جلد یا بدیر، ہر عمل کا ایک رد عمل ہوتا ہے، ہر کام کا ایک نتیجہ۔ جلد یا بدیر، افراد یا اقوام‘ ہر ایک کو اپنے اعمال کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ عشروں تک افغانستان میں درندگی کی قیمت بھی ایک دن چکانا ہو گی۔ کون جانتا ہے کہ یہ قیمت کیا ہو گی۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون
افغانستان میں امن کے لیے‘ شاہ محمود قریشی نے بھارت سے تعاون کی جو اپیل کی ہے‘ اس کا مطلب کیا ہے؟ محض ایک روایتی‘ سفارتی بیان؟ یا زیادہ سنجیدگی سے اس پہ غور کرنے کی ضرورت ہے۔ زمینی حقائق تلخ ہوتے ہیں۔ ان کے ادراک ہی سے ثمر خیز حکمت عملی تشکیل دی جا سکتی ہے۔ زندگی آدمی سے سمجھوتہ نہیں کرتی‘ آدمی کو زندگی سے سمجھوتہ کرنا ہوتا ہے۔
بھارتی وزیر خارجہ سشما سوراج نے کہا تھا: ہم چاہتے ہیں کہ امرتسر سے ایک ٹرک چلے، پاکستان سے گزرتے ہوئے کابل میں جا کر دم لے۔ بھارت میں فولاد سازی کی صنعت بہت بڑی ہے‘عظیم الجثہ! اسے افغان کوئلے کی ضرورت ہے۔ اربوں کا نہیں، کھربوں ڈالر کا معاملہ۔پاکستان ہی اس کا واحد راستہ ہے۔ اس کے سوا بھی ان کے تجارتی مفادات ہیں‘ اور پاکستان کے بغیر متشکل نہیں ہو سکتے۔
2013ء میں اقتدار سنبھالتے ہی وزیر اعظم نواز شریف نے پاکستان سے کوئلے کے ذخائر تک ریلوے لائن تعمیر کرنے کی تجویز دی تھی۔ عسکری قیادت نے مسترد کر دی۔ ایک ممتاز جنرل نے‘ جو پاک فوج کا دماغ سمجھے جاتے ہیں‘ اس اخبار نویس کو بتایا کہ ایک طویل تجزیاتی رپورٹ میں‘ پاک فوج کے انجینئروں نے اسّی عدد مشاہدات بیان کیے۔ سوال یہ تھا کہ پاکستان کو کیا ملے گا؟
ہر تصور کے بروئے کار آنے کا ایک وقت ہوتا ہے۔ افغانستان میں امریکی اب دبائو کا شکار ہیں۔ اب اس تجویز پہ غور کیا جا سکتا ہے۔ امریکیوں نے جان لیا ہے کہ طالبان کے بغیر‘ افغانستان میں امن کبھی قائم نہ ہو گا۔
پاک فوج کے ایک سابق سربراہ نے مجھے بتایا: نائن الیون کا حادثہ خواہ رونما نہ ہوتا تب بھی امریکہ افغانستان میں مداخلت کی کوشش کرتا۔ اس کے علاوہ کہ کابل میں عسکری موجودگی سے وہ چین‘ وسطی ایشیا‘ ایران اور پاکستان پہ نگران رہ سکتے ہیں‘ ایک اور بڑا سبب بھی ہے۔ بلوچستان سے افغانستان تک دنیا کی نادر ترین معدنیات کے ذخائر پائے جاتے ہیں‘ جو سونے اور پلاٹینم سے بھی کہیں زیادہ قیمتی ہیں۔ طعنہ زنی اور دھمکیوں کے دو برس بِتا دینے کے بعد آخر کار صدر ٹرمپ نے پاکستان سے تعاون کی درخواست کی ہے۔ ایک ہزار ارب ڈالر خرچ کرنے کے باوجود افغانستان میں وہ کچھ بھی حاصل نہیں کر سکے۔ پچاس فیصد سے زیادہ علاقے پر طالبان کی حکومت ہے۔ روس ایک بڑی اقتصادی قوت بن کے ابھرا ہے‘ موقعہ ملنے پر جو انکل سام کا قرض چکانا چاہتا ہے۔ چین دنیا کی دوسری بڑی معاشی طاقت بن چکا۔ اندازہ ہے کہ ایک عشرے میں امریکہ سے بڑھ جائے گا... پھر کیا ہو گا؟
لطیفہ یہ ہے کہ امریکی اداروں کے دفاع میں انکل سام کے مقابلے میں‘ سستی افرادی قوت رکھنے والی‘ نہایت منظم اور مرتب چینی کمپنیاں‘ افغانستان کی معدنیات کہیں زیادہ نچوڑ رہی ہیں۔ بلّی کی طرح جو باورچی خانے کے سوراخ سے داخل ہو جاتی ہے‘ رینگتے ہوئے چینی آگے بڑھتے اور قدم جماتے چلے جاتے ہیں۔ کسی بھی دوسری طاقت کے مقابلے میں وہ کہیں زیادہ تیزی سے‘ عالمی سیاست پہ اثر انداز ہونے کے قابل ہوتے جا رہے ہیں۔
امریکہ کی آنکھ اب کھلی ہے۔ اب انہیں ادراک ہوا کہ طالبان کو شریکِ اقتدار کیے بغیر‘ افغانستان میں قرار ممکن نہیں... اور یہ پاکستان کے بغیر نہیں ہو سکتا۔
وزرائے کرام کے بیانات کو الگ رکھیے۔ وہ رٹا ہوا گیت گایا کرتے ہیں۔ پاکستان ابھی تک معاشی گرداب میں ہے۔ دلدل سے نکلنے کے لیے سر توڑ جدوجہد کی ضرورت ہے۔ سرکاری محکمے تعاون اور ترغیب کی بجائے کاروبار میں رکاوٹ ڈالتے ہیں۔ خوف زدہ ثروت مند اپنا سرمایہ ملک سے باہر منتقل کرتے رہتے ہیں۔ ٹیکس کلچر پروان نہیں چڑھ سکا۔ پولیس عوام دوست نہیں اور سرکاری دفاتر میں مسائل حل کرنے کی بجائے سائل کی تحقیر کی جاتی ہے۔ بائیس کروڑ پاکستانی ملک کے شہری نہیں بلکہ رعایا ہیں۔ اس پہ وہ نا تجربہ کار حکومت‘ جس پہ احتساب کا بھوت سوار ہے۔ احتساب بجا مگر وہ صبحِ کاذب سے شب اترنے تک نماز کی طرف بلائی جانے والی اذان نہیں کہ ہر روز پانچ بار بلند کی جائے۔ احتساب ہوتا رہے‘ ہر آن ہوتا رہے‘ مگر اس کے ساتھ ساتھ‘ ان گنت دائروں میں برپا کاروبارِ حیات کو بھی‘ ایک آہنگ کے ساتھ بروئے کار رہنا چاہئے۔ زندگی کو اس کے پروردگار نے تنوّع میں پیدا کیا ہے اور دائم وہ ایسی ہی رہے گی۔
امن ہمیشہ آدمی کی ضرورت تھا۔ آج اور بھی زیادہ ضروری ہے کہ زمین آلودگی سے بھر گئی ہے۔ پانی کے سوتے سوکھ رہے ہیں۔ دنیا سمٹ کر چھوٹی ہو گئی۔ اقوام کے باہمی تعاون کے بغیر اس کرّۂ خاک پہ زندگی آسودہ نہیں ہو سکتی۔
لوٹ مار کا سدّ باب ضروری ہے، بہت ضروری ہے لیکن کسی بھی دوسری چیز سے زیادہ ملک کو امن درکار ہے۔ بھارت کا روّیہ کیسا ہی کیوں نہ ہو‘ امن کا پرچم ہمیں بلند رکھنا چاہئے؛ اگرچہ سلیقہ مندی‘ احتیاط اور وقار کے ساتھ۔ جنون کی آتشیں زمین سے کبھی کچھ پیدا نہ ہوا۔ جو کچھ پیدا ہوتا ہے‘ وہ سکون‘ قرار‘ ٹھہرائو‘ ریاضت اور حکمت کے ساتھ۔ افغانستان قبائلی ہے۔ قبائلی سماج ایک پیہم تاریخی عمل سے جدید معاشرے میں ڈھلتا ہے۔ راتوں رات روسیوں نے کابل میں کمیونزم مسلّط کرنے کی کوشش کی تو خاک چاٹی۔ فوجی طاقت کے بل پر امریکیوں نے جمہوریت‘ نافذ کرنے کا بیڑہ اٹھایا۔ تاریخ کے چوراہے پر وہ نامراد کھڑے ہیں۔
احمد شاہ ابدالی سے لے کر ظاہر شاہ تک‘ افغانستان کے فیصلے ''لویہ جرگہ‘‘ میں ہوتے رہے۔ اب بھی اسے ایک لویہ جرگہ ہی درکار ہے... ایک عظیم پنچایت۔ مغرب کے پشتونوں، شمال کے ازبکوں اور ترکمانوں سے لے کر وسطی افغانستان کے ہزاروں اور پنج شیر آبادی کے تاجکوں سمیت سبھی جس میں شامل ہوں۔ اڑھائی سو سال سے پشتون حکمرانی کرتے آئے ہیں۔ ہاں! لیکن دوسروں کی شراکت اور اعانت سے۔ مثلاً سول سروس میں تاجکوں کا حصہ زیادہ رہا کہ تعلیم میں زیادہ ہیں۔
امریکیوں نے حماقت کی کہ افغان افواج کو شمال سے بھر دیا۔ یہ نہیں ہو سکتا۔ یہ کبھی قابل عمل نہ ہو گا۔ یہ جنرل محمد ضیاء الحق کا عہد تھا۔ عربوں کے ایک شاہی خاندان نے‘ جن کی حفاظت پاک فوج کے دستے کیا کرتے‘ ان سے کہا کہ فلاں مکتب فکر کے لوگ محافظوں میں شامل نہ کیے جائیں۔ جنرل نے انکار کر دیا۔ بد ترین غلطیوں کے باوجود پاک فوج اور سول سروس فرقہ وارانہ اثرات سے پاک ہے۔
کوئی بھی فوج بتدریج قومی فوج بنتی ہے۔ افغانستان ابھی تک قبائلی ہے۔ اس حقیقت کو ملحوظ رکھ کر ہی بنیادی فیصلے صادر کیے جا سکتے ہیں۔ افغان فوج کی تشکیل بدلنا ہو گی اور افغان حکومت کی بھی۔ میرے محترم اور عزیز دوست گلبدین حکمت یار کہا کرتے: قبائل کی جگہ اب احزاب نے لے لی ہے یعنی پارٹیوں نے۔ قوموں کی فصل کہر اور دھوپ کے ان گنت موسموں میں پکتی ہے۔ فطرت کے اٹل اصولوں میں سے ایک یہ ہے کہ برقرار رہنے والی تبدیلیاں‘ رفتہ رفتہ، بتدریج وقوع پذیر ہوتی ہیں۔ دیہی بلوچستان‘ دیہی سندھ‘ قبائلی پٹّی اور سرائیکی خطے میں پنچایت کی اہمیت‘ آج بھی عدالت سے زیادہ ہے۔
جمعیت علمائے اسلام کے مولانا عبدالواسع نے پوچھا ہے: افغانستان میں ان لاکھوں انسانوں کے لہو کا ذمہ دار کون ہے‘ جو بے گناہ تھے‘ جو بے سبب مارے گئے؟
اہل تقویٰ کے سردار امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ فرمایا کرتے: ''قرآن کریم کی ایک آیت ایسی ہے‘ جو مظلوم کے سر پہ سائبان اور ظالم کے سینے میں تیر ہے۔ ''وما کان ربک نسیّا۔‘‘ اور تیرا رب بھولنے والا نہیں‘‘...
جلد یا بدیر، ہر عمل کا ایک ردعمل ہوتا ہے، ہر کام کا ایک نتیجہ ۔ جلد یا بدیر، افراد یا اقوام ‘ ہر ایک کو اپنے اعمال کی قیمت چکانا پڑتی ہے۔ عشروں تک افغانستان میں درندگی کی قیمت بھی ایک دن چکانا ہو گی ۔ کون جانتا ہے کہ یہ قیمت کیا ہو گی۔
یہ کائنات ابھی ناتمام ہے شاید
کہ آ رہی ہے دمادم صدائے کن فیکون