ویتنام کی جنگ میں ایسوسی ایٹڈ پریس کے فوٹو جرنلسٹ نک یوٹی کی تصویر نے‘ جس میں ایک بچی بمباری سے بچنے کے لئے برہنہ بھاگ رہی تھی‘ دنیا بھر کے ذی شعور انسانوں کو جھنجوڑ کر رکھ دیا تھا۔ انسانیت لرز کر رہ گئی تھی۔ یہ بچی جس کا نام کم پھُک ہے، اب کینیڈا میں رہائش پذیر ہے اور انسانی حقوق کے لئے کام کرتی ہے، ایک مندر میں پناہ لئے ہوئے تھی کہ بمباری سے بچنے کے لئے وہ دیگر افراد کے ساتھ باہر بھاگی۔ یہ نیپام بم تھے جو جسم کو جھلسا دیتے تھے۔ اس کے کپڑوں میں آ گ لگی تو اس نے انہیں اپنے جسم سے علیحدہ کر دیا۔ عین اُس وقت وہاں موجود فوٹوگرافر نے دنیا کو ہلا دینے والی یہ تصویرکیمرے کی آنکھ میں قید کر لی۔ یہ انسانیت کے منہ پر طمانچہ تھا۔ میں اس وقت نوجوان تھا اور اسے دیکھ کر میرا دل چاہتا تھا کہ بم برسانے والوں کو تہس نہس کر دوں۔
اس تصویر نے ہزاروں میل دور پیرس میں ہونے والی امن کانفرنس میں ہوچی منہ کا پلڑا بھاری کر دیا اور بہت جلد اس تصویر سے امریکی اسٹیبلشمنٹ نے کچھ سیکھ لیا۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بعد ازاں امریکہ کا افغانستان اور عراق میں رویہ ثابت کرتا ہے کہ خود کو انسانی حقوق کا علمبردارکہنے والا ملک کسی بھی اندوہناک واقعے سے سبق حاصل کرنے کا عادی نہیں ہے۔
شام میں ہونے والی مسلمانوں کی درمیان چپقلش نے خانہ
جنگی کی شکل اختیار کر لی جس نے اس ملک کی سالمیت اور خود مختاری کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ ایک رب اور ایک نبیﷺ کو ماننے والوں نے ایک دوسرے کو ذبح کیا، علاقوں پر قبضہ حاصل کرنے کے لئے انسانوں پر کیمیائی ہتھیار استعمال کیے اور پھر اسی خانہ جنگی کی آڑ میں یہ جنگ شام کی حدود سے باہر نکل گئی۔ جہادی گروپوں نے ہمسایہ ملک میں دولت اسلامی عراق و شام (داعش) کا اعلان کر دیا اور ابو بکر بغدادی نے خود کو مسلمانوں کا خلیفہ قرار دے دیا۔ یہ گروہ عراق میں بد ترین تباہی مچاتا ہوا وہاں کی تاریخی عمارات کو تباہ کرتا ہوا، عورتوں کو گھروں میں قید کرتے ہوئے آگے کی جانب بڑھ رہا تھا اور عراق کا ایک بہت بڑا حصہ اس کے قابو میں آ گیا تھا۔ یہ وہ لمحہ ہے جب اقوام متحدہ اور اس کے کچھ اراکین کو یہ خطرہ لاحق ہوگیا کہ اس جنگ میں شریک جنگجو مسلمانوں کے گروہ القاعدہ سے بھی زیادہ طاقتور ہو سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ امریکہ نے شروع میں بشار الاسد کی مخالفت میں اس کی حکومت کے خلاف لڑنے والوں کو ہتھیار بھی دیئے تھے اور مالی امداد بھی۔ مذاکرات کا ایک سلسلہ شروع ہوا لیکن اب کھیل کے قواعد بدل گئے تھے۔ خانہ جنگی
لاکھوں گھروں کو کھنڈر بنا چکی تھی، لوٹ مار کا دور شروع تھا، خوراک ، پانی اور ادویات ختم ہو گئیں۔ لوگوں کو وسیع پیمانے پر ملک چھوڑ کر دیگر ممالک میں پناہ لینے کی پر مجبورکر دیا گیا‘ انہی میں سے ایک خاندان یونان جانے کے لئے ایک کشتی پر سوار تھا کہ وہ کشتی ترکی کے ساحل کے قریب ڈوب گئی۔ پانی کی لہروں نے ایک تین سالہ بچے''ایلان کردی‘‘کی لاش ترکی کے ساحل پر لا پھینکی۔ اس لاش کی تصویر ویتنام کی جنگ کی اس برہنہ بچی کی تصویرکی طرح انسانیت کو جھنجوڑنے میں کامیاب ہو گئی۔ ترکی کے ساحل پر اوندھے منہ پڑی اس لاش نے حساس انسانوں کے ذہنوں میں یہ سوال اٹھایا کہ'' جب بچے سو رہے ہوتے ہیں تو آپ کو خاموش رہنا چاہئے، لیکن اس وقت نہیں جب وہ مر جائیں‘‘۔۔۔۔۔ اور یورپ خاموش نہیں رہا۔ پناہ گزینوں کا قافلہ یورپ کی سڑکوں اور دیہاتوں پر پیدل چلنا شروع ہوگیا۔ وہ پناہ کی تلاش میں تھا۔ ان کے جوتوں کے تلوے پھٹ گئے تھے۔ کھانے پینے کی اشیا نہ تھیں، معصوم بچوں کو انہوں نے کندھوں پر اٹھا رکھا تھا اور پھر تاریخ نے دیکھا کہ مسلم اُمہ کے چیمپیئنزکا ضمیر تو نہ جاگا، جن کے شاہ 222 کمروں کا وہ ہوٹل بک کروا کر شہ خرچیاں کر رہے تھے جس میں سونے کا فرنیچر موجود تھا، مگر''کافر‘‘ ان پناہ گزینوںکے لئے آگے بڑھے اور وہاںکے شہری راستے میں ان کے لئے پانی اور خوراک لئے موجود تھے۔ ممکن ہے جرمنی کی چانسلرکو پناہ دینے کی بنا پر آئندہ انتخابات میں شکست ہو جائے لیکن انہوں نے جو کیا یہی جرمن قوم کی روایت بنتی تھی کہ جن انسانوں کو زندگی گزارنے کے لئے مدد کی ضرورت ہے ان کی مدد کی جائے۔ یورپ میں اب یہ بحث بھی ہو رہی ہے کہ ان کے امیگریشن لاز میں تبدیلی کی جائے اور لفظ migrant کو تبدیل کر کے people تحریر کیا جائے۔ یورپی ممالک میں یہ گفتگو بھی جاری ہے کہ کونسا ملک کتنے پناہ گزینوں کو رکھ سکتا ہے۔ صاف ظاہر ہے کہ یہ لوگ ہمیشہ کے لئے وہاں نہیں رہ پائیں گے، ایک نہ ایک دن انہیں واپس جانا ہوگا۔ شام کے ہمسایہ ممالک میں اردن، ترکی، مصر، عراق اور لبنان شامل ہیں۔ ان چند اسلامی ممالک نے بھی تارکین وطن کو پناہ دینے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ لبنان میں دس لاکھ، ترکی میں سات لاکھ کے قریب، اردن میں چھ لاکھ، عراق میں دو لاکھ اور مصر میں سوا لاکھ شامی پناہ لئے ہوئے ہیں۔
پوپ فرانسس نے اپنے ایک بیان میں ان لوگوں کے ساتھ نرم رویہ اپنانے اور ہر چرچ میں ایک خاندان کو رہنے کی اجازت دینے کا کہا ہے۔ ویٹیکن میں بھی دو خاندانوں کو پناہ دینے کا اعلان کیا گیا ہے۔ عوامی سطح پر سوشل میڈیا کے ذریعے تقریباًََ تمام ممالک کے لوگ شام سے در بدر ہوکر نکلنے والے لوگوںکو اپنے گھروں میں پناہ دینے کو تیار ہیں، مگر اسلامی دنیا کے امیر ترین ممالک جو تیل کی دولت سے مالا مال ہیں، جن میں سعودی عرب، قطر، عمان، بحرین اورکویت قریب ترین ہونے کے باوجود خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔
میں سوچتا ہوں کہ میں ایک مسلمان ہوکر بھی ان کے لئے کچھ نہ کر سکا۔ جن مسلم ممالک نے اپنی پراکسی وار عراق اور شام میں لڑی اور جن عالمی طاقتوں نے ان کی مدد کی کیا ان کے بچے نہیں ہیں؟کیا وہ اپنے کسی بچے کی لاش ، ساحل پر اوندھے منہ پڑے دیکھ سکتے ہیں؟ یقیناً نہیں!