مایوسی کفر ہے۔ اس لئے کفر ہے کہ قوّتِ عمل کو برباد کر دیتی ہے بلکہ عمل کی آرزو ہی کو۔ سمندر پار پاکستانیوں میں ناراضی اور لا تعلقی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ کیسے یہ بات گوارا کی جا سکتی ہے؟
پندرہ ہزار معالجوں کے منتخب سربراہ‘ پاکستان امریکن ڈاکٹرز ایسوسی ایشن کے سربراہ ڈاکٹر نسیم شیخانی نے وزیر اعظم عمران خان کے نام ایک خط لکھّا ہے: پی کے ایل آئی، ملک کے سب سے جدید ہسپتال کے ساتھ جو روّیہ روا رکھا گیا، وہ افسوسناک ہے... کہا جاتا ہے یہی عالم رہا تو یہ افسردگی اور بے چینی، پورے امریکہ، ممکن ہے کہ تمام مغرب میں پھیل جائے۔ آخر کار سمندر پار پاکستانی ہماری اہم ترین متاع ہیں۔ اٹھارہ بلین ڈالر ہر سال پاکستان بھجواتے ہیں، ہماری معاشی بقا اور استواری کا، جس پہ انحصار ہے۔
پی کے ایل آئی کے خدا ترس، صاحبِ علم اور ایثار کیش سربراہ ڈاکٹر سعید اختر کو عمران خان ذاتی طور پہ جانتے ہیں۔ ڈاکٹر یاسمین راشد اور ڈاکٹر ہمایوں کے ہمراہ، پختون خوا کے محکمہ صحت کی ترجیحات مرتب کرنے میں، ڈاکٹر صاحب کا عمل دخل تھا۔ تحریکِ انصاف جس کا پھل کھا رہی ہے۔
ہمیشہ پُر امید رہنے والے ڈاکٹر سعید اختر ان دنوں ملال کا شکار ہیں۔ اپنے وطن سے بے ریا محبت کے حامل، زبانِ حال سے وہ یہ کہہ رہے ہیں ؎
ہم تو مجبورِ وفا ہیں مگر اے جان جہاں
اپنے عشّاق سے ایسے بھی کوئی کرتا ہے
کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہو گا
کتنے آنسو تیرے صحرائوں کو گل زار کریں
چیف جسٹس ثاقب نثار، ڈاکٹر سعید اختر پہ برہم تھے۔ از خود نوٹس لے کر، پی کے ایل آئی کا بورڈ توڑ ڈالا۔ عہدے سے انہیں الگ کر دیا، بیرون ملک جانے پہ پابندی عائد کر دی۔ کہا جاتا ہے کہ اپنے بھائی کے کہنے پر، جو خود بھی ایک ممتاز معالج ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ وہ حسد کا شکار تھے کہ انہی جیسے کچھ لوگوں کو ایسی پذیرائی کیوں ملی۔ اربوں روپے حکومت پنجاب نے ان کے منصوبے پہ صرف کر دیئے۔ بڑی بڑی تنخواہیں دیں۔ سب سے بڑھ کر یہ کہ وہ آزادیٔ عمل بخشی، عام طور پر جس کا تصوّر بھی نہیں کیا جاتا۔ نہیں بھائی، پختون خوا میں اسی آزادی نے کرشمہ کر دکھایا تھا، پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ!
جہاں تک منصوبے کا تعلق ہے، امریکہ سے آنے والے ان نیک نام اور بلند ہمت ڈاکٹروں نے کسی پر خود کو مسلّط نہ کیا تھا۔ معالجوں کی پاک امریکہ برادری میں ممتاز، ڈاکٹر سعید اختر نے تجویز پیش کرنے پر اکتفا کیا تھا۔ تالی بجوانے کے خواہش مند، شہباز شریف نے اس شرط پر یہ تجویز قبول کر لی کہ تین سال تک، حکومتِ پنجاب مالی سرپرستی کرے گی۔ اس کے بعد عوامی عطّیات پہ بسر ہو گی۔ شوکت خانم ہسپتال جیسا ایک اور ادارہ وجود پائے گا۔
دیے سے دیا جلتا ہے۔ برائی کی طرح نیکی بھی متعدی ہوتی ہے۔ انسانی نفسیات یہ ہے کہ لوگ باہم مقابلے میں رہتے ہیں۔ کوئی ایک شخص یا گروہ کوئی معرکہ سر کرتا اور تحسین پاتا ہے۔ دوسروں میں اس کی تمنّا جاگ اٹھتی ہے۔ پی کے ایل آئی کا تجربہ کامیاب ہو گیا تو ایسے ہی دوسرے ادارے اس زرخیز مٹی سے پھوٹ سکتے ہیں۔
آٹھ سو برس ہوتے ہیں، برطانیہ میں آکسفورڈ یونیورسٹی قائم ہوئی۔ یہ وہ عہد تھا کہ سائنس دان، معلّم اور طبیب ابنِ سینا کا نام مغرب میں گونج رہا تھا، امام غزالیؒ کا بھی۔ ابتدائی طور پر غزالیؒ کی تعلیمات کا درس دیا گیا۔ غزالی کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ معاشروں کے فروغ کی بنیاد علم پہ ہوتی ہے، بشرطیکہ خلوص اور درد کار فرما ہو۔ لطیفہ یہ ہے کہ پڑھایا تو غزالی جاتا مگر کانٹ کے نام سے۔ ترجمے کی اس نے ریاضت کی، مگر غزالی کا حوالہ دینے کی زحمت نہ کی۔ سرقے کا راز مدّتوں بعد کھلا۔
پرسوں پرلے روز ڈاکٹر مہاتیر محمد نے کہا کہ ملائیشیا نے جاپان اور کوریا سے سیکھا۔ جاپان اور کوریا نے کس سے؟ کوریا نے پاکستان یعنی، فیلڈ مارشل ایوب خان کی صنعت کاری سے۔ جاپان نے مغرب سے۔ 1980ء کے عشرے میں جنرل محمد ضیاء الحق جاپان کے دورے پر گئے۔ ان کے اکابرین سے پوچھا: آپ کی ترقی کا راز کیا ہے؟ جواب یہ تھا: ہمارے وسائل محدود تھے، ہم نے زیادہ تر تعلیم میں جھونک دیئے۔ صبر کا پھل میٹھا نکلا اور بہت میٹھا۔ چالیس برس سے جاپان دنیا کی عظیم ترین معیشتوں میں سے ایک ہے۔
مغربی مصنوعات کی نقالی سے آغاز کیا۔ بتدریج ایجاد کی طرف مائل ہوئے۔ اعلیٰ تعلیم یافتہ انجینئر اور سائنس دان ان کی جامعات میں جنم لیے یا مغرب میں صیقل ہوئے۔ اب وہ سرخیل اقوام میں ہیں۔
چین کی کہانی بھی یہی ہے۔ پچھلے برس بیجنگ اور شنگھائی جانے کا موقعہ ملا۔ درجن بھر ملاقاتوں کا خلاصہ یہ ہے کہ ماضی کی پالیسیاں ترک کر کے ڈنگ سیائو پنگ نے چار صنعتی علاقے قائم کیے۔ عصرِ رواں کے تقاضوں کا شعور رکھنے والے، سمندر پار چینیوں نے چار برس کے لیے ٹیکس میں چھوٹ مانگی۔ پانچ برس کی رعایت دی گئی۔ باقی تاریخ ہے۔
ڈاکٹر سعید اختر نے دنیا کی بہترین یونیورسٹیوں میں تعلیم پائی۔ ڈاکٹر سعید باجوہ کی طرح، جو ان کے ذاتی دوست ہیں۔ امریکہ کے طبّی حلقوں میں ان کا بڑا نام ہے۔ ایک کروڑ ماہانہ کے لگ بھگ تنخواہ پاتے۔ اپنے ذاتی جہاز پہ سفر کیا کرتے۔
دوسری جامعات کے علاوہ آکسفورڈ یونیورسٹی کی تاریخ کا انہوں نے مطالعہ کیا‘ جس کی راہ داریوں میں نشاۃ ثانیہ کی تحریک اٹھی۔ جب عالم اسلام نے زوال اور مغرب نے عروج کا آغاز کیا۔ وطن کی محبت معالج کی رگ رگ میں تھی۔ پاکستان تشریف لاتے تو الشفا ہسپتال اسلام آباد میں مریضوں کے مفت آپریشن کیا کرتے۔ صاحب استقلال ڈاکٹر ظہیر احمد مرحوم نے جو قائم کیا تھا۔ دو چار نہیں، سینکڑوں اور ہزاروں نے ان کے دستِ شفا سے فیض پایا۔ ایک ایسا ادارہ قائم کرنے کا سپنا دیکھتے رہے، جو محض معالجے اور تدریس نہیں، ریسرچ میں بھی نئے سنگِ میل قائم کرے۔ یہاں سے وہ لوگ اٹھیں، جو ملک کا مستقبل بدل ڈالیں۔ چنگاری بھڑکے اور شعلہ ہو جائے۔ امریکہ میں حاصل شاندار مراعات اور بے مثال معاشی امکانات سے دستبردار ہو کر، پاکستان پہنچے اور آغازِ کار کیا۔
شہباز شریف سے ان کی ملاقات اتفاقاً ہوئی۔ دوسروں کی طرح ان سے اپنے خواب کی روداد کہی۔ وہ مان گئے، حالانکہ آسانی سے ماننے والے نہیں۔ اس منفرد ادارے کی بنیاد رکھی گئی۔ 23 ضلعی ہسپتالوں میں اس کے مراکز قائم ہیں۔ لاہور میں موجود بہترین ڈاکٹر‘ ٹی وی سکرین پر راجن پور اور ڈیرہ غازی خان کے مریضوں کا معائنہ کرتے ہیں۔ یرقان کے علاج کی ایک صوبہ گیر تحریک شروع کی۔ گردے اور جگر کی پیوند کاری کا آغاز کیا۔ ان مریضوں کا مفت علاج ہونے لگا۔ جن میں سے بعض کو بھارت جانا پڑتا۔
پھر احتساب کے جویا مگر جذبات کے مارے چیف جسٹس آڑے آ گئے۔ ثاقب نثار چلے گئے تو نئے چیف جسٹس نے ایک بڑا بینچ تشکیل دیا۔ پچھلا فیصلہ منسوخ کر دیا۔ ڈاکٹر صاحب کو بحال کر دیا، پرانے بورڈ کو بھی۔ وہی تو ماہرین ہیں، وہی تو اس پیچیدہ نظام کو چلانے کے اہل ہیں۔ مشکل اب اور آن پڑی ہے۔ سپریم کورٹ کے فیصلے کو صمیمِ قلب سے قبول کرنے کی بجائے، حکومت پنجاب نئی قانون سازی پر تلی ہے۔ عدالتِ عظمیٰ کے فیصلے پر نوٹی فکیشن جاری کرنے کی بجائے، معاملہ معلق کر رکھّا ہے۔ قانونی گنجائش کے بل پر، اقتدار کی تمکنت قائم کرنے کی ضد ہے ۔ اسی کو راج ہٹ کہا جاتا ہے۔
ذاتی توجہ وزیر اعظم کو دینی چاہئے۔ ڈاکٹر یاسمین راشد اور ڈاکٹر سعید اختر کے علاوہ ممتاز ماہرین کو بلانا چاہئے۔ خود ان سے بات کرنی چاہئے۔ کوئی سقم ہے تو دور کرنا چاہئے۔ معاملہ عثمان بزدار کی لائق صوبائی حکومت پر نہیں چھوڑ دینا چاہئے۔
مایوسی کفر ہے۔ اس لئے کفر ہے کہ قوّتِ عمل کو برباد کر دیتی ہے بلکہ عمل کی آرزو ہی کو۔ سمندر پار پاکستانیوں میں ناراضی اور لا تعلقی پیدا ہونے کا خطرہ ہے۔ کیسے یہ بات گوارا کی جا سکتی ہے؟