پاکستان میںالیکٹرانک میڈیا کے ساتھ وہی ہورہا ہے جو امریکہ ‘ بھارت ‘ انگلینڈ اور کینیڈا میں ہوا۔ ان تمام ممالک میںباری باری ،یہی ہورہاہے کہ ہردس سال بعد ،ایک جیتا جاگتا، اچھلتا کودتا،بلکہ ہنستا کھلکھلاتا ٹیلی ویژن چینل ،موت کی ہچکیاں لینے لگتا ہے اور پھر ایسا لگتا ہے کہ دس سال تک ''پہلوان‘‘ بن کرسب کوپچھاڑنے والا چینل ...اچانک مردار بن جاتا ہے ...دوسروں کو تماشا دکھا نے والا خود'' تماشا‘‘ بن جاتا ہے۔ چینل کی زندگی یا جوانی دس سال کیوں رہتی ہے؟ اس پر دنیا بھر کے علمی حلقوں میں بحث بہت دھیمے لہجے میں ہوتی رہی ہے لیکن اسی ضمن میںکوئی گہری سٹڈی دستیاب نہیںہے۔ایک چینل کا زوال خلا پیدا نہیں کر پاتا،فوری طور پر دوسرا چینل آگے بڑھ کر جگہ لے لیتا ہے۔
پاکستان میں پی ٹی وی نے عروج کے پچاس سال گزارے،لیکن جوں ہی پرائیویٹ ٹیلی ویژن کی '' فوج‘‘ نے پیش قدمی کی، پی ٹی وی جاپان کے ''انو کی پہلوان ‘‘ کے آگے چاروںشانوں چت ہوگیا۔پی ٹی وی کی ''المناک موت‘‘ یا پسپائی ایک ان کہی داستان کہہ گئی... وہ یہی تھی کہ پی ٹی وی پہلے اعصابی طورپر تھکا ہواتھا...اورہمت ہارچکا تھا... جیسے ہی پرائیویٹ چینلوں نے یلغار کی اس نے فوراًشکست تسلیم کرلی... اور چپ چاپ ناکامی کی چادر اوڑھ کر لیٹ گیا۔ٹیلی ویژن کی ورکنگ اخبار سے مختلف ہوتی ہے۔ اخبار کی تیاری شام کو شروع ہوتی ہے اور مڈنائٹ کو اخبار ''دلہن ‘‘کی طرح رخصت ہوجاتا ہے۔آٹھ گھنٹے کے دوران کارکنوں کی جوشیلی محنت اور انتظامیہ کی فراہم کردہ سہولیات روزانہ ایک نئے اخبار کو جنم دیتی ہیں... لیکن ٹیلی ویژن نان اسٹاپ کام کا نام ہے... یہ چو بیس گھنٹے آن رہتا ہے...نہ کوئی آرام ہے اور نہ کوئی وقفہ... ویکلی آف(ہفتہ وار چھٹی) کا تصور چینل میںکارکنوں کیلئے توہے ...لیکن افسران اور مالکان کیلئے نہیں ۔مالکان کو ہروقت چوکنا رہنا پڑتا ہے،گویا وہ مالک نہیں ''چوکیدار‘‘ہو ،جو ہر وقت اپنے چینل کی ''حفاظت‘‘پر مامور رہتا ہے۔ ایک انگریز نے لکھا ہے۔ ''باس !! کبھی بھی نہیں سوتا،باس تو صرف آرام کرتا ہے‘‘۔یہ تقریباً دس سال پرانی بات ہے،کسی نے اے آر وائی کے چیف حاجی عبدالرزاق یعقوب مرحوم سے پوچھا تھا کہ آپ کے خاندانی کام زیورات کی فروخت اور ٹیلی ویژن چلانے میںکیا فرق ہے؟انہوں نے انتہائی ذہانت سے مسکراتے ہوئے اپنے مخصوص انداز میںکہا کہ ''پہلے میںسونے کا کام کرتا تھا،اب جاگنے کا کام کرتا ہوں‘‘۔اس ایک جملے میںچینل مالکان کا بڑا بننے کا خواب بھی دکھائی دیتا ہے اوردکھ بھی!! ۔ یہ ایسا خواب ہے جو آپ صرف جاگتے ہوئے ہی دیکھ سکتے ہیں ...اور اعصابی طور پر ٹوٹ جانے کی وجہ بھی سمجھ آجاتی ہے۔
اعصابی طور پر تباہی کا آغاز بھی امریکہ سے ہوا۔جب ان کا مشہور اور مقبول ٹیلی ویژن چینل اے بی سی نڈھال ہوکر وکٹری سٹینڈ سے گرگیا۔اس کے مالکان اور ایڈیٹوریل ٹیم سے مسلسل غلطیاں ہونے لگیں...اے بی سی بچوں کیساتھ بڑوں میں بھی تیزی سے مقبول ہوا تھا ...لیکن پھر وہی ہوا...بچوں کے جھولے بنانے والی ایک کارٹون کمپنی ''والٹ ڈزنی‘‘نے اسے اپنی ''جاگیر‘‘ بنا لیا...آج اسے بچے دیکھتے ہوں گے لیکن بڑوں کیلئے اے بی سی قصہِ پارینہ بن چکا ہے ...اے بی سی کی جگہ سی این این نے لی...سی این این کو''ون اونر‘‘ سسٹم سے ہٹ کر'' پروفیشنل ٹیم‘‘ کے ذریعے چلایاگیا... اس کی نگرانی امریکہ کے ایک مذہبی گروپ کے کاروباری طبقے نے کی... سی این این کو دنیا کے ڈھائی لاکھ سے زیادہ فائیو اسٹار‘فوراسٹار ‘ تھری اسٹار ہوٹلز کے تقریباًچالیس لاکھ کمروں میں ''آن‘‘ کرکے اس کی ریٹنگ بڑھائی گئی ... سی این ایس کی دیکھا دیکھی ...برطانوی حکومت کے خفیہ ہاتھوں کی مدد سے چلائے جانے والے بی بی سی ٹیلی ویژن نے بھی ہوٹلوںکو اپنا ''ٹارگٹ‘‘ بنالیا ... اب دنیا کے تمام ہوٹلوں میں یہ دونوں چینل۔۔۔۔۔ ''اپ ‘‘اور ''ڈائون‘‘ کا مقابلہ کرتے ہیں... اور ریٹنگ میںآگے رہتے ہیں... اگر عام ناظرین ان چینلز سے ناراض بھی ہوتے ہیں تو ہوٹلوں کی ریٹنگ آگے بڑھ کر انہیںگرنے سے بچالیتی ہے۔ برطانیہ میںجب چینل فور کے مالکان بوڑھے ہونے لگے تو ان کی گرفت کمزور ہوگئی اور مخالف ٹیلی ویژن چینل نے ان کی
''ویوورز مارکیٹ ‘‘ میں گھس کر بڑی تباہی مچائی...لیکن برطانیہ میںایشیائی چینلوں کی یلغار نے پھر کسی بھی برطانوی چینل کو دوبارہ مارکیٹ لیڈر نہیں بننے دیااور ''چینل فور‘‘پرانے وقتوں کی کہانی بن گیا۔
بھارت میں جب زی ٹی وی کا زوال آیا تو اس کو '' قتل‘‘ کرنے کیلئے کئی چینل میدان میں اترے...زی ٹی وی کی ''موت‘‘... کا پہلا مرحلہ ''تکبر اور غرور‘‘ کی وجہ سے ہوا۔۔۔۔۔زی ٹی وی بھارت کی میڈیا انڈسٹری میں انقلاب لایا۔۔۔۔۔ اکتوبر 1992ء میںنشریات کا آغاز کرنے والابھارتی چینل چند سال میںاپنے عروج پر پہنچا۔۔۔۔۔ مارچ 1995ء میںزی ٹی وی برطانیہ پہنچا۔۔۔۔۔اور پہلے ایشین چینل کا اعزاز بھی حاصل کیا۔۔۔۔۔عروج پانے والے زی ٹی وی کی مینجمنٹ ''کمزور ‘‘ ہوئی... ایک وقت ایسا بھی آیا،جب زی ٹی وی نے تقریباً تیس کے قریب چینلز کا اجراء کیا۔۔۔۔۔یعنی ٹی وی چینلز کا ''جمعہ بازار‘‘ لگ گیا۔۔۔۔۔ منتظمین کو علم ہی نہیںہوتا تھا کہ کون سے ''ٹھیلے‘‘ پر کیا فروخت ہورہا ہے ۔۔۔۔۔کس چینل پرکون سا پروگرام دکھایا جارہا ہے۔۔۔۔۔اور آخر کاراسٹارپلس نے زی ٹی وی کو خریدلیا۔۔۔۔۔ اور یوں اعصابی طور پر ٹوٹ پھوٹ کا شکارزی ٹی وی اب صرف چند لوگوں کو یاد ہے۔
الجزیرہ ٹی وی کو کون بھول سکتا ہے ۔۔۔۔۔اسامہ بن لادن کا ہر پیغام الجزیرہ کے ذریعے ہی دنیا بھر کے چینلز تک پہنچتا تھا ۔۔۔۔۔الجزیرہ ٹی وی نومبر 1996ء کو منظر عام پر آیااور دیکھتے ہی دیکھتے مقبول ہوگیا۔الجزیرہ ٹی وی پر میزائل حملے سے لے کر بمباری تک ہوئی جس سے اس کی ریٹنگ دن دگنی رات چوگنی بڑھتی رہی ...لیکن وہ بھی ''اعصابی حملے‘‘برداشت نہ کرسکااور گردن جھکا دی ...اوربالآخر بی بی سی نے موقع سے فائدہ اٹھاتے ہوئے الجزیرہ کو خرید کر اس کی آواز ''خاموش‘‘کردی ...ساڑھے تین کروڑ کی ''ویوور شپ‘‘ رکھنے والا عرب دنیا کا مقبول ترین چینل اب خودبولتا اور خودہی سنتا ہے۔
پاکستان میں بھی اعصاب کی جنگ شروع ہوچکی ہے ۔ٹیلی ویژن سلسلوں کے مالکان بھی اعصابی طورپر پسپائی سے نہیں بچ سکے... ٹیلی ویژن چینل سلسلوں میں سب سے پہلے ''اے آر وائی‘‘ بتدریج کمزور ہونا شروع ہوا... لیکن اس کا کنٹرول بروقت ایک نوجوان سلمان اقبال کے ہاتھ میں آگیا اور یوں پاکستان کا ایک بڑا چینل اے بی سی ‘زی ٹی وی‘الجزیرہ اور چینل فور بننے سے بچ گیاکوئی بھی چینل ہو اسے ہمیشہ ایسے طاقتور نوجوان کی ضرورت ہوتی ہے جو اس میں قوت اور جوش وخروش جھونک سکے۔ ابھی اے آر وئی نے خود کو سنبھالا ہی تھا کہ پاکستان کا ایک اورنجی ٹیلی ویژن اپنی اڑان کھوبیٹھااور بغیر آرام دس سالہ شب وروز محنت کا نتیجہ وہی نکلا...جسم کی قوت مزاحمت ختم ہوجاتی ہے...اعصابی طورپر آدمی مقابلے کے قابل نہیں رہتا... ہرایکشن کا نتیجہ الٹ نکلتا ہے ... کچھ سجھائی اور دکھائی نہیں دیتا... محسوس ہوتا ہے کہ ستارے گردش میں آگئے ہیں... لیکن یہ بات نہیں ہوتی ...نمبر ون جب بھی کمزور ہوتا ہے... تو چاہے سلطنت ہو یا ادارے ...باغی سراٹھاتے ہیں... سرکشی دکھاتے ہیں اور دس سال بعد ... افراتفری مچ جاتی ہے...تاریخ میں پچاس سال حکومت کرنے والا صرف اکبراعظم ایسا بادشاہ گزرا ہے جس نے جارحیت سے توبہ کی ... مخالفین کے سرداریااہم افراد کو خریدنے اور توڑنے کا کام نہیں کیا... دشمن کم اور دوست زیادہ بنائے... پاکستان کے ایک چینل مالک کی بے بسی دیکھ کر صرف یہی کہا جاسکتا ہے کہ اس نے 60 سال میں کوئی ایک بھی دوست نہیں بنایا... اکیلا شخص سب سے کیسے لڑسکتا ہے؟ ...اکیلے شخص کا انجام تو لڑائی شروع ہونے سے پہلے ہی نظر آجاتا ہے... یہ نجی چینل اب بھی بچ سکتا ہے اگر یہ چینل یہ فیصلہ کرلے کہ سب کے ساتھ مل کر چلنا ہے... ہٹلر نے مسلسل جنگ کا اصول اپنایا تو وہ کامیاب نہیں ہوسکا... کیونکہ قانونِ قدرت انسان کی مرضی کے مطابق نہیں ہوتا...بلکہ قادر مطلق کے اصولوں کے مطابق ہوتا ہے ''فنا‘‘سے بچنے کا ایک ہی راستہ ہے کہ ''انا‘‘ کے دلدل سے خود کو نکال لیا جائے... ورنہ اللہ کی ''پکڑ‘‘سے بچ کر نکلنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
نوٹ :اخبار کا مذکورہ کالم نگار کی رائے اور خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں(ادارہ)