سپریم کورٹ نے کراچی میں چنگ چی رکشوں کو سڑکوں پر ''کھلے عام‘‘ بھاگ دوڑ کی اجازت دے دی ہے۔ کراچی کی شاہراہیں ایک بار پھر چنگ چی رکشوں سے بھر جائیں گی۔ موٹر سائیکل کے منہ اور رکشے کے دھڑ والی اِس عجیب الخلقت سواری کو عوام اپنے لئے غنیمت سمجھ رہے ہیں۔ دنیا چاند اور مریخ کے بعد دیگر سیاروں پر جانے کی تیاری کر رہی ہے اور ہم اب تک چنگ چی رکشے کے سڑک پر چلنے یا نہ چلنے کی بحث میں مصروف ہیں۔ جسٹس دوست محمد نے اپنے ریمارکس میںکہا کہ ''کراچی میں 1955ء ماڈل کی بسیں چل رہی ہیں اور کوئی پوچھنے والا نہیں‘‘۔ کراچی کے معاملات کے لئے پوچھنے والے ضرور ہیں لیکن وہ صرف ''ٹیکس اور آمدنی‘‘ کا پوچھتے ہیں۔ عوام جیئیں یا مریں اس سے کسی کو کوئی غرض نہیں۔ یہاں تو وی آئی پی پروٹوکول کی وجہ سے بسمہ مر جاتی ہے لیکن ایک وزیر موصوف ''بھٹو زندہ ہے‘‘ کا فلسفہ سمجھا رہے ہوتے ہیں۔
دنیا کے ہر ملک اور شہر کی پہچان ٹرانسپورٹ ہوتی ہے۔ صاف ستھری شارع پر ایک دلکش بس آج کی دنیا میں انسانی معیار زندگی اور ایک تہذیب یافتہ معاشرے کا ایک مثالی نمونہ پیش کرتی ہے۔ حال ہی میں جاپان نے ''بلٹ ٹرین‘‘ کو 220 کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے چلانے کا کامیاب تجربہ کیا۔ لندن میں زیر زمین ٹیوب سروس اپنی مثال آپ ہے۔ نیو یارک اور واشنگٹن میں چمکتی دمکتی ٹیکسیاں اور تیز رفتار ٹرینیں وہاں کے شہریوں کے لئے بڑی اور بنیادی سہولت ہیں‘ لیکن جب بات کراچی کی ہو تو دنیا بھر کی مسترد شدہ‘ زائد المیعاد اور ریٹائرڈ بسیں یہاں اب تک ''نوکری‘‘ کر رہی ہیں۔ محکمہ ٹرانسپورٹ کی حالت بھی خستہ حال بسوں سے زیادہ مختلف نہیں۔ جب 50 سال پرانی بس کو دو چار سو روپے میں ''فِٹ‘‘ ہونے کا سرٹیفکیٹ مل سکتا ہے تو چنگ چی رکشہ کو بھی فٹنس حاصل کرنے سے کوئی نہیں روک سکتا۔ ایک بات ضرور ہے کہ ''چائے پانی‘‘ کا ایک بڑا ''ہوٹل‘‘کھل گیا ہے۔ اور ''دھندہ‘‘خوب چلے گا۔ سپریم کورٹ جب یہ کہہ دے کہ ''کراچی میں ٹرانسپورٹ مافیا کا قبضہ ہے جو نئی بسوں کو چلنے نہیں دیتا‘‘ تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟ سندھ میں گڈ گورننس کا حال یہ ہے کہ ایک نوجوان نے گٹر کے ڈھکن نہ ہونے پر جب وزیر اعلیٰ کی تصویر بنا کر ان کی توجہ مبذول کرائی تو سائیں نے نوٹس لیا‘ لیکن دو دن گزرنے کے باوجود گٹر کے ڈھکن تو نہیں لگے؛ البتہ نوجوان کے خلاف مقدمہ ضرور درج ہو گیا۔ اور آخرکار عالمگیر نامی اس نوجوان نے اپنی مدد آپ کے تحت گٹر کے ڈھکن لگانا شروع کر دیے۔ کراچی کے شہری تو پریشان ہیں کہ قائم علی شاہ نے ڈھائی سال سے زیر تعمیر ملیر 15 فلائی اوور کو 15 جنوری تک مکمل کرنے کا بھی حکم دیا ہے۔ جس وزیر اعلیٰ کے کہنے پر گٹر کے ڈھکن نہ لگیں فلائی اوور کیا خاک مکمل ہو گا۔۔۔۔۔۔؟
کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسئلے کو حل کرنے کی کوشش ہی نہیں کی گئی بلکہ یہی سوچا گیا کہ ''رس گلہ ‘‘کہاں سے نکلے گا؟ ذاتی منفعت کیسے پوری ہو گی؟ سندھ کے حکمران بھی خوب ہیں۔۔۔۔ حکومت کرتے کرتے عرصہ بیت گیا‘ لیکن عوام کے لئے کوئی دور اندیشانہ پالیسی نہیں بنائی۔ کراچی سے محبت کرنے والے ایک پرانے شہری کا کہنا ہے کہ ''میں 20 سال سے بسوں اور ویگنوں میں سفر کر رہا ہوں کسی حکومت نے ایک بھی نیا روٹ نہیں بنایا بلکہ آٹھ روٹ بند ہو گئے‘ جن میں سب سے مقبول 8A کا روٹ تھا‘ جو آئی آئی چندریگر روڈ جیسی پاکستانی وال سٹریٹ سے ہوتا ہوا جاتا تھا‘‘۔۔۔۔۔۔ 8A کے بارے میں اردو کے صف اول کے مزاح نگار مشتاق احمد یوسفی نے اپنی کتاب ''سرگزشت‘‘ میں بھی دلچسپ پیرائے میں ذکر کیا ہے‘ بلکہ وہ خود اس روٹ کے مسافر تھے اور 8A کے ذریعے وہ بینک کے ہیڈ آفس سے اپنی رہائش گاہ پی آئی بی کالونی جاتے تھے۔ حکومت نے اپنی کمائی کے راستے اتنے بنائے ہیں کہ آدھے انچ کے نلکے میں قطرہ قطرہ بھی پانی نہیں آتا‘ لیکن ٹینکروں سے 4 انچ کی دھار اتنی قوت سے نکلتی ہے کہ اگر ٹریبائن لگا دیا جائے تو آٹھ سے دس واٹ بجلی ضرور پیدا ہو سکتی ہے۔ چنگ چی رکشہ کراچی کے دیرینہ ٹرانسپورٹ مسئلے کا حل نہیں تھا‘ بلکہ یہ تو ڈوبتے کو تنکے کا سہارا ہے۔ دنیا میں ٹرانسپورٹ کے مسائل پر بڑے بڑے سیمینار ہوتے ہیں۔ اِسے سائنس قرار دے کر جدید طریقوں سے حل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ کراچی میں ٹرانسپورٹ کے مسائل کے حل میں حکومت کا کوئی کردار نہیں بلکہ پورا شہر ان پڑھ ڈرائیوروں کے رحم و کرم پر ہے‘ اور وہ بھی اسے انسانی مسئلہ نہیں سمجھتے بلکہ کمرشل طریقے سے حل کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔
کراچی کی تباہی پر خوش ہونے والے وفاقی اور صوبائی اہلکار ایک بات ذہن میں رکھیں کہ کراچی تباہ ہوا توا پورا ملک تباہ ہو جائے گا۔۔۔۔ اور یہ بات گزشتہ دنوں وزیر اعظم نواز شریف بھی کہہ چکے ہیں۔ کراچی 70 فیصد ٹیکس دیتا ہے‘ اور سب سے زیادہ ''ٹیکس پیئر‘‘ بھی اِسی شہر میں بستے ہیں۔ کراچی کی معیشت کا جنازہ نکلا تو پورے ملک کو رونا پڑے گا۔ صف ماتم کراچی سے خیبر تک بچھے گی۔ آنسو ہر قوم کے نکلیں گے۔پاکستان میں ٹیکس کلچر کراچی میں ایجاد ہوا۔ ساڑھے تین لاکھ ٹیکس دینے والوں میں سے ڈھائی لاکھ کراچی میں ہیں۔ کراچی نے پورے پاکستان کی تعمیر کی ہے۔ پورے ملک کی معیشت کے پہیے کو چلایا ہے لیکن کراچی کی ٹرانسپورٹ کے پہیے کے بارے میں سپریم کورٹ کے ریمارکس کافی ہیں کہ ''1955ء ماڈل کی بسیں کراچی میں چل رہی ہیں‘‘۔ سپریم کورٹ نے حقائق بتا کر اہلیان کراچی اور اہلیان پاکستان پر بہت بڑی مہربانی کی ہے۔ اب ہمارا کام ہے کہ ہم ان مسائل کو حل کریں۔۔۔۔ اور کراچی کے شہریوں کے دکھ اور درد کو دور کریں۔ کراچی کے بارے میں ایک دانشور نے خوب کہا ہے کہ ''کراچی کی مثال اس باپ کی طرح ہے جو اپنے چار‘ پانچ بچوں (صوبے) کو پال سکتا ہے لیکن وہ چار‘ پانچ بچے مل کر بھی ایک باپ کو نہیں پال سکتے‘‘۔