اقتدار‘ شہرت اور دولت سے ایک غیر معمولی اور غیر ضروری اعتماد جنم لیتا ہے‘ اکسانے والا اعتماد۔ اس کے شر سے بچنا چاہیے۔ کہ قدم ڈگمگاتے ہیں تو کبھی راستے ہی بدل جاتے ہیں۔ منزل ہی کھوٹی ہو جاتی ہے۔
سینیٹ کے اجلاس میں نون لیگ کے مشاہداللہ نے جو لب و لہجہ اختیار کیا‘ اس پر انہیں طوفانی مذمت کا سامنا ہوتا۔ بچ کر اس لئے نکل گئے کہ فواد چودھری نے جواز عطا کیا۔ قومی اسمبلی کے معزز ایوان میں جو زبان آنجناب نے استعمال کی‘ پورے ملک کو اس نے ششدر کرکے رکھ دیا۔ ناتجربہ کار مہم جوئوں کے ہاتھ میں معاملات اسی طرح بگڑتے اور مسخ ہوتے ہیں۔
خود پی ٹی آئی کے لیڈر اس پہ پریشان ہیں‘ جن کی حکومت پرواز کی ابتدا ہی نہیں کر سکی۔ جنگل میں راستہ سجھائی نہیں دے رہا۔ اس پہ ایک کے بعد دوسری افتاد ہے۔ عمران خان کے بعد پارٹی کے سب سے کارگر لیڈر جہانگیر ترین کو عدالت عظمیٰ نے اٹھا پھینکا۔ پے در پے وزیر اعظم ایسے لوگوں کو منصب سونپ رہے ہیں‘ پارٹی کے لیے‘ جن کا دفاع کرنا مشکل ہے۔ پختون خوا میں وہ اپنی مرضی کا وزیر اعلیٰ بنانے میں ناکام رہے۔ یہ کوئی راز نہیں کہ محمود خان کا تقرّر نہایت مجبوری کے عالم میں کیا گیا۔ پرویز خٹک اور ان کے گروپ نے عاطف خاں کو قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ درمیانی راستہ تلاش کرنا پڑا۔ کہا جاتا ہے کہ پرویز خٹک اور ان کے ساتھیوں نے مستعفی ہونے کی دھمکی دی تھی۔ چھوٹی چھوٹی‘ سخت گیر سودے باز پارٹیوں کے سہارے کھڑی نئی حکومت اس کی متحمل نہ تھی؛ چنانچہ سپر انداز ہونا پڑا۔ غالبؔ نے کہا تھا:
ضعف میں طعنۂ اغیار کا شکوہ کیا ہے
بات کچھ سر تو نہیں ہے کہ اٹھا بھی نہ سکوں
کمزوری میں طعنہ زنی ہی نہیں اور بھی بہت کچھ گوارا کرنا پڑتا ہے۔ پنجابی کے لازوال شاعر میاں محمد بخش نے کہا تھا ''لِسّے دا کیہ زور محمد رونا یا نس جانا‘‘ یعنی کمزور کے لیے اس کے سوا کیا چارہ ہے کہ اپنی جان کو روئے یا بھاگ لے۔ اقتدار کی کشمکش بھی گولہ و بارود کی جنگ ایسی ہی تباہ کن ہوتی ہے۔ اس میں بھی لوگ پامال اور پست ہوتے ہیں لیکن کسی اور طرح سے۔ پوری تیاری کے بغیر جو لشکر میدان میں اترے گا‘ گاہے فتح یاب ہو کر بھی اسے خفت اور بالآخر شکست کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اکثر پاکستانی لیڈروں کی طرح عمران خان کا المیہ بھی یہ ہے کہ پارٹی کی تنظیم پہ انہوں نے کبھی توجہ نہ دی۔ کارکنوں کی تربیت کا کبھی ڈول ہی نہ ڈالا۔ دوسروں ہی کی طرح وہ داد و تحسین کے غلغلے بلند کرنے والوں میں گھرے رہتے ہیں۔
بہت دن ہوتے ہیں‘ تحریک انصاف ابھی شرمائی لجائی کم سن سی پارٹی تھی۔ ذاتی تعلق کے طفیل‘ بہت سا وقت کپتان کے ساتھ گزرتا۔ ایک نازک موضوع پر بحث کے ہنگام‘ اچانک اس نے سوال کیا: یہ سب لوگ مجھ سے اتفاق کرتے ہیں‘ تم کیوں نہیں۔ عرض کیا‘ اس لیے کہ وہ آپ کو قائد اعظم سمجھتے ہیں اور یہ ناچیز عمران خان۔ شخصیتوں سے مرعوب معاشروں میں انسانی صلاحیت کبھی ڈھنگ سے بروئے کار نہیں آتی۔ سیاسی لیڈروں اور حکمرانوں کو دیوتا مان لیتے ہیں تو پورے آدمی ہم نہیں رہتے۔ اپاہج سے ہو جاتے ہیں۔ مرعوبیت کی ماری عقلیں سہم جاتی ہیں۔ اللہ کی آخری کتاب ان لوگوں کو ''بدترین جانور‘‘ کہتی ہے‘ غور و فکر سے جو گریزاں رہتے ہیں۔
آدمی کو ابتلا کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ وہ آزمایا جاتا ہے اور بار بار۔ کارگاہِ حیات میں فہم و فراست ہی اس کا سب سے بڑا ہتھیار ہے۔ وہ سوچتا‘ غور کرتا‘ پڑھتا اور علم حاصل کرتا ہے تو صبر و فراست جنم لیتی ہے۔ یہی خالق کا منشا ہے۔ آدمی کو اسی لیے‘ اس خاک داں میں اپنا خلیفہ اس نے بنایا ہے‘ کہ سوچ بچار سے سچائیوں کا وہ سراغ لگائے۔ اسی لیے وہ فرشتوں سے افضل ہے ۔ اسی لیے اس سے بہشتِ بریں کا وعدہ ہے‘ ابدالآباد تک زندگی جس میں لہلہاتی رہے گی۔
مشرق کے شاعر نے شکوہ کیا تھا:
فلک نے ان کو عطا کی ہے خواجگی کہ جنہیں
خبر نہیں روشِ بندہ پروری کیا ہے
فلک کن کو خواجگی عطا کرتا ہے؟ اللہ کے آخری رسولﷺ نے کہا تھا: تمہارے حاکم ویسے ہی ہوں گے جیسے تمہارے اعمال۔ بندہ جب اپنے منصب سے نیچے اتر کر‘ امانتِ عقل و علم کو تیاگ کر حیوان سا ہو جاتا ہے تو لیڈر نہیں اسے چرواہا کہتے ہیں۔ اپنی مرضی سے جو اسے کوہ و بیاباں میں ہانکتے رہتے ہیں۔ قرآنِ کریم نے چالیس برس بنی اسرائیل کے صحرا میں بھٹکنے کا ذکر کیا تو اس لیے کہ پڑھنے والے اس پر غور کریں۔ تفصیل کے ساتھ بگڑنے والی اس امّت کا ذکر اسی لیے ہے۔ اللہ کے ایک جلیل القدر پیمبر کی موجودگی میں جس نے بچھڑے کی پوجا کی۔ آسمان سے عطا ہونے والے فرامین پر غور و فکر کی بجائے‘ آبائواجداد کی پیروی شعار کی۔
زرداری اور شریف خاندان ہمیں ہانکتے رہے۔ قوم کو گروی رکھ دیا۔ نئے لیڈر سے امید تھی کہ اصولوں کی پاس داری کرے گا۔ افسوس کہ اب تک کے مظاہر شکوک و شبہات پیدا کرتے ہیں۔ عثمان بزدار کے تقرر پر قوم پریشان ہے۔ کسی کی سمجھ میں نہیں آتا کہ اس عنایت کا سبب کیا ہے۔ نعیم الحق‘ عون محمد اور عامر کیانی کے بعد ایک ایسی خاتون کو اب بے نظیر انکم سپورٹ پروگرام کے اربوں روپے سونپ دیئے ہیں‘ جسے مالیات کا کوئی تجربہ ہے اور نہ نظم و نسق کا۔ اللہ جانے اس کا پس منظر کیا ہے۔ پرسوں پارٹی کے ایک ذمہ دار لیڈر نے اس ناچیز کو فون کیا۔ ان کا اندازہ یہ تھا کہ یہ شاہ محمود قریشی کا کرشمہ ہے۔ کہا: منت سماجت سے خان صاحب پسیج جاتے ہیں۔ مستقل طور پر ارد گرد موجود رہنے والوں کی تادیر مزاحمت نہیں کر سکتے۔
شاہ محمود پارٹی میں شامل ہوئے تو عمران خان سے عرض کیا تھا کہ عدمِ تحفظ کا شکار یہ آدمی ٹیم کے ساتھ کھیلنے والا کھلاڑی نہیں۔ دھڑے باز ہے اور پیچیدگیاں پیدا کرے گا۔ ایک آدھ نہیں۔ دو تین برس پر پھیلے‘ ضمنی الیکشن کے معرکوں میں قومی اسمبلی کی کم از کم پانچ سیٹیں اس نے ضائع کر دیں۔ اب بھی یہی اس کی روش ہے۔ قحط الرجال ہے اور ایسا کہ خدا کی پناہ۔ عمران خان کہتے ہیں کہ فرشتے وہ کہاں سے لائیں۔ جی ہاں فرشتے تو کیا مردانِ کار ہی مہیا نہیں۔ مگر جیسے تیسے موجود ہیں‘ ان کی تربیت بہرحال کی جا سکتی ہے۔ بتدریج استعداد ان کی بہتر بنائی جا سکتی ہے۔ ہر ایک کو پابند کیا جا سکتا ہے کہ اپنے دائرہ کار میں بروئے کار آئے۔ بے سبب اظہارِ خیال سے گریز کرے۔ غیر ضروری ستائش کی حوصلہ افزائی کا مطلب یہ ہے کہ دیمک کو درودیوار چاٹ لینے کی اجازت دی جائے۔
شمالی پنجاب کے کارکن آزردہ ہیں کہ عامر کیانی ان پر مسلط کر دیئے گئے۔ پارٹی کے اندر جنہوں نے پارٹی بنا رکھی ہے۔ ایسی ہی آزادیٔ عمل اس آدمی کو حاصل رہی تو بات سینہ کوبی تک محدود نہ رہے گی۔ شکایت سنی نہ جائے تو غیبت میں ڈھلتی ہے۔ پھر بغض و عناد کی شکل اختیار کرتی ہے اور آخرکار دھڑے بندی کی۔ اس کے بعد شکست۔ پارٹی کو شاید ایک ایسے سیکرٹری جنرل کی ضرورت ہے جو تہہ در تہہ بحرانوں میں گھرے وزیر اعظم کو بڑی حد تک پارٹی سے بے نیاز کر دے۔
خاتون اوّل کے انٹرویو پر اظہار خیال سے گریز ہے۔ اس لیے کہ آئینے میں بال آ سکتا ہے۔ ایک بات مگر واضح ہے کہ سیاست ان کا میدان نہیں۔ یہ بھی آشکار ہوا کہ تصوّف کے باب میں بھی ان کا علم اور مشاہدہ محدود ہے۔ مثلاً یہ فرمایا کہ درود پڑھنے والے پر کوئی غالب نہیں آتا اور وہ سب پہ غالب رہتا ہے۔ جی نہیں درود اس لیے انہیں پڑھا جاتا‘ غلبے اور طاقت کی تمنا میں نہیں بلکہ سرکارؐ سے تعلق کی آرزو میں۔ عالی جناب کے ارشادات کو اگر ملحوظ رکھا جائے تو پاکیزگی کے حصول‘ جھوٹ اور خیانت سے بچنے کے لیے۔ جس موضوع کا آدمی کو ادراک نہ ہو اس پہ اظہار خیال کیوں ضروری ہے؟
اقتدار‘ شہرت اور دولت سے ایک غیر معمولی اور غیر ضروری اعتماد جنم لیتا ہے‘ اکسانے والا اعتماد۔ اس کے شر سے بچنا چاہیے۔ قدم ڈگمگاتے ہیں تو کبھی راستے ہی بدل جاتے ہیں۔ منزل ہی کھوٹی ہو جاتی ہے۔