محبوب آپ کے قدموں میں۔ عمر بہت کم تھی جب سے یہ اشتہار نظر آ رہا ہے۔ اخباروں میں رنگین صفحے پر، دیواروں پر بلیک اینڈ وائٹ میں، رکشے کے پیچھے بینر کی شکل میں، جنتریوں کے اندر، رسالوں کے فلرز میں، فوٹو کاپیوں کی صورت، سگنل پر رکیں تو گاڑی میں پرچہ پھینک دیا جائے گا، گھر لیٹے ہوں تو کیبل پر نظر آئے گا، فیس بک کھولیں تو بھی کہیں نہ کہیں گارنٹی کے ساتھ یہ کام کرنے کی سہولت موجود ہو گی۔ یہ ہمارے عہد کی دوسری مشہور ٹیگ لائن ہے۔ پہلی تو بلا شک و شبہ وہی ہے، لمحوں کی غلطیاں، صدیوں کی سزا۔
محبوب کی بات کی جائے تو جسے چاہا گیا اسے قدموں میں لا کر کیا خوشی نصیب ہو گی یہ سمجھ سے بالاتر ہے۔ چاہنا فرد کی مرضی ہے لیکن چاہے جانے کا اختیار وہ زبردستی حاصل نہیں کر سکتا۔ مثال کے طور پر مدھو بالا کئی لوگوں کو پسند تھیں لیکن اگر ہر شخص یہ چاہے کہ وہ کشور کمار ہو جائے تو یہ ممکن نہیں ہے۔ گلاب کا پھول، اچھا بھلا کھلا ہوا روز صبح نظر آتا ہے، لیکن اسے صرف اس لیے توڑ لیا جائے کہ وہ پسند ہے، تو یہ کیا بات ہوئی؟ وہ اگر وہیں لگا رہے تو شاید دو تین دن اور نکال لے گا، توڑئیے گا تو شام تک بھی چلنا مشکل ہے کجا یہ کہ آپ اس سے تقاضا کریں کہ اب تم مجھے خوشبو بھی وہی دو جو وہاں پودے پر لگے دے رہے تھے۔
فرض کر لیجیے محبوب قدموں میں آ گیا۔ لیکن وہ آیا تعویز گنڈوں کے نتیجے میں، یا کوئی ایسا پروگرام آپ نے ترتیب دیا جس کے تحت محبوب کو شہ مات ہوئی اور کچے دھاگے سے بندھی سرکار چلی آئی۔ اب محبوب آپ کے سامنے ہے۔ جو مرضی کر لیجیے لیکن کسی دن کیا یہ خیال نہیں آئے گا کہ یہ سودا زبردستی کا سودا تھا؟ اچھا بھلا زندہ انسان کہیں گھومتا پھرتا آزاد پرندہ تھا، آپ گھر لے آئے، قید کر دیا، پر کاٹ دئیے، یہ کیسی محبت ہے جس کی تسکین زبردستی میں ہے۔
غور کریں تو اس اشتہار کی جڑیں بہت دور ہماری قبائلی نفسیات میں جاتی دکھائی دیتی ہیں۔ بقول غالب جس پر مرنا ہے اسے مار کر رکھنا ہے۔ ملکیت کا احساس کسی جگہ پر اس اشتہار کے اندر اپنی جگہ بناتا نظر آتا ہے۔ یہ ملک ہمیں فتح کرنا ہے، یلغار ہو۔ یہ جانور ہمیں حاصل کرنا ہے، ٹوٹ پڑو۔ یہ زمین زرخیز ہے، ہمارے قبیلے کا رزق یہیں لکھا ہے، پچھلی فصلیں جلا دو۔ اس علاقے کا پانی میٹھا ہے، جو بستے ہیں انہیں کاٹ دو۔ اس جانور نے بچے بہت خوب صورت دئیے ہیں، اٹھا لو۔ امریکہ گوروں کی سرزمین ہے، مقامیوں کو ریڈ انڈین قرار دے دو۔ تو یہ ملکیت کا فتور ہے کہ محبوب مرد ہے یا عورت، اسے بٹھا لیں قدموں میں اور چاہیں کہ اب وہ آپ سے پیار بھری باتیں بھی کرے۔
محبوب کو قدموں میں دیکھنے کا جذبہ ہی زبردستی شادیاں کرواتا ہے، یہی جذبہ بیٹیاں جلواتا ہے، یہی جذبہ عورتوں کو تیزاب کا شکار کرتا ہے، اسی کی آنچ سے چولہے پھٹتے ہیں، اسی کے چکر میں خواجہ سرا پھینٹیاں کھاتے ہیں، اسی کی آگ سے زنا بالجبر کیے جاتے ہیں، اسی کی وجہ سے زن، زر، زمین والا محاورہ بنتا ہے گویا تینوں جیب میں رکھنے والی اشیا ہیں اور ملکیت کے پیچھے ہی فساد ہے۔
قبائلی نفسیات کا یہی جذبہ کہیں کہیں سیاست میں بھی کارفرما نظر آتا ہے۔ سیاست میں ملکیت کا تصور کہیں نہیں ہوتا، اسی طرح زبردستی کرنے کا بھی کوئی کانسیپٹ یہاں جائز نہیں ہے۔ ایک شخص کہیں دور دراز سے آئے اور تصور کر لے کہ انتخابات کے بعد جو بھی سیٹ اپ بنے گا اس میں فلاں عہدہ اس کی ملکیت ہو گا تو یہ ممکن نہیں۔ صرف تصور کر لینے سے تمام مراحل طے ہو جاتے تو پرویز مشرف آج ایک جمہوری صدر ہوتے اور مرحوم ضیا الحق نے انہیں بدست خود منتخب کیا ہوتا۔ جب ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا تو پھر ملکیت کے لیے وہی کوششیں کی جاتی ہیں جسے غالب کی زبان میں "مار کر رکھنا" کہتے ہیں۔ یعنی
جس چیز کی خواہش کی تو یا تو اسے کسی بھی طرح حاصل کر لیا، نہ ملی تو اسے اتنا بدنام کیا کہ کوئی دوسرا بھی اس کے قریب جائے تو بدنام ہو جائے۔
اخبارات کو غور سے پڑھیے، سینتالیس سے لے کر آج تک بہت سے ایسے لیڈر نظر آئیں گے جن کا سیاسی شعور پہلے کچھ اور تھا، وقت کے ساتھ ساتھ میچور ہوتے گئے تو ان کے بیانات اور ان کی پالیسی تبدیل ہوتی گئی۔ یہی سیاست ہے۔ 'جو پتھر پہ پانی پڑے متصل، تو بے شبہ گھس جائے پتھر کی سل‘۔ جب پتھر کی سل گھس سکتی ہے تو انسان کیا چیز ہے، وقت سے سبق لیتا ہے اور اپنی سٹریٹیجیز بدلتا رہتا ہے۔ جو آدمی عین اسی مقام پر کھڑا ہو جہاں بیس برس پہلے کھڑا تھا اور ایک انچ بھی دائیں بائیں ہٹنے کو تیار نہ ہو، اس نے حالات سے کیا سبق لیا؟ یہی سب کچھ ووٹ دینے والوں کو بھی نظر آتا ہے۔ اب نتائج جب آنے لگے، مرضی کی سیٹ تک رسائی ممکن نہ ہوئی تو پھر اتنا شور مچایا، اتنا واویلا کیا کہ پورا تالاب بدنام ہو گیا۔ سسٹم کا بیڑہ غرق ہو گیا۔ پروپیگنڈے کی ایک اپنی طاقت ہوتی ہے، اگر صبح شام لگاتار ایک انسان ٹی وی پر یہ دیکھے گا کہ سیاسی حکمران کرپٹ ہیں تو دس برس بعد وہ سمجھے گا کہ کچھ تو ہو گا یار جس کی وجہ سے اتنا لانجھا ہے، ایویں کیسے اتنے کیس ہو سکتے ہیں... تاریخ اٹھائیے، اکثر چیزیں ایویں ہی ہوتی ہیں۔
جب دروازوں سے آنے کی جگہ نہ ہو تو کھڑکیاں اور روشن دان استعمال کیے جاتے ہیں۔ ان تک رسائی کے لیے جو سیڑھی بہت آرام سے مل جاتی ہے وہ "کرپشن کا الزام" ہے۔ بدقسمتی سے یہ حربہ پہلے دن سے آج تک اس قدر کامیاب رہا کہ کسی بھی نئی چیز کی طرف دراندازوں کی توجہ نہیں گئی۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ چھٹی جماعت کا کوئی بچہ بھی بستہ بغل میں داب کر کہہ سکتا ہے کہ زرداری کرپٹ ہے یا شریف برادران نے کرپشن کی ہے۔ جب اسے سمجھایا جائے گا کہ بیٹے شک کا اظہار کرنا ایک بالکل الگ چیز ہے اور شہادت کی بنیاد پر ایسا دعویٰ کرنا الگ بات ہے تو وہ سر کھجا کے گیند بلا اٹھائے گا اور کھیل کے میدان میں نکل جائے گا۔ مسئلہ یہ ہے کہ سمجھانے والے حد ادب کے اندر رہتے ہوئے بات کرنے پر مجبور ہیں اور حربہ کار نئی سے نئی بلندیاں چھونے کا ریکارڈ قائم کرنے پر تلے ہوتے ہیں۔
موجودہ حالات پر ایک مختصر لیکن بلیغ تبصرہ بھائی عدنان کاکڑ کے ہاں دیکھنے میں آیا، "لگتے تو چور ہیں لیکن ثابت نہیں کر سکتے۔" ہر دو برس بعد کوشش ہوتی ہے کہ منتخب عہدیداروں کو بدعنوانی، عہدے کا غلط استعمال، منی لانڈرنگ یا مس کنڈکٹ کچھ بھی ثابت کر دیا جائے۔ نہیں ہو پاتا تو بھی پروپیگنڈا مشینری چالو رہتی ہے؟ مسئلہ شاید یہی ہے کہ ہم محبوب کو قدموں میں دیکھنا چاہتے ہیں اور اس کے لیے ایک آئیڈیل تراش چکے ہیں جسے "بے لوث قیادت" یا "مخلص رہنما" کے نام سے یاد کیا جاتا ہے۔ جنہیں بدقسمتی سے عوام سلیکٹ کر لے وہ اس منصب سے گھسیٹ کر نیچے اتار لیا جاتا ہے اور بعض اوقات ضمانتیں ضبط کروانے والے بھی مخلص اور بے لوث قرار پاتے ہیں۔
طے یہ کرنا ہو گا کہ جو سیاسی میدان سے آتے ہیں انہیں راستہ دینا ہے یا جو کھڑکیوں اور روشن دانوں سے اینٹری مارنا چاہیں ان کی ہاں میں ہاں ملانی ہے۔ احتساب اور نعرے بازی میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ تاریخ گواہ ہے، نعرے بازیوں سے ہی سیاست کو اس حال تک پہنچایا گیا کہ یہاں ہر بچہ ڈاکٹر یا انجینئر بننا چاہتا ہے، سیاسی میدان کا رخ کرنا کسی کے فیوچر پلان میں شامل نہیں ہوتا۔
محبوب کو قدموں میں دیکھنے کی خواہش برحق ہے لیکن تعویز گنڈوں کی بجائے کوشش پر یقین کیا جائے تو جلد یا بدیر کامیابی مل ہی جاتی ہے۔ دل ناامید تو نہیں، ناکام ہی تو ہے!