اسلام آباد کا ریڈزون'' نئے انقلابی پاکستان‘‘ میں داخلے کا دروازہ بن سکتاہے ...لگتا ہے وزیر اعظم ہائوس کے سامنے والی سڑک پرتمام مسائل کا حل موجودہے اس لئے حکومت انقلابی اور انصافی کارکنوں کو وہاں جانے نہیں دے رہی ... جمہوریت اور آمریت میں یہی فرق ہے کہ دونوں ایک دوسرے کی ضد ہیںلیکن پاکستان کی جمہوریت دیکھ کر مجھے ایک طالبعلم کا وہ جملہ یاد آگیا جواس نے اپنی کاپی میں لکھا... اس نے اوریجنل کی ضد آرٹی فیشل کے بجائے ''چائنا‘‘لکھ دیا اوراس کی کاپی کا یہ صفحہ آج بھی سوشل میڈیا پر توجہ کا مرکزبنا ہوا ہے... معروف مزاح نگار انور مقصود سے کسی نے پوچھا ''پاکستانی الیکشن میں سیاستدانوں کو کیسے چنا جائے‘‘ انہوں نے بامعنی جواب دیا''جیسے اکبر بادشاہ نے انارکلی کو چنا تھا ‘‘۔
افلاطون نے سقراط پر مقدمے‘ اس کی سزا اور موت کا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھا تھا... مقدمہ میں چار یا پانچ سو شہری جیوری کی حیثیت سے بیٹھے تھے... گویا سقراط کی سزائے موت کا پروانہ یونان کے جمہوری معاشرے نے صادر کیا تھا... نتیجہ یہ نکلاکہ افلاطون کو جمہوری نظام سے نفرت ہو گئی اور انہوں نے نظامِ حکومت کا نیا خا کہ تجویز کیا... افلاطون کا خیال تھا کہ اچھا معاشرہ اور اچھی حکومت اس وقت تک قائم نہیں ہو سکتا جب تک کہ بادشاہ فلسفیوں کی طرح فکر نہ کر نے لگے اور فلسفی کو بادشاہ نہ بنا دیا جائے۔ افلاطون کا خیال ہے کہ معاشرے کا ہر فرد یہ اہلیت نہیں رکھتا کہ حکومت کی ذمہ داریاں اس کو سونپی جائیں۔صرف وہ لوگ حکومت میں آنے چاہئیں جو صحیح معنوں میں اسکی اہلیت رکھتے ہوں۔ علامہ اقبال نے افلاطون کے اس فکر کو اپنے اشعار میں بیان کیا ہے:
اس راز کو اک مردِ فرنگی نے کیا فاش
ہر چند کہ دانا اسے کھولا نہیں کرتے
جمہوریت اک طرزِ حکومت ہے کہ جس میں
بندوں کو گنا کرتے ہیں، تولا نہیں کرتے
جمہوریت عوام کے ایسے طرز حکومت کا نام ہے جس میں تمام فیصلے عوامی نمائندے کرتے ہیں ...جمہوریت دوا قسام کی ہے... بلاواسطہ اور بالواسطہ ... بلاواسطہ جمہوریت میں قوم کی مرضی کا اظہار براہ راست افراد کی رائے سے ہوتا ہے۔ اس قسم کی جمہوریت صرف ایسی جگہ قائم ہوسکتی ہے‘ جہاں ریاست کا رقبہ بہت محدود ہو اور ریاست کے عوام کا یکجا جمع ہو کر غوروفکر کرنا ممکن ہو۔ اس طرز کی جمہوریت قدیم یونان کی شہری مملکتوں میں موجود تھی۔ ان دنوں یہ طرز جمہوریت سوئٹیزر لینڈ کے چند شہروں اور امریکہ میں چند بلدیات تک محدود ہے۔ جدید جمہوریت کی بنیاد نمائندگی پر رکھی گئی۔ ہر شخص کے مجلس قانون ساز میں حاضر ہونے کے بجائے رائے دہندگی کے ذریعے چند نمائندے منتخب کر لیے جاتے ہیں‘ جو ووٹروں کی طرف سے ریاست کا کام کرتے ہیں۔ حبیب جالب کی نظرمیں پاکستانی جمہوریت کی تشریح کچھ اس طرح ہے:
دس کروڑ انسانو!! زندگی سے بے گانو!
صرف چند لوگوں نے حق تمہارا چھینا ہے
بے شعور بھی تم کو بے شعور کہتے ہیں
خاک ایسے جینے پر! یہ بھی کوئی جینا ہے!
جمہوری نظامِ حکومت میں عوام کے دلوں میں نظامِ ریاست کا احترام پیدا ہوتا ہے کیونکہ اس میں نظام حکومت خود عوام یا عوام کے نمائندوں کے ذریعے پایہ تکمیل تک پہنچتا ہے مگر یہ جذبہ صرف اس وقت کارفرما ہوتا ہے جب عوام کی صحیح نمائندگی ہو اور اراکین مملکت کا انتخاب صحیح ہو۔ اس عمل میں دھاندلی کا الزام لگ جائے تو پوری جمہوریت سوالیہ نشان بن جاتی ہے۔ ریڈزون عوام سے بھر جاتا ہے اور پھر سب کی نظریں ایک ہی ادارے کی طرف ہوتی ہیں اور پاک فوج سے کہا جاتا ہے کہ براہ مہربانی ''نواز ‘ عمران ضد‘‘ ختم کرادیں‘ معاملات حل کرا دیں۔ علامہ اقبال کا نقطہ نظر یہ ہے کہ ؎
جلال بادشاہی ہو کہ جمہوری تماشہ ہو
جدا ہو دین سیاست سے تو رہ جاتی ہے چنگیزی
پاکستان میںجمہوریت کے معنی سیاست دانوں کا وہ ہتھیارہے جس کے استعمال سے کوئی سیاست دان منٹوں میں نہ صرف ارب پتی بن سکتا ہے بلکہ اپنے سیاسی حریفوں کو کنگال بنا کرساری برائیوں کا ذمہ دار ٹھہراتا ہے اور یہ ڈھنڈورا پیٹتا ہے کہ یہ تمام کوتاہیاں ہمیں ورثے میں ملی ہیں۔ جہاں پانچ وفاقی وزراء، وزیراعظم کے استعفیٰ یا ایک ماہ کی رخصت کی تجویز کے بارے میں اختیار نہ رکھتے ہوں اور کہاجائے کہ ''پوچھ کر بتائیں گے‘‘ ایسی جمہوریت میں طاقت کا محورو منبع صرف ایک شخصیت یا خاندان ہوتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے شریک چیئرمین آصف زرداری کا ایک جملہ''جمہوریت بہترین انتقام ہے‘‘ بیشتر لوگوں کو اب سمجھ آنے لگا ہے۔ اب انتقام کس سے لیا جارہا ہے؟ یہ سوال اپنی جگہ ضرور موجود ہے۔
میں اپنے سابقہ کالموں میں متعدد باریہ لکھ چکا ہوں کہ لانگ مارچ اور دھرنوں میں کراچی کا کردار انتہائی اہم اورفیصلہ کن ہو سکتا ہے‘ لیکن جہاں نواز شریف اپنی بات پر اَڑ جاتے ہیں‘ وہاں دوسری جانب عمران خان اور طاہر القادری نے بھی ''سولو فلائٹ‘‘ کی بھرپور کوشش کی... ایک ہی سڑک پر طاہر القادری بھی موجود تھے اور عمران خان بھی لیکن دونوں ''پڑوسی‘‘ ہونے کے باوجود 15روز بعد ''دو جسم یک جان‘‘ہوئے۔ عمران خان ایم کیو ایم کے قائد الطاف حسین سے بات کرتے‘ انہیں ساتھ لے کر چلتے‘ احتجاج کا حصہ بناتے۔ اسلام آباد کے ساتھ کراچی میں بھی دھرنے دئیے جاتے‘ ہڑتال کا ''موثر‘‘استعمال کیا جاتا تو آج صورتحال یکسر مختلف ہوسکتی تھی۔ تاجر برادری بھی ساتھ ہوتی تو ٹرانسپورٹرز بھی پیچھے نہ رہتے۔ ملک کے ریونیو کا 67فیصد حصہ ایک دن کیلئے بند ہوجائے تو حکومت کے ماتھے پر ''پسینہ‘‘آجاتا ہے۔ دس سے پندرہ دن میں کیا حالت ہوتی؟اس کا اندازہ کوئی بھی با ٓسانی لگاسکتا ہے۔ صورتحال اب بھی عمران خان کے حق میں ہے۔ چوہدری نثار اس وقت نواز شریف کے نادان دوست کا کردار ادا کررہے ہیں۔ پولیس کی ''تاریخی شیلنگ‘‘ نے500 زخمیوں کو اسپتال روانہ کردیا ہے اور اب بھی یہ سلسلہ جاری ہے...اور اگر معاملات ایسے ہی چلتے رہے تو متحدہ قومی موومنٹ کسی بھی وقت احتجاج کا حصہ بن سکتی ہے جس کے بعد نواز شریف کااستعفیٰ کوئی مشکل عمل نہیں ہوگا۔