تعجب ہے کہ پاکستان ایک ایسا جمہوری ملک ہے جہاں الیکٹرانک میڈیا کو آزادی‘ ایک آمر نے دی‘ لیکن بہت سارے پڑھے لکھے لوگ اس غلط فہمی کا شکار ہو گئے کہ ہم نے یہ آزادی لڑ کر اور زور بازو سے حاصل کی ہے۔ پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کے ''سورج‘‘ نے ملٹی نیشنل کمپنیوں کی خواہشات اور ضروریات کے بطن سے جنم لیا کیوںکہ پاکستان میں اخبارات کے سروے کے بعد جو اعدادوشمار آ رہے تھے ان کے مطابق سارے اخبارات کی مجموعی اشاعت آبادی کا ہزارواں حصہ بھی نہیں بنتی۔ ان اعدادوشمار کی وجہ سے ملٹی نیشنل کمپنیاں پریشان تھیں کہ ان کی مصنوعات کی رسائی کسی صورت عام آدمی تک نہیں ہو رہی تھی اور نہ ڈیمانڈ آ رہی تھی۔ اخبارات کے لیے اشتہارات کا بجٹ دو ارب روپے تھا‘ جو الیکٹرانک میڈیا کے بعد بیس ارب سے بھی تجاوز کر گیا۔ اخبار پڑھنے کے لیے تعلیم‘ شوق اور فاضل رقم تینوں کی ضرورت ہوتی ہے‘ لیکن جب ملٹی نیشنل کمپنیوں نے دیکھا کہ وہ مارکیٹ سے مطلوبہ منافع حاصل نہیں کر پا رہیں تو انہوں نے پاکستان میں الیکٹرانک میڈیا کی آزادی کا ''سٹیج‘‘ تیار کیا۔
الیکٹرانک میڈیا کے آنے سے پہلے امریکہ اور یورپ کے استعمال شدہ ''منسوخ شدہ‘‘ ''آئوٹ ڈیٹڈ‘‘ کمپیوٹر کے ''کباڑیوں‘‘ نے تیسری دنیا کو مارکیٹ بنانے کا فیصلہ کیا۔ پہلا تجربہ یہ کیا گیا کہ پرسنل کمپیوٹر (پی سی) کو دفاتر‘ بینک اور تجارتی اداروں کے احاطے سے نکال کر گھروں میں دھکیلا گیا‘ اس مقصد کے لیے پاکستان بھر میں قرض دے کر ڈیجیٹل ٹیلی فون ایکسچینج لگائے گئے تاکہ ''کمپیوٹر تماشہ‘‘ گھر گھر پہنچایا جا سکے؛ چونکہ کسی بھی شہر (سوائے کراچی) میں چند ہزار دفاتر ہوتے ہیں لیکن گھروں کی تعداد لاکھوں میں ہوتی ہے‘ اس لیے غلامانہ ذہنیت رکھنے والے حکمرانوں کو راغب کیا گیا کہ وہ کمپیوٹر گھر گھر پہنچائیں اور ''مارکیٹنگ مینجر‘‘ کے فرائض سنبھال لیں۔
تیسری دنیا کے ممالک جہاں بنیادی ضروریات پانی‘ صحت اور تعلیم 50 فیصد سے بھی کم شرح پر تھیں‘ وہاں انفارمیشن ٹیکنالوجی کی وزارتیں بھاری بجٹ کے ساتھ میدان میں اتاری گئیں‘ اعلیٰ حکومتی عہدیدار ''طبلچیوں‘‘ کی طرح اس وزارت کی کامیابی پر دادوتحسین کے ''ڈونگرے‘‘ برساتے تھے‘ امریکہ اور یورپ نے اپنے گلے سڑے‘ کباڑہ کمپیوٹرز کو ایشیائی اور افریقی ممالک میں پھیلا کر ایسا حال کیا‘ جو سبزی منڈی میں ٹماٹر‘ دھنیا اور مرچوںکا دوسرے دن ہوتا ہے۔ صارفین کی مصنوعات بنانے والی ملٹی نیشنل کمپنیوں کو حکم دیا گیا کہ وہ ملائشیا کے مرد آہن مہاتیر محمد کی زبان میں ان غریب ممالک کی منڈیوں پر چیلوں کی طرح جھپٹ پڑیں اور ایسا ہی ہوا پاکستان میں بھی گھر گھر پرسنل کمپیوٹر جیسی ''عیاشی‘‘ کو ضروریات زندگی میں ''جبراً‘‘ شامل کر دیا گیا۔
تیسری دنیا کے لوگ ''مُفتے‘‘ کے شوقین ہیں اور ان کے ساتھ یہی کیا گیا۔ سب سے پہلے ڈش کے ذریعے ''مفت چینل‘‘ دکھا کر انہیں ٹی وی کا ''نشئی‘‘ بنانے کا سلسلہ شروع کیا گیا لیکن بے قرار ملٹی نیشنل کمپنیوں کو تسلی نہ ہوئی تو وہ کیبل سسٹم مارکیٹ میں لے آئیں‘ جو کمپنیاں بننے لگیں‘ پھر پرائیویٹ ٹی وی چینلز کی ''یلغار‘‘ کی گئی۔ مقصد ایک ہی تھا کہ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی مصنوعات کو ان گاہکوں تک پہنچایا جائے جو تعلیم یافتہ نہیں‘ جنہیں اخبار کا کوئی شوق نہیں‘ لہٰذا انہیں ٹیلی ویژن کی جگ مگ کرتی رنگ برنگی سکرین کے ذریعہ ''شکار‘‘ کر لیا جائے۔۔۔۔ اور ان کی دیکھنے اور سُننے کی صلاحیتوں سے ''معاشی فائدہ‘‘ اٹھایا جائے۔۔۔۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں نے ان کی جیبوں میں ایک کے بجائے دونوں ہاتھ ڈال دیے۔ بڑے بجٹ کی ملٹی نیشنل کمپنیوں نے سمال اور میڈیم سائز پاکستانی کمپنیوں کو صارفین کی مارکیٹ میں گھیر گھیر کر مارا۔ پاکستانی کمپنیوں میں نہ اتنی سکت تھی کہ وہ اربوں روپے کی تشہیر کر سکیں اور نہ اتنی ہمت کہ پاکستان کی 5 سے 6 لاکھ دکانوں تک اپنا مال پہنچا سکیں۔ جب یہ لڑائی شروع ہوئی تو پاکستانی مارکیٹ میں قومی کمپنیاں ''وار‘‘ نہ سہتے ہوئے سسک سسک کر پے در پے مرنے لگیں۔
پاکستانی صارف کو راغب کرنے کے لیے بظاہر چینلز میں اچھے ''سافٹ ویئر‘‘ کا مقابلہ کروایا گیا‘ لیکن دراصل یہ مقابلہ بھی ''کم خرچ بالا نشیں‘‘ کی غمازی کرتا تھا کہ سستے بجٹ میں زیادہ رزلٹ کون سا چینل دیتا ہے؟ بدنصیبی دیکھیے کہ یہاںچینل کے لائسنس تو دے دیے گئے لیکن 10 سال بعد بھی ضابطہ اخلاق تیار نہ ہو سکا۔ اس کی مثال ایسی ہی ہے کہ کوئی شخص علاقہ غیر سے بندوق خرید کر اپنے علاقے کے ڈپٹی کمشنر کے دفتر پہنچے اور کہے''میں نے بندوق خرید لی ہے مجھے لائسنس چاہیے‘‘ اور ڈپٹی کمشنر مسکرا کر جواب دے ''آپ یہ بندوق اپنے پاس سنبھال کر رکھیں قانون بن جائے گا تو لائسنس بھی بن جائے گا‘‘۔
ہمارے ٹیلی ویژن چینلوں کے بڑے ''کمالات‘‘ ہیں۔ بھانڈ سنجیدہ پروگرام کر رہے ہیں۔ کامیڈین سیاسی انٹرویوز میں مصروف ہیں۔ فنکار اور گلوکار مذہبی پروگرام میں فتوے دیتے ہیں‘ تو ڈاکٹر آئینی مسائل کا حل کسی نسخے کی طرح تجویز کرتے نظر آتے ہیں۔ مارننگ شو دیکھیں تو لگتا ہے''نائٹ شو‘‘ چل رہا ہے۔ ایک چینل نے تو حد ہی کر دی۔ اس نے ایک اینکر کی جگہ کھسرے (مخنث) کو بٹھا دیا تھا۔ سمجھ نہیں آیا وہ چینل خود اپنا مذاق اڑا رہا تھا یا قوم کا؟ افسوسناک بات یہ ہے کہ ابھی تک کسی چینل نے اپنا تربیتی شعبہ نہیں بنایا جبکہ پاکستان کے قانون کے تحت تیس فیصد عملہ اپرنٹس (زیر تربیت) ہونا چاہیے۔ اب شاید لوگوں کو یاد بھی نہیں کہ ایسا کوئی قانون ہے‘ اور ہمیں اس پر عمل کرنا ہے یا نہیں یہ سوال بھی مذاق سا لگتا ہے۔ ایک چینل ایسا ہے جس نے اپنے ابتدائی ایام میں بھارتی ٹی وی چینل زی ٹی وی سے اپنے کارکنوں کی تربیت ضرور کرائی۔
جب تک ٹیلی ویژن کے اداروں میں باصلاحیت افراد کی ''فوج‘‘ تیار کرنے کا انٹرنل سسٹم پیدا نہیں ہو گا یہ ادارے کبھی بھی باوقار اداروں کی صف میں کھڑے نہیں ہو سکیں گے۔ پاکستان کے اکثر چینلز نے پیسے‘ وسائل اور طاقت کے بل بوتے پر حریف ٹی وی چینلز کی ''مین پاور‘‘ کو ''اغوا‘‘ کیا۔ حیرت ہے کہ اس عمل کا ''جشن‘‘ بھی منایا جاتا ہے۔ یہی چینلز ایسا کوئی عمل دبئی میں کر کے دکھا دیں۔ دبئی میں کسی ادارے کا کوئی شخص کسی دوسرے ادارے میں حکومت کی اجازت کے بغیر نہیں جا سکتا۔ وہاںاپنے معاہدے کی میعاد پوری کیے بغیر کہیں جانے کا تصور بھی محال ہے‘ چاہے وہ ادارہ کسی شیخ کا ہی کیوں نہ ہو۔ اس چھوٹی سی قانون شکنی نے ہمارے پورے سسٹم کو تباہ کر دیا اور چینل میں ذہانت کے مثبت مقابلے کی بجائے ٹیلنٹ کی ''لوٹ مار‘‘ شروع ہو گئی۔
دبئی کے ایک بڑے شوروم میں پاپ گلوکارہ میڈونا کی 5 نقلی تیارکردہ (پائریسی) سی ڈیز برآمد ہوئیں تو اس جرم میں شوروم کا 10 کروڑ روپے سے زائد مالیت کا سامان سڑک پر رکھ کر جلا دیا گیا اور دبئی پولیس نے اعلان پڑھ کر سنایا کہ ''اگر فنکار کو اس کی صلاحیتوں کی رائلٹی نہیں ملے گی تو وہ بھوک سے سسک سسک کر مر جائے گا اور نئے فنکار اس فیلڈ کو کیریئر سمجھ کر نہیں آئیں گے ہم فن کو مرنے نہیں دیں گے اور نہ ہی نقالوں کو جیبیں بھرنے دیں گے‘‘۔۔۔۔ پاکستان میں تو ٹی وی چینلز کو قابو کرنے کے لیے وہ لوگ قوانین بنا رہے ہیں جن کو ٹی وی چینل کے بارے میںکچھ پتہ نہیں‘ وہ تو اپنی کاروباری کمپنیاں بھی ناکام کرکے بیٹھے ہیں۔ یہ ایسے ہی ہے جیسے کوئی وکیل اپنے موکل کو آپریشن تھیٹر میں لٹا کر گردے اور پتے کا آپریشن کرنے لگے۔
ضابطۂ اخلاق بنانے کے لیے وسیع بنیادوں پر کام کیا جائے تاکہ دوبارہ کسی چینل کو جرأت نہ ہو کہ وہ مسلح افواج اور عدلیہ کے خلاف ''غیر پارلیمانی سٹائل‘‘ اپنائے۔ پیمرا کو نہ صرف اپنی ذمہ داری پوری کرنی چاہیے بلکہ قانون توڑنے والوں کو اپنے''دانت‘‘ بھی دکھانے چاہئیں۔ اس کام کے لیے سابق پیمرا کے تجربہ کار افسران‘ پاک فوج کے شعبہ تعلقات عامہ (آئی ایس پی آر) کے سابق افسران اور اعلیٰ سطح کے دانشوروں کی خدمات حاصل کرکے ایک موثر قانون بنایا جائے اور اس پر طاقت کے بل پر عمل کرایا جائے ورنہ ''ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے‘ انجام گلستان ''یہی‘‘ ہو گا‘‘!!