عبدالحفیظ پیرزادہ… جو اپنا آخری مقدمہ ہار گئے

عبدالحفیظ پیرزادہ (مرحوم)پاکستان کے سیاسی رہنمائوں کے لیے ایک ایسی مثال ہیںجس پر اگر وہ عمل کریں تو شاید لوگوں کی سیاست سے بے رخی کم ہوجائے۔انھوں نے اپنے قائد ذوالفقار علی بھٹوکے ہمراہ جس سیاسی جماعت کی بنیاد رکھی،آخری سانس تک اسی جماعت سے وابستہ رہے۔ سندھ کے وزیر اعلیٰ عبد الستار پیرزادہ کے صاحبزادے تھے۔ وکا لت کا آغاز ذوالفقار علی بھٹو کے چیمبر سے کیا۔میں نے ان کو سیاست میں پاکستان پیپلز پارٹی کے نوجوانوں کو منظم کرنے میں بہت سرگرمی سے مصروف دیکھا۔میری ان سے پہلی ملاقات پیپلز پارٹی کے کنونشن منعقدہ آرمی گرائونڈ میں ہوئی اور اُن ملاقاتوںکا سلسلہ شروع ہواجو سالوں پر محیط ہے۔ذوالفقار علی بھٹو کا ''سوہنا منڈا‘‘ ذہین، پڑھالکھا، تیز اور تیکھا شخص تھا۔ جب پاکستان میںآئین سازی کا عمل جاری تھا وہ میاں محمود علی قصوری کی موجودگی اور غیر موجودگی میں اس کے ڈھانچے کوقابلِ عمل بنانے کے لیے دن رات کا م کرتے رہے۔ میاں محمود علی قصوری بوجوہ دستور ساز کمیٹی سے مستعفی ہوگئے تھے لیکن حفیظ پیرزادہ نے اپنے کام کو جاری رکھا۔
ایک ملاقات میں میں نے ان سے پوچھا کہ یہ کس حد تک درست ہے کہ آئین بننے کے فوراََ بعد خیبر پختونخوا، آزاد جموں وکشمیر اور بلوچستان میں مفتی محمود ، عطااﷲمینگل اور سردار قیوم کی حکو مت ختم کرنے کی ذمہ داری آپ پر عائد ہوتی ہے؟ اور یہ کس حد تک درست ہے کہ بلوچستان کی فوج کشی میں بھی آپ کی مشاورت شامل تھی۔ انھوں نے مجھے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ''یہ بالکل غلط ہے۔ میرے بلوچ سرداروں اور پشتون سرداروں سے ذاتی تعلقات رہے اور اگر میں نے کبھی ان کے خلاف ایسا قدم اٹھایا ہوتا توآج تک یہ دوستیاں نہ چلتیں۔ میں نے ان سب کے ساتھ مل کر unanimous constitution بنایا تھا۔ البتہ میں یہ مانتا ہوں کہ کچھ بلوچ اور پشتون سرداروں کا ذوالفقار علی بھٹو کے ساتھ personality clashضرور تھا۔ جہاں تک بلوچستان میں فوج کشی کی بات کی جاتی ہے‘ حقیقت میں مری قبائل نے وزیر سکائوٹ پر حملہ کیا تھا اورفوج کشی کی وجہ پیدا ہوئی مگر میں سمجھتا ہوں کہ یہ معاملہ اتنا بڑا نہ تھا کہ فوجی کارروائی کی جاتی‘‘۔ 
ملاقاتوں کے اس سلسلے میں ہمیشہ ایک سوال مجھے مجبور کرتا رہا کہ میں ان سے پوچھوں کہ پیپلز پارٹی نے الیکشن وقت سے پہلے کیوںکروائے؟ انھوں نے کہا کہ اس کی وجہ رفیع رضا صاحب کی وہ مشاورت تھی جس میں انھوں نے ذوالفقار علی بھٹو کو یہ مشورہ دیا کہ حکومت کی اقتصادی پالیسیوں کی بنا پر بے روزگاری میں اضافہ ہورہا ہے۔ اس لیے الیکشن وقت سے پہلے کروادیے جائیں تو بہتر ہوگا۔رفیع رضا نے ذوالفقار علی بھٹو کو یہ بتایا کہ امریکی یہ فیصلہ کر چکے ہیں کہ پیپلز پارٹی اگر جیت بھی گئی تو street agitation کے ذریعے ان کو برطرف کروادیا جائے گا۔ 
میں نے ایک ملاقات میں ان سے پوچھا کہ کیا یہ حقیقت ہے کہ پی این اے کی تحریک کے دوران فوج کے اندر ڈسپلن ختم ہو گیا تھا؟ انھوں نے کہا کہ ان حالات میں جنرل ارباب جہانزیب نے ایک میٹنگ میں یہ کہا کہ مجھے پتہ نہیں کہ کب کوئی لیفٹیننٹ میرے دفتر میں آکر مجھے گولی مار دے۔ تو اس موقع پر 
جنرل ٹکا نے ان کو روکتے ہوئے کہا ''ارباب‘ یہ پاکستان کی فوج ہے، چاکلیٹ نہیں ، کوئی اٹھا کر اس کو کھا جائے‘‘۔ حفیظ پیرزادہ اس بات کو تسلیم کرتے تھے کہ پی این اے کی تحریک کے دوران ذوا لفقار علی بھٹو کوبیرون ِملک دورے پر نہیں جانا چاہیے تھا۔ حفیظ پیرزادہ نے میرے ساتھ ایک انٹرویو میں اس بات کو تسلیم کیا تھا کہ پی این اے کی مذاکراتی کمیٹی کی تمام گفتگو فوج ٹیپ کر رہی تھی۔ اور 25 جون کو جو ڈائیلاگ پی این اے اور پاکستان پیپلز پارٹی کے درمیان چل رہا تھا‘ اس کی بنیاد پر ضیاالحق نے یہ فیصلہ کر لیا تھاکہ ملک میں مارشل لاء لگا دینا ہی ان کے لیے ایک راستہ رہ گیا ہے۔ اور یہ کہنا بالکل غلط ہے کہ پی این اے کی تحریک کے دوران ذوالفقار علی بھٹو نے بھی یہ سوچا ہوکہ ضیا الحق کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا جائے۔
حفیظ پیرزادہ نے ذوالفقار علی بھٹو کے مقدمے کے حوالے سے ہمیشہ یہ کہا کہ میں رحم کی اپیل دائر کرنے کے حق میں تھااور اس سلسلے میں میں نے جنرل چشتی اور جنرل کے ایم عارف سے ملا قا تیں بھی کیں۔ البتہ مجھ سے ضیاالحق نے دو دفعہ کہا کہ ذوالفقار علی بھٹو رحم کی درخواست آپ کے ذریعے کیوں نہیں بھجوا دیتے اوربیگم نصرت بھٹو رحم کی اپیل کیوں نہیں کرتیں۔میں نے ان کو جواب دیا کہ وہ اپیل نہیں کریں گے‘ وہ خود دار اور عظیم شخص ہیں اور اپنے آپ کو قاتل تصور نہیں کرتے۔ عبدالحفیظ کا ہمیشہ کہنا تھا کہ موجو دہ آئین تما م مسائل کا حل اپنے اند ر رکھتا ہے اور پاکستان کو کسی اور آئین کی کوئی ضرورت نہیں۔ مجھے افسوس ہے کہ عبدالحفیظ نے اپنے تمام مشاہدات کو تحریر کی شکل نہ دی۔ کاش وہ ایسا کرتے کیونکہ یہ وہ ان قائدین میںسے تھے جن کی یادداشتیں پاکستان کی نوجوان نسل کے لیے ریفرنس بک کے طور پر استعمال ہو سکتی تھیں۔ 
ذوالفقار علی بھٹو نے 10 اپریل 1977ء کو دستور منظور ہونے کے بعد تقریر کرتے ہوئے کہا: 
'' میری خواہش ہے کہ میں حفیظ پیرزادہ کو 'ہلالِ پاکستان‘ دوں، لیکن میری مجبوری ہے کہ یہ کام 14 اگست کے بعد ہو سکتا ہے جب دستور نافذاالعمل ہو جائے گا‘‘۔ ( ان دنوں تمغے تقسیم کرنے کی روایت عام نہ تھی اس لیے اس پر عمل نہ ہو سکا۔)
مجھے افسوس رہے گا کہ جانے انجانے میں جوڈیشل کمیشن کی رپورٹ کے اجراء پر میں نے ایک ٹی وی پروگرام میں کیوں کہہ دیا کہ ''حفیظ پیر زادہ اپنی زندگی کا آخری کیس ہا ر گئے‘‘۔ 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں