اسلامی جمہوریہ پاکستان کے آئین میںدو ترامیم کوئی نہیں بھول سکتا۔۔۔ایک نے صدرمملکت کو اختیارات سے ''مالا مال‘‘ کر دیا، تودوسری نے اُسے ''ربڑاسٹیمپ‘‘ بنادیا۔ایک آمر کی ''چیک اینڈ بیلنس‘‘ آٹھویں ترمیم کو ایک جمہوری حکمران نے تیرہویں ترمیم کے ذریعے آئین کے صفحات سے کھرچ کھرچ کے نکال دیا۔ آٹھویں ترمیم کو ایکٹ1985ء کے نام سے جانا جاتا ہے،جس کے تحت صدر پاکستان کا عہدہ ''کڑی نگرانی‘‘اور''حکومتی اپوزیشن‘‘ کی علامت بن گیا۔آرٹیکل 58کے سیکشن 2 میں صدر مملکت کو یہ اختیار دیا گیا کہ ''اگر کچھ ایسے مواقع آجائیں جو حالات کے مطابق نہ ہوں تو صدر قومی اسمبلی کو تحلیل کرسکتے ہیں ‘‘۔ شق الف میں کہا گیا ہے کہ ''وزیر اعظم کے خلاف ایوان میں عدم اعتماد کی تحریک کامیاب ہونے کی صورت میں اگر کوئی دوسرا رکن اس حیثیت میں نہ ہو کہ آئین پاکستان کے تحت ایوان کا اعتماد لے سکے‘‘ جو کہ آج تک کسی کام نہ آسکی ،لیکن اس کی شق ب میںکہا گیا کہ ''ملک میں کچھ ایسے حالات جنم لے لیں جب آئین پاکستان کے تحت حکومت اور ریاست کے انتظامات و معاملا ت چلانا ممکن نہ رہے تو صدر اپنی رائے میں اسمبلی تحلیل کرسکتے ہیں‘‘۔
آرٹیکل 58ٹو بی کا استعمال 1990ء کی دہائی میں تین بار کیا گیا۔ صدر غلام اسحاق خان نے دو بار اور صدر فاروق لغاری نے ایک باراس آرٹیکل کو کرپشن اور مس گورننس کیخلاف نافذ کیا۔بینظیر بھٹو کی حکومت دو بار جبکہ نواز شریف کی ایک حکومت نااہلی کی بنیاد پر صدر کے ہاتھوں فارغ ہوئی۔ اس میںاہم الزام کرپشن تھا۔ اس ترمیم کی رو سے حکومت پاکستان پارلیمانی طرز حکومت سے جزوی صدارتی طرز حکومت میں تبدیل ہو گئی اور صدر پاکستان کو کئی اضافی اختیارات اور آئینی طاقت میسر آ گئی۔ اِن اختیارات کے دوسری بار استعمال کے بعد نواز شریف کو پاکستان کی عدالت عظمیٰ نے بحال کر دیا تھا لیکن اُس وقت اداروں کے مابین شروع ہونے والے قضیے کے نتیجے میں صدر غلام اسحق خان اور وزیر اعظم نواز شریف دونوں کو مستعفی ہونا پڑا تھا۔کرپشن کے الزام کے بعد حکومتی ادارے عوام میں اپنا وقار اور مقبولیت کھو بیٹھے ۔یہی وجہ تھی کہ ہر بار حکمران جماعت کو انتخابات میں شکست کا سامنا کرنا پڑا اور پارلیمان میں عددی برتری کسی بھی جماعت کے حصے میں نہیں آئی۔
1997ء میںنواز شریف نے اقتدار میں آتے ہی 58ٹو بی کو اپنے اوپر لٹکتی تلوار تصور کیا اور تیرہویں ترمیم کے ذریعے صدر کی ''پاورز ‘‘چھین لی گئیں،تاکہ چراغ رگڑنے سے بھی ''جن ‘‘باہر نہ آسکے اورصدارتی کیمپ بظاہر ''نمائشی‘‘رہ گیا۔
آج کے حالات 90ء کی دہائی سے زیادہ خراب ہوچکے ہیں۔ ریاستی اداروں کے درمیان ایک کے بعد دوسرے معاملے پر محاذآرائی کا عمل جاری ہے ۔کرپشن اپنے'' جوبن‘‘پر ہے ۔پاکستان میں نافذ جمہوریت میں کوئی بھی ایسا راستہ نہیں بچا کہ منتخب ہو جانے کے بعد عوام کے ذریعے اراکین پارلیمان کا احتساب کیا جا سکے۔ ادارہ جاتی احتساب پہلے ہی نہ ہونے کے برابر تھا کہ آئین میں کی جانے والی تیرہویں اور چودہویں ترمیم کے ذریعے حکومتی احتساب کی ساری راہیں مسدود کر دی گئیں ۔ وزیر اعظم پاکستان کو اتنا مضبوط کر دیا گیا کہ کسی صورت بھی وزیراعظم یا ان کی
انتظامیہ و کابینہ کا احتساب دوران حکومت ممکن نہ رہا۔
زلزلہ آجائے یا سیلاب ،بم دھماکہ ہو یا دہشت گردی،حالات خون سے رنگین ہوجائیں یا سوگ سے سیاہ ،عوام اب فوج کی جانب دیکھتی ہے۔58ٹوبی جمہوری حکومت بچانے کا واحد جمہوری دروازہ تھا لیکن اسے بھی بند کردیا گیا۔سویلین صدر ایک اسمبلی کو گھر بھیجتے تھے تو دوسری حکومت ووٹ کے ذریعے آتی تھی ،لیکن آج ایسا ممکن نہیں۔اب صرف برداشت کا تھرمامیٹر گرمی کی پیمائش کررہا ہے ،جو عروج پر پہنچ گئی ہے ۔جمہوری حکومت اگر گئی تو پھر ''تبدیلی ‘‘ووٹوں سے نہیں احتساب سے آئے گی۔ پہلے پیپلز پارٹی اور پھر مسلم لیگ ن کی باریاں چل رہی تھیں۔اسلام آباد کے ڈی چوک سے کراچی‘ لاہور‘ فیصل آباد ‘ملتان سمیت دیگر بڑے شہروں کی سڑکوں اور چوراہوں تک 127روز کی اپوزیشن دیکھی جس کا مرکز قائد حزب اختلاف کا چیمبر نہیں بلکہ ایک کنٹینر تھا،لیکن اب لوگ یہ بھی کہتے ہیں کہ ''کہیں تین باریا ں تو نہیں ہوگئیں‘‘۔ ایسی صورتحال میںتمام ''انقلابی اقدامات‘‘سے قبل 58ٹو بی کو بحال کرنا ضروری ہوگیا ہے، تاکہ ایک نمائشی عہدے سے چھٹکارے کے ساتھ حکومت کی جمہوری طریقے سے ''کڑی نگرانی ‘‘کی جاسکے۔
1973ء کے آئین میںشامل 58ٹوبی کو1997ء میں نوازشریف حکومت کی جانب سے نکالے جانے کے نتیجے میں وزیراعظم پاکستان کو بے تحاشا اختیارات مل گئے ہیں۔ کئی ریاستی ادارے اور خود ان کے ارکان پارلیمنٹ بے بس ہیں، بے دست وپا ہیں۔ایسا لگتا ہے کہ ڈکٹیٹر شپ نے اپنے پائوں پارلیمنٹ میں جمالئے ہیں۔پاکستان میں مسلسل سیاسی بے چینی کی وجہ یہ ہے کہ ''قبضہ گروپوں ‘‘کو ہم نے سیاستدان سمجھ لیا ہے ۔جن پارٹیوں میں جمہوریت نہیں‘ وہ پورے ملک میں جمہوریت کیسے لاسکتی ہیں۔ حال ہی میں پلڈاٹ سروے میں پارٹیوں کی جمہوریت میں مسلم لیگ ن کا ساتواں نمبر ہے۔ پاکستان میں جب بے چینی، تکلیف، پریشانی اورآفات بڑھتی ہیں تو لوگ فوج کی جانب کیوں دیکھتے ہیں انہیں سیاستدانوں پر یقین کیوں نہیں؟یہ سماجیات کا سوال ہے اور ہمیں ترکی کی طرح نیا معاہدہ عمرانی کرنا ہوگاتاکہ ہم یہ طے کرسکیں کہ پاکستان کا نظام کیسے چلے گا۔کیا پاکستان کے سابق جج اور سابق جرنیل صاحبان مل کر ایک پرائیویٹ کمیشن نہیں بنا سکتے جو اس بات کا جائزہ لے کہ پاکستان میں جمہوریت بار بار ناکام کیوں ہوتی ہے؟ ایک وقت آتا ہے کہ پارلیمنٹ اداکاروں کا شومحسوس ہونے لگتاہے اور لوگ اس سے مایوس ہوجاتے ہیں۔گزشتہ ڈیڑھ سال میں ہم نے صرف غربت اور دہشت گردی میں اضافہ کیا، باقی تمام شعبوں میں کارکردگی نیچے کی طرف جاتی دکھائی دیتی ہے۔ ہم اتنے نالائق ہیں کہ اپنی نالائقی کا بھی کھل کر اعتراف نہیں کر رہے۔ فرانس کے حالات خراب ہوئے تو وہاں کے فلاسفرروسونے نیا نظریہ عمرانی پیش کیا۔امریکہ میں حکومت کو مضبوط بنانے کیلئے فوج کو پس پردہ شریک سفر بنایا گیا۔ترکی نے یہ کام کھل کر، ڈھول بجاکر اور آئین میں لکھ کر کیا۔ہمیں چاہیے کہ ہم اپنے ملک کی فوج کو شریک اقتدارکریں ،شریک کار کریں ۔پاکستان میں 10سے 15تجربوں کے بعد ایک بات ثابت ہوگئی کہ جب تک سویلین حکومت کے ساتھ فوج شریک اقتدار نہیں ہوگی سیاسی نظام مستحکم نہیں ہوسکتا۔یہ جمہوریت کے دعوے دار تو بلدیاتی اداروں کے منتخب نمائندوںکو گلی ‘کوچے کی صفائی کیلئے ''پاورز‘‘دینے کو تیار نہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ دیر ہوجائے۔ میری سابق جرنیلوں اور سابق ججوں سے گذارش ہے کہ وہ ایک ایسا نظام حکومت وضع کریں جس میں فوج اور عوام شریک ہوں ۔ وزیر اعظم عوام کا منتخب کردہ ہو لیکن صدر مملکت فوج کی آشیرباد اور مشاورت سے آنا چاہیے اور 58ٹو بی کے تحت وہ پارلیمنٹ پر نظر رکھے ۔اس کے ہاتھ میں ڈنڈا ہونا چاہیے، دہی بڑے کی پلیٹ نہیں۔پورے ملک کو برنس روڈ بنانے کی کوشش بند ہونی چاہیے ،اس لئے کہ اگر اسی رفتار سے ہماری ملکی معیشت تباہ ہوتی رہی تو ہمارے ملک کی کُل آمدنی عالمی بینک اور آئی ایم ایف کے سود کی ادائیگی میں ختم ہوجائے گی اور بھوکے عوام کیلئے کچھ نہیں بچے گا۔ فوج اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں کے بھی لالے پڑ جائیں گے اور پھر الائیڈ بینک کے شیئرز کی طرح کچھ نہ کچھ چوری چھپے فروخت کرکے گذارا کرنا پڑے گااور ہمیں صرف غالب یاد رہ جائے گا ؎
کی میرے قتل کے بعد اُس نے جفا سے توبہ
ہائے اس زود پشیماں کا پشیماں ہونا