"HRC" (space) message & send to 7575

اٹھو وگرنہ حشر نہ ہو گا پھر کبھی

خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے اور پھول چنتے شاعر ازل سے دل بہلانے میں لگے رہتے ہیں۔ ابد تک بہلاتے رہیں گے۔ زندگی کی بساط پہ یہی ان کا کردار ہے... مگر حکمران؟ حکمران ذرا سی بے توجہی کے متحمل بھی نہیں۔ قوم بھی متحمل نہیں۔
بستر سے خود شاعر بمشکل اٹھا۔ پھر دوسرے شاعر کا رخ کیا کہ اسے بیدار کرے، کسی طرح حرکت میں لائے۔ عارف کی خدمت میں حاضر ہونا تھا۔ اسی لئے تین سو کلو میٹر کا سفر انہوں نے طے کیا تھا۔
سرِ راہ، میں ان کا منتظر تھا۔ قبل از وقت ہی آ پہنچے۔ کالم نویس کے اعصاب پہ کالم سوار تھا۔ مگر مجھے شاعر کی روداد سننا تھی۔ خوں ریز جنگ کے خدشات اپنی جگہ ، نور کے تڑکے، یعنی دس بجے اگر ایک شاعر کو جاگنا پڑے تو اس کے لیے یہ ایک قیامت ہی ہے۔ کون ساعت ہے جو اس قبیلے پر قہر بن کے نہیں ٹوٹتی۔ میرؔ صاحب نے کہا تھا:
مصرعہ کوئی کوئی کبھو موزوں کروں ہوں میں
کس خوش سلیقگی سے جگر خوں کروں ہوں میں
ہمارے ہاں شاعر بہت ہوگزرے۔ برسات کے سبزے کی طرح، ہمیشہ اگتے اور دھومیں مچاتے رہیں گے۔ دہر میں نہ سہی اپنے دلوں میں، ارد گرد، اپنے آس پاس۔ جھلملاتے ستاروں میں گھرے ماہتاب سے اترتا کوئی ضو فشاں خیال نہ سہی، چلمن کی اوٹ سے جھانکتا ، کوئی چہرہ ہی سہی۔ شاید جو چہرہ ہی نہ ہو۔ میرؔ صاحب کی بات ہی دوسری ہے۔ وہ ان میں سے تھے جو دیوار میں تصویر دیکھتے ہیں، گلستان میں جادو۔
گلشن میں آگ لگ رہی تھی رنگِ گل سے میرؔ
بلبل پکاری دیکھ کے صاحب پرے پرے
دونوں شاعروں سے میں ایک میرؔ کے اتنے ہی قائل ہیں، جتنے کہ استادِ شاہ ابراہیم ذوق، دوسرے ان سے بیزار۔ جس طرح کہ میرؔ صاحب گرد و پیش کے گنوار پن سے نالاں رہا کرتے ۔ استاد نے کہا تھا:
نہ ہوا پر نہ ہوا میرؔ کا انداز نصیب
ذوقؔ یاروں نے بہت زور غزل میں مارا
پہلے شاعر کا نام منصور آفاق ہے، دوسرے کا عابد فاروق۔ جب بھی، ان کی ملاقات ہو... اور اکثر نا چیز کی موجودی میں ہوتی ہے... موازنہ انیس ؔ و دبیرؔ کی طرح موازنہ فرازؔ و میرؔ شروع ہو جاتا ہے۔ منصور آفاق کو لاکھ کوئی سمجھائے کہ
آپ بے بہرہ ہے جو معتقدِ میرؔ نہیں
ستون کی طرح، اپنی جگہ ڈٹے رہتے ہیں، اپنے لیڈر عمران خان کی طرح‘ مگر اپنے ہیرو کے برعکس یو ٹرن کبھی نہیں لیتے‘ تعلق ان کا بھی میانوالی سے ہے۔ یادداشت حیرت انگیز پائی ہے۔ ادھر میرؔ کا مصرعہ آپ نے سنایا، ادھر اسی مفہوم کا کوئی شعر فرازؔ کا سنا دیتے ہیں۔ فرازؔ نہیں تو غالبؔ کا، اقبالؔ، سعدیؔ، بیدلؔ یا حافظِ شیراز کا۔ ہجو سے طبیعت کو مستقل نسبت تو نہیں مگر گاہے، گاہے۔ حافظہ عابد فاروق بھی کمال کا ذوق رکھتے ہیں۔ وہ بھی نہلے پہ دہلا پھینکتے ہیں۔ اگر نہیں تو دہلے پہ نہلا ہی سہی۔
ایک اور بزرگ ہیں، افضل عاجزؔ۔ شب ان کا پیغام ملا کہ عارف کی طرف جانا ہو، تو ادب سے سلام عرض کرنا۔ پھر دعا کی درخواست کرنا۔ اس کے بعد تسبیح کی التجا کہ کسی طرح اجالا ہو۔ افضل عاجز وہ صاحب ہیں، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی کو، عطاء اللہ عیسیٰ خیلوی بنانے میں، جن کا حصّہ ہے۔ اساطیری گلوکار کے گائے، بہت سے مقبول گانے ان کی عطا ہیں۔ 
منصور آفاق تبرّے پہ تلے ہوں تو عرب شاعر کی یاد دلاتے ہیں، جس نے اوّل تو اپنی محبوبہ کی ہجو کی۔ اس پر بھی تشفی نہ ہوئی تو خود اپنی۔ شاعری نہ سہی، اس طرح اپنی انفرادیت میں امر ہو گیا۔ 
ایسا میں سیاہ بخت ہوں کہ جس دیار میں قدم رکھّوں
ہرنیاں وہاں سے ہجرت کر جاتی ہیں
ایسا سبز قدم کہ جس بھی نخلستان میں اتروں
پرندے پرواز کو پر تولتے ہیں
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ سے شاعروں کے بارے میں سوال کیا گیا‘ ہمیشہ باقی رہنے والے جن کے قصائد، کعبہ کی دیواروں پہ معلق تھے۔ امرائوالقیس، زہیر بن ابی سُلمیٰ، نابغہ، لبید اور دوسرے۔ فرمایا: شہسواروں نے اپنے گھوڑے مختلف سمتوں میں دوڑائے ہیں۔
تجزیہ کاروں کا معاملہ بھی یہی ہے، ادیبوں اور دانشوروں کا بھی۔ کبھی کبھی سیاستدانوں اور مدبّرین کرام کا بھی۔ ان کے خیالات ایک شاہراہ پہ کبھی نہیں ہوتے ۔
پاکستانی اخبارات میں جو رشحات چھپ رہے ہیں، ان میں اتفاق رائے کے عنوانات بھی ہیں۔ مدتوں کے بعد کچھ جواہر پارے بھی، مگر کنکوے بازی بھی، Kite Flying بھی۔
جنگ کا پہلا نتیجہ فقط سچائی کا قتل نہیں ہوتا۔ حسّیات اگرچہ جاگ اٹھتی ہیں۔ ذہن زیادہ سرعت سے کام کرتا ہے۔ چنگاری بہم ہو تو قوّت خیال پرواز کرنے لگتی ہے۔ المیہ یہ ہوتا ہے کہ غور و فکر کرنے والوں میں بہت سے یک رخے ہو جاتے ہیں۔
بے شک آدمی کی عقل ہی اس کا سب سے بڑا سرمایہ ہے، مگر عقل تنہا کبھی نہیں ہوتی۔ کوئی نہ کوئی کیفیت اس کے ساتھ جڑی ہوتی ہے۔ قہر یا مہر کی، تاریکی یا نور کی۔
کبھی یہ تینوں آدمی، افضل عاجز، منصور آفاق اور عابد فاروق یکجا ہو جائیں تو حسنِ معانی و حسنِ صوت کے چراغ دیر تک جلتے ہیں۔ اگر ان مجلسوں کی روداد کیمرے سے ریکارڈ کر لی جائے تو شاید کسی ٹی وی پر چراغاں سا ہو سکے۔
عدنان عادل کا نکتہ یہ ہے: بھارتی طیاروں کی تباہی اور ہندوستانی آبدوز کی پسپائی پہ شاد ہونا چاہئے، مگر ایسا بھی شاد نہیں۔ پاکستان کو ہراساں کرنے کا ہدف ہندوستان حاصل نہ کر سکا۔ یہ اطمینان کی بات ہے۔ ایک پہلو مگر دوسرا بھی ہے۔ ایف 16 طیاروں کو فضا میں مسلسل محوِ پرواز رکھنا اور سمندروں میں ہمہ وقت نگرانی بہت گراں ہے۔ اربوں نہیں تو کروڑوں روپے، روزانہ اٹھ جاتے ہیں۔ بھارتیوں کو اندازہ ہو چکا کہ پاکستان کی معیشت منہدم سی ہے۔ اس پہ احتساب کا خبط!
دشمن کی حکمت عملی کا ایک پہلو یہ ہے کہ پاکستان اقتصادی حیاتِ نو پا نہ سکے۔ کئی گنا بڑی بھارتی معیشت سات فیصد سالانہ کی شرح سے بڑھ رہی ہے۔ پاکستان کی بمشکل چار فیصد۔ وہ بھی قرضوں کے بل پر۔ آنے والے کل اور آئندہ نسلوں کے لیے بوجھ بڑھتا جا رہا ہے۔ کاروبارِ حکومت میں ایک کے بعد دوسری خرابی کا انکشاف ہوتا ہے۔ کچھ ماضی کا ورثہ، کچھ فیاض الحسن چوہانوں کے کمالات۔ تن ہمہ داغ داغ شد پنبہ کجا کجا نہم۔
مصحفیؔ ہم تو یہ سمجھتے تھے کہ ہو گا کوئی زخم
تیرے دل میں تو بہت کام رفو کا نکلا
فی الحال دشمن کے دانت کھٹے کرنا ہی حالات کا اولین مطالبہ ہے۔ مستقل ترجیح مگر یہ ہونی چاہئے کہ جھیل کے شگاف بند کیے جائیں۔ قوم کو اپنی عادات بدلنا ہوں گی۔ سیلابی آبپاشی کے قدیم طریق پہ عمل پیرا، 90 فیصد پانی ہم ضائع کرتے ہیں۔ بچا سکیں تو بلوچستان، تھر اور چولستان کے صحرا گلزار ہو جائیں۔ بھوکی دنیا کے سارے دستر خوان ہم اناج اور پھلوں سے بھر دیں... اور... اور... اور۔ مباحثہ بہت ہو چکا۔ اب عمل کا آغاز ہونا چاہئے۔ داخلی کش مکش کی حدود مرتب کیے بغیر یہ ممکن نہ ہو گا۔
خیالات کی وادیوں میں بھٹکتے اور پھول چنتے شاعر ازل سے دل بہلانے میں لگے رہتے ہیں۔ ابد تک بہلاتے رہیں گے۔ زندگی کی بساط پہ یہی ان کا کردار ہے... مگر حکمران؟ حکمران ذرا سی بے توجہی کے متحمل بھی نہیں۔ قوم بھی متحمل نہیں۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں