا۔
آغاز ارادے ہی سے ہوتا ہے سفر کا
لنگر کا اٹھانا بھی ہے پتوار اٹھانا
پھر عارف کا وہی قول یاد آیا ''راہِ محبت میں پہلا قدم ہی شہادت کا قدم ہوتا ہے‘‘۔ راہِ سلوک کے مسافر ایمان کو محبت سے کیوں تشبیہ دیتے ہیں؟ شاید اس لیے کہ محبت کی طرح ایمان میں بھی ہر دوسری چیز ثانوی ہو جاتی ہے۔ درویش یہ کہتا ہے کہ اللہ اسی کو مل سکتا ہے، جس کی وہ ترجیحِ اوّل ہو۔ 60، 65 سال کی عمر میں، افسانہ نویس، ڈرامہ نگار اشفاق احمد‘ پروفیسر احمد رفیق
اختر سے ملنے گئے۔ وہ عجیب آدمی، جس نے صوفیا کے لیے ''بابوں‘‘ کا لفظ ایجاد کیا۔ جس کا خیال تھا کہ خدا کی کائنات میں فقیر ہر گلی اور گائوں میں پائے جاتے ہیں۔ پروفیسر صاحب سے انہوں نے پوچھا ''کیا میں صوفی بن سکتا ہوں؟‘‘ ہمیشہ کے ریشمی لہجے میں، مگر قطعیت کے ساتھ پروفیسر صاحب نے جواب دیا: خان صاحب! اس عمر میں، اتنی بڑی انا کے ساتھ؟
وہی ترجیحات کا سوال۔ جواں عمری میں کسی راستے، کسی منزل کا انتخاب کرنے والے کامیاب اور سرخرو ہوتے ہیں کہ ان کا مقصود ساری زندگی ان کی ترجیحِ اوّل رہتا ہے۔ جنیدِ بغدادؒ، شیخِ ہجویرؒ اور شیخ عبدالقادر جیلانی ؒ سمیت کبار صوفیا وہی ہیں، عہدِ جوانی میں جنہوں نے خود کو اللہ کے سپرد کر دیا۔ عمر بھر پھر اسی کی راہ میں جیے۔ خالق سے محبت کی اور اس کی مخلوق کے لیے ایثار۔ عظیم سیاست دان، عظیم ادیب، عظیم شاعر، ڈاکٹر، انجینئر اور معلّم بھی ایسے ہی ہوتے ہیں۔ زندگی پیش کرنی پڑتی ہے، پوری زندگی۔ افتخار عارف کا شعر ہے :
زندگی نذر گزاری تو ملی چادرِ خاک
اس سے کم پر تو یہ نعمت نہیں ملنے والی
اور کیسی عجیب بات شعیب بن عزیز نے کہہ دی ہے
عشق لا حاصلی کا کھیل نہیں
دیکھ ہم اس گلی کی خاک ہوئے
عہدِ اوّل سے خواجہ مہر علی شاہؒ تک، مدینے کی گلیوں نے کیسے کیسے عشّاق کو دیکھا ہے۔ مگر امام مالکؒ کی شان کچھ اور ہی تھی۔ کبھی جوتا نہ پہنتے۔ معلوم نہیں، کہاں سرکارؐ کا قدم پڑا ہو۔
1995ء میں، حجاز کے پہلے سفر کے ہنگام، ایک درویش سے ملاقات ہوئی۔ مدینہ میں انہیں امامؒ کے نقشِ قدم پر دیکھا۔ سر جھکائے، ننگے پائوں۔ مسجد میں داخل ہونے سے پہلے وضو کرتے تو خاک دھلتی۔ احترام، عقیدت اور انکسار کا عجب رنگ۔ لوگ باگ جب مزار مبارک اور ریاض الجنّہ کی طرف لپک رہے ہوتے تو وہ پچھلی صفوں میں نماز پڑھتے۔ خاموش اور مؤدب۔ فارسی کا شاعر یہ کہتا ہے:
حاصلِ عمر نثارے رہِ یارے کردم
شادم از زندگیِٔ خویش کہ کارے کردم
زندگی بھر کی متاع دوست کی راہ میں نثار کر دی ۔ شاد ہوں کہ بڑا کام کر ڈالا ۔
اشفاق احمد خاں کے ہم نفس، ممتاز مفتی کہنے لگے: پروفیسر صاحب! ہم اللہ میاں کی گود میں براجمان تھے۔ آپ نے ہمیں فرشِ خاک پہ لا بٹھایا۔ درویش نے کہا: آدمی کی جگہ یہی ہے۔ تصنّع مفتی صاحب میں تھا ہی نہیں۔ اب اپنے نقطۂ نظر سے بھی رجوع کر لیا۔ اللہ اس سائبان کو ہمارے سروں پہ قائم رکھے، اوّلین تحریریں انہی نے سالک کے بارے میں لکھی تھیں۔ بوڑھے ہو گئے تھے، اکتا چکے تھے۔ کہا کرتے: پلیٹ فارم پہ بیٹھا ہوں۔ ٹرین کیوں نہیں آتی۔ تیور مگر جوانوں کے تھے۔ شاعر وصی شاہ کے ایک سوال کے جواب میں نقاد، معلم، شاعر اور مفکر، حقیقت پسند ڈاکٹر وزیر آغا نے کہا تھا: میری صحت کا راز یہ ہے کہ لقمہ خوب چبا کر کھاتا ہوں اور اپنی حیرت برقرار رکھنے کی کوشش کرتا ہوں۔ جوانوں اور بچوں کی طرح، ڈاکٹر وزیر آغا کی حیرت برقرار رہی؛ چنانچہ کسی درجے میں معصومیت اور سیکھنے کی تمنا بھی۔ اللہ ان کی مغفرت فرمائے، عرصۂ امتحان میں ایسے ہی لوگ سرخرو ہوا کرتے ہیں۔
اہلِ ادب میں ایسے تیور ہم نے ڈاکٹر خورشید رضوی میں دیکھے ہیں۔ پنجابی کے بے پناہ شاعر انور مسعود کے ہم جماعت ہیں مگر نجابت، تہذیب، ترتیب اور سلیقہ مندی اور نوجوانوں کی سی چستی۔ ایک بار مجھ سے کہا: اپنے اندر کے بچے کو میں نے مرنے نہیں دیا۔ آدمی پتوار ڈال دیتا ہے۔ وقت بیت جائے تو زندگی کی رونق سے آدمی کچھ نہ کچھ دستبردار ہو جاتا ہے۔ اپنی آرزوئوں کو کچھ نہ کچھ محدود کر لیتا ہے۔ ترنگ کو پگھلنے دیتا ہے۔
جنرل اشفاق پرویز کیانی سبکدوش ہو رہے تھے تو اس طالبِ علم نے سید ابوالاعلیٰ مودودی کے ساتھ اپنے انٹرویو کا ایک جملہ انہیں سنایا ''میں جماعتِ اسلامی کی امارت سے دستبردار ہو رہا ہوں، زندگی سے نہیں‘‘۔ بعد میں ایک موقع پر ان سے پوچھا گیا کہ دن بھر وہ کیا کرتے رہتے ہیں تو یہی جملہ انہوں نے دہرا دیا۔ یہی انداز ڈاکٹر شعیب سڈل کے ہیں۔ وہی صحت مندی، وہی معاملات، شام کو وہی لمبی ٹہل، walk۔
ان کے پرانے دوست ہیں۔ میرا خیال تھا کہ عمران خان کوئی بہت اہم ذمہ داری ڈاکٹر صاحب کو سونپیں گے۔ سنا ہے کہ اسد عمر کی موجودگی میں ایک بہت ہی اہم اور نازک موضوع پر ان سے تبادلۂ خیال کیا۔ وزیرِ خزانہ بنائے جانے سے پہلے ہی ان سے کہا کہ ڈاکٹر صاحب کے ساتھ وہ رابطہ رکھیں۔ کچھ مشکل کام انہیں سونپنے ہیں۔
بعد میں وہی ذمہ داری کسی اور کے سپرد کر دی۔ معلوم نہیں کیوں؟ شاید اس لیے کہ کچھ خاص طرح کے لوگوں میں کپتان آسودہ رہتا ہے۔ منت سماجت کر کے 2013ء میں ڈاکٹر صاحب کو پختون خوا میں محتسب کا عہدہ قبول کرنے پر آمادہ کیا تھا۔ بائیسویں گریڈ میں ٹیکس کے وفاقی محتسب رہ چکے تھے۔ ایک آئینی پوزیشن، وزیرِ اعظم جس کا تقرر تو کر سکتا ہے‘ لیکن برطرفی نہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے کہ لا گریجویٹ بھی ہیں، قانون کا مسوّدہ لکھا۔ پرویز خٹک اور جہانگیر ترین کو خوش نہ آیا۔ وہ ترامیم کے خواہش مند تھے؛ چنانچہ ڈاکٹر صاحب نے انکار کر دیا اور اس پر خوش تھے۔ اب بھی رضامند ہی رہیں گے کہ افغانستان کے ساتھ غیر سرکاری مذاکرات اور اقوامِ متحدہ کے کمیشن برائے جرم و انصاف کی سربراہی کے سوا بھی کئی دردِ سر رکھتے ہیں۔ مثال کے طور پہ ترک اور جاپانی پولیس کے مشیر ہیں، بین الاقوامی کانفرنسیں اس کے علاوہ۔
کیسے کیسے عام سے لوگوں کو، کیسی کیسی اہم ذمہ داریاں کپتان سونپتا جا رہا ہے۔ عزائم بلند ہوں تو احتیاط بھی سوا ہونی چاہئے۔ مردانِ کار کے بغیر معرکے سر نہیں کیے جاتے۔ وگرنہ وہی بیت جاتی ہے، جو شاعر پہ گزری تھی۔
ہمّت بُلند تھی مگر افتاد دیکھنا!
چپ چاپ آج محوِ دُعا ہو گیا ہوں میں