آدمی اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہے۔ کوئی کسی کو بدل نہیں سکتا۔ پروفیسر احمد رفیق اختر تو کیا، جنیدؒ و بایزیدؒ بھی نہیں۔ میرا تاثر یہ ہے کہ عارف کے ہاں سے زرداری خالی ہاتھ لوٹے۔ باقی، باقی!
تجسّس ایڈیٹر میں بہت ہوتا ہے۔ وہ تفتیش کرتے ہیں۔ اعتراض پہ اعتراض اور سوال پہ سوال۔ شک ان کا شعار ہو جاتا ہے۔ رات گئے ندیم نثار کا فون آیا: کیا کسی اہم شخصیت نے آج پروفیسر صاحب سے ملاقات کی؟
کہانی کا آغاز بہت پہلے ہوا۔ چوہدری فخر پروفیسر صاحب کے پڑوسی ہیں۔ خوش باش، جواں سال اور لمبے تڑنگے۔ مرنجاں مرنج اور توانائی سے بھرپور۔ دوستوں کے دوست اور خوش گمان۔ تحریکِ انصاف سے وابستہ تھے۔ ان کے ساتھ وہی ہوا‘ جو اکثر شرفا کے ساتھ۔ 2013ء کے اوائل میں لیاقت باغ کے جلسۂ عام میں تین ہزار سامعین لے کر آئے تھے۔ اس کے باوجود سٹیج پر جگہ نہ ملی۔ منگلا ڈیم کی نذر ہو جانے والے پرانے میر پور سے تعلق ہے۔ آسودہ حال مگر سادہ اطوار۔ پارٹی کے لیے عطیات جمع کرنے لندن گئے۔ 50 ہزار پائونڈ ہو چکے تو نعیم الحق کو فون کیا۔ اس نے کہا: ایک لاکھ پائونڈ سے کم کے لیے عمران خان نہیں آ سکتے۔ چوہدری کو ساتھ لے کر میں گیا‘ اور کپتان سے کہا: آپ نے یہ کیا کیا۔ یہ چند مخلص لوگوں میں سے ایک ہیں۔ ہنستے رہے، صاد کیا مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات۔ نعیم الحقوں، صداقت عباسیوں اور سیف اللہ نیازیوں کی موجودگی میں اس کے سوا کیا ہوتا۔
سیاست کاری کیلئے بے تاب آدمی پیپلز پارٹی آزاد کشمیر سے جا جڑا۔ راولپنڈی اور میرپور میں ان کے خاندان کا اثر گہرا ہے۔
شہلا رضا سے ان کی ملاقات ہوئی تو گویا وہ منہ بولے بہن بھائی ہو گئے۔ محترمہ کا تجسّس، انہیں پروفیسر صاحب تک لے آیا۔ فریال تالپور سے تذکرہ کیا۔ لگ بھگ تین برس ہوتے ہیں، درویش کی خدمت میں حاضر ہوا تو شہلا رضا کے ساتھ تشریف فرما تھیں۔ مجھ سے کہا: ہارون صاحب ایسی بھی میں بری نہیں۔ باہمی بات چیت میں پروفیسر صاحب مداخلت نہیں کرتے۔ ذرا سا مسکرائے اور اس مفہوم کا جملہ کہا: اگر آپ لوگ اسے قائل کر سکتے ہیں تو کر لیجئے۔
پے در پے سوالات کے جواب میں عارف کا مشورہ یہ تھا: چیخ چیخ کر بلاول کو تقریر نہیں کرنی چاہئے بلکہ اپنے فطری انداز میں۔ کسی حد تک اس مشورے پر نوجوان عمل کرتے پایا گیا۔ یہ بھی کہا کہ حکومتوں کی نیک نامی اور بدنامی کا انحصار افرادِ کار پہ ہوتا ہے۔ اگلے ہی دن چوہدری فخر وزیر اعظم کے مشیر بنا دیئے گئے۔ اس پر مزاحیہ پروگرام پیش کرنے والے ایک اداکار نے افسانہ گھڑا۔ انہی دنوں اس چینل کے سربراہ خدمت میں حاضر ہوئے۔ برہمی تو نہیں‘ درویش نے حیرت کا اظہار کیا تو انہوں نے تردید کا وعدہ کیا مگر وہ وعدہ ہی کیا جو وفا ہو جائے۔ پروفیسر صاحب بھول گئے اور ان کے شاگرد بھی۔ جی ہاں، شاگرد ہوتے ہیں یہاں، مرید نہیں۔ انس اور الفت، حسنِ اخلاق، علمی مباحث‘ اور ایک خوشگوار فضا میں۔ خالقِ کائنات اور اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم کا ذکر، عصری مسائل اس تلقین کے ساتھ کہ عقیدت اور جہالت کی حدیں ایک ساتھ شروع ہوتی ہیں۔
زرداری صاحب بھی ملاقات کے آرزو مند تھے۔ جہاں تک یاد پڑتا ہے، پیغام بھیجا مگر ٹال دیئے گئے۔
ندیم نثار صاحب نے بات کی تو میرا خیال راولپنڈی کی طرف گیا۔ ٹیلی فون کیا تو پتہ چلا کہ جناب زرداری آئے تھے۔ ''وہ کیا لینے آئے تھے؟‘‘ اس بے تکلفی کے ساتھ ناچیز نے پوچھنے کی جسارت کی‘ استادِ گرامی‘ جو گوارا کرتے ہیں۔
ہمیشہ کے رسان سے ارشاد ہوا: تین ہفتے سے ان کا پیغام چلا آتا تھا۔ میں نے سوچا: یہ تو ایک طرح کا زعم اور کبر ہی ہو گا، اگر میں انکار کرتا رہوں۔ ایسے میں کئی دوسرے مواقع پر، جب یہی سوال کیا گیا تو آپ نے کہا: میرا کام یہ ہے کہ محبت اور انس کے ساتھ لوگوں کو اللہ کے دروازے تک لے جانے کی کوشش کروں۔
برسبیل تذکرہ یہ کہ وہ مانیں یا نہ مانیں‘ عمران خان پر پروفیسر صاحب کے اتنے احسانات ہیں کہ شمار نہیں کئے جا سکتے۔ اللہ کو حاضر ناظر جان کر کہتا ہوں کہ کسی دوسرے شخص نے موصوف کی اتنی مدد نہیں کی، جتنی اس بے ریا درویش نے۔ خود کو برگزیدہ سمجھتا ہے۔ دہشت گردی کے باب میں ایک کجی اس کی فکر میں تھی۔ نہایت نرمی کے ساتھ پروفیسر صاحب نے سمجھانے کی کوشش کی۔ وعدہ اس نے کیا کہ نظر ثانی کرے گا‘ مگر بھاگ نکلا۔ 2013ء کی شکست گنوار پن کی حد تک ناقص منصوبہ کا نتیجہ تھی۔ دوستوں نے عارف سے رہنمائی کا مشورہ دیا تو آنجناب کا احساسِ برتری آڑے آیا۔ ان کے ہاں جانے کی بجائے، بنی گالہ آنے کی دعوت دی۔ فقیر نے معذرت کر لی مگر یہ کہا: میرے دروازے آپ کے لیے کھلے ہیں۔ سبھی کے لیے کھلے رہتے ہیں۔
جنرل، جج، دانشور اور لیڈر ہی نہیں، محلے کے وہ غریب بچّے بھی، صبح سویرے جو ان کے باورچی خانے پر ٹوٹ پڑتے۔ پھر ایک دن ان کے لیے ہر روز ایک دیگ پکانے کا فیصلہ کیا گیا۔ کسان، مزدور، دکاندار۔ اپنے ممدوح کے بارے میں عرب شاعر نے کہا: اس کے گھر کی طرف لوگوں نے بہت سے رستے بنا لیے ہیں۔ اس بشاشت سے وہ عطا کرتا ہے، گویا وہ اسے دے رہے ہوں۔ دور دراز سے ایک پشتون دیہاتی آیا۔ کہا: مقروض ہوں۔ دعا لکھ دی۔ بولا: کچھ نقد بھی دیجیے۔ بٹوہ نکالا۔ آدھے پیسے اس کی نذر کر دیئے۔ ہمیشہ کا معمول یہی ہے۔ شاید ہی کبھی کوئی خالی ہاتھ لوٹا ہو۔
ناشکر گزار بھی ہوتے ہیں۔ جنرل پرویز مشرف کے معتوبین میں سے ایک نے، میری موجودگی میں کہا: دعائیں کیا، انحصار تو عمل پہ ہوتا ہے۔ نہایت حلم سے جواب دیا: ملک صاحب جب آپ امتحان میں تھے تو انہی دعائوں نے تسکین بخشی تھی۔ عمران خان انہی میں سے ایک ہے۔ کیسی بے رحمی کے ساتھ ایک دن اس نے کہا تھا: ہاں ہاں، میں نے ان کی بہت دیسی مرغیاں کھائی ہیں۔ ہندو سے مخاطب ہو کر شاعر نے کہا تھا:
تمہیں لے دے کے ساری داستاں سے یاد ہے اتنا
کہ عالمگیر ہندو کش تھا، ظالم تھا، ستمگر تھا
میڈیا کے ایک خاقان میرے ساتھ حاضر ہوئے۔ بہت دن سے سو نہ سکے تھے۔ سر اٹھا کر اسے دیکھا۔ اسی ملائم لہجے مگر صاف الفاظ میں کہا: بچپن میں آپ بیمار رہا کرتے۔ والدہ نے آپ کی موت کی دعا مانگی، اللہ نے بچا لیا۔ دولت اور شہرت سے دل جوئی کی۔ اب آپ دنیا پہ حکومت کرنا چاہتے ہیں، عظمت کے آرزو مند ہیں۔ عظمت دکھ جھیلنے والوں کے لیے ہوتی ہے۔
صوفی کا ہنر یہ ہوتا ہے کہ آدمی کے باطن میں جھانک کر، اس کے اندازِ فکر کے ٹیڑھ کو کھوج لیتا ہے۔ پھر نجات کا قرینہ تجویز کرتا ہے۔ خوش بخت نصیحت یاد رکھتے اور بد قسمت بھول جاتے ہیں۔ زاہد دیکھے اور اہلِ علم بھی۔ پوری زندگی میں مگر کوئی نہ دیکھا، جس کے قول و فعل میں ایسی ہم آہنگی ہو۔ جس نے ایسا قلبِ مطمئنہ پایا ہو۔ جو اس فیاضی سے محبت بانٹا ہے۔ جس نے عمر بھر کسی کا برا نہ چاہا؛ حتیٰ کہ ناراض، برہم اور افواہیں تراشنے والوں کا بھی۔ خواجہ آصف اور میاں محمد نواز شریف نے بھی ایک بار گستاخی کی تھی۔ دونوں معاف کر دیئے جاتے ہیں۔ سب معاف کر دیئے جاتے ہیں۔
کسی کا راز صوفی افشا نہیں کرتا۔ بس اتنی سی بتاتا ہے، جو زیبا ہو۔ چند باتیں ناچیز کو بتائیں اور کہا: باقی بروقت ملاقات۔ صحت اور اندازِ فکر کی اصل خرابی سے زداری صاحب کو آگاہ کیا۔ کہا: کامران وہ ہو گا‘ اللہ کے بندوں سے جو محبت کرے گا۔ رعشے کی دعا تجویز کی اور تسبیح لکھ دی۔
آدمی اپنی افتادِ طبع کا اسیر ہے۔ کوئی کسی کو بدل نہیں سکتا۔ پروفیسر احمد رفیق اختر تو کیا، جنیدؒ و بایزیدؒ بھی نہیں۔ میرا تاثر یہ ہے کہ عارف کے ہاں سے زرداری خالی ہاتھ لوٹے۔ باقی، باقی!