"ISC" (space) message & send to 7575

کراچی کی بارش اور سندھ حکومت

ماضی کا ایک مشہور لطیفہ ہے۔ ایک افغان اور پاکستانی بحث کر رہے تھے۔ پاکستانی نے افغان شہری سے کہا: ''تم لوگوں کے پاس ٹرین نہیں تو ریلوے کی وزارت کیوں رکھی ہوئی ہے؟‘‘ افغان نے جواب دیا: ''تم لوگوں کے پاس بھی تو تعلیم نہیں پھر تمہارے ملک میں اس کی وزارت کا کیا کام ہے‘‘۔
کراچی اور حیدر آباد میں دو روزہ بارش کے بعد محکمہ بلدیات کی ''گمشدگی‘‘ پر ایسی ہی صورتحال نظر آئی۔ بارش کا پانی تو ہر جگہ موجود تھا لیکن وزارت بلدیات کہیں نظر نہیں آئی۔ سندھ کے وزیر بلدیات جام خان شورو کا تو اپنا حلقہ (حیدر آباد) ہی ڈوب گیا۔ وہاں کشتیاں چلنے لگیں‘ لیکن لگتا ہے وزارت بلدیات کی کارکردگی بھی بارش کے پانی میں کہیں بہہ گئی۔ بلدیاتی انتخابات کا بھی کوئی فائدہ نظر نہیں آیا۔ سندھ کے نئے وزیر اعلیٰ نے تبدیلی کی تو بہت باتیں کیں لیکن کابینہ میں پھر وہی پرانے چہرے ان کی تمام باتوں کی نفی کر گئے۔ ایسا لگ رہا ہے ایک سائیں چلا گیا اور دوسرا آ گیا۔
سندھ میں بلدیات کا محکمہ کیا کام کرتا ہے؟ کسی کو معلوم نہیں۔ جو محکمہ بارش کا پانی نہ نکال سکے وہ کراچی اور اندرون سندھ کے عوام کے لئے کون سے ترقیاتی منصوبے بنا سکتا ہے؟ کراچی میں بارش کی چند بوندیں گرتی ہیں اور بس!! پہلے 'کے الیکٹرک‘ اور پھر محکمہ بلدیات عوام کو بارش ہونے کی نہیں روکنے کی دعائیں کرنے پر مجبور کر دیتا ہے۔ 'کے الیکٹرک‘ نے اپنا نام تو تبدیل کر لیا‘ لیکن کارکردگی تبدیل نہیں ہوئی۔ 'کے الیکٹرک‘ کی ڈھٹائی کو بھی ''سلام‘‘ ہے۔ آپ بجلی نہ ہونے کی کمپلین کر دیں۔ کوئی گاڑی نہیں آئے گی‘ لیکن بجلی کا بل ایک مہینہ نہ بھریں اور پھر اس ادارے کی پھرتی دیکھیں۔ وہ انتہائی تیزی کے ساتھ آپ کی دکان‘ دفتر یا گھر بن بلائے مہمان کی طرح پہنچ جائیں گے اور آپ کا بجلی کے ساتھ ''تعلق‘‘ منقطع کر دیں گے۔ عالم اسلام کے سب سے بڑے شہر کراچی میں بجلی کے تار ننگے ہوتے ہیں‘ اس لئے بارش کے بعد ان کا گرنا بھی معمول ہے۔ پورے ملک میں 'کے الیکٹرک‘ کی باز پرس کرنے والا کوئی نہیں۔ نہ وفاق اس سے کوئی جواب طلب کرتا ہے اور نہ ہی سندھ کی حکومت یہ پوچھنے کی زحمت گوارا کرتی ہے کہ کراچی کے شہریوں کو ذہنی اذیت دینے والو!! باز آ جائو!!
کراچی کی شاہراہ فیصل کے علاوہ کوئی ایسی سڑک نہیں جہاں پانی فوری طور پر خشک ہو جائے۔ اس کی بھی دو وجوہ ہو سکتی ہیں۔ یا تو شاہراہ فیصل کا زیادہ تر حصہ کنٹونمنٹ میں آتا ہے یا پھر گاڑیوں کی زیادہ آمد و رفت کی وجہ سے پانی خود بخود ''غائب‘‘ ہو جاتا ہے۔ کراچی کے زیادہ تر علاقے تادم تحریر پانی سے بھرے ہوئے ہیں‘ اور اگر کوئی شہری پانی سے بچ جائے تو کیچڑ میں پھنسنا اُس کا مقدر ضرور بن جاتا ہے۔
ترقی یافتہ ممالک میں ''پلاننگ‘‘ کے محکمے موجود ہیں جو بڑے بڑے شہروں کی پلاننگ کرتے ہیں۔ دراصل وہاں کے حکمران اپنے شہروں سے محبت کرتے ہیں۔ ان کا سسٹم ہے۔ ایک نظام ہے۔ وہ سڑک بنانے سے پہلے اس کے نیچے برساتی نالہ تعمیر کرتے ہیں۔ سیوریج سسٹم‘ پانی‘ ٹیلی فون اور انٹرنیٹ کے تار پہلے ہی ڈالے جاتے ہیں‘ اسی لئے وہاں بارش ہو تو آدھے گھنٹے بعد سڑکیں شیشے کی طرح شفاف ہو جاتی ہیں۔ پکی سڑک پر مٹی کیسے آتی ہے یہ ابھی تک کسی کو سمجھ نہیں آ سکا۔ ہمارے ملک میں تو ''فیملی پلاننگ‘‘ کا محکمہ بھی کامیاب نہیں ہو سکا۔ محکمہ بلدیات سندھ کی تمام تر توجہ صرف پیسہ جمع کرنے پر ہے۔ وزارت بلدیات کو سندھ کا ''کمائو پوت محکمہ‘‘ بھی کہا جاتا ہے۔ اس کی وزارت کے حصول کے لئے سفارش کی ضرورت پڑتی ہے‘ قابلیت کی نہیں‘ حالانکہ اتنی کمائی کے باجود کراچی کے بلدیاتی اداروں کے پاس نہ گاڑیوں کا فیول ہے اور نہ ہی اس کے ملازمین کو وقت پر تنخواہ کی ادائیگی ہوتی ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے جب تبدیلی کی باتیں کی تھیں تو کراچی کے شہری بھی ان سے امید لگا بیٹھے کہ اب کچھ ہونے والا ہے لیکن ایک بارش نے سب کچھ تبدیل کر دیا۔ کچرا پہلے ہی موجود تھا۔ کیچڑ کا اضافہ ہو گیا۔ سڑکیں پہلے سیوریج کے پانی سے بھری ہوئی تھیں اب بارش کا پانی بھی اس میں شامل ہو گیا اور وزیر اعلیٰ کی تبدیلی بھی کراچی والوں کی قسمت تبدیل نہ کر سکی۔
کراچی بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی کو سندھ بلڈنگ کنٹرول اتھارٹی بنا کر محکمہ بلدیات کی ''آمدنی‘‘ کا انتظام کیا گیا۔ اس ادارے کے سابق ڈی جی منظور قادر کاکا پر الزام تھا کہ وہ دو کروڑ روپے روزانہ ''اوپر‘‘ پہنچاتے تھے۔ آپ گھر بنائیں۔ مکان تعمیر کریں۔ پلازہ کھڑا کریں۔ نقشہ منظور کروانے کے لئے اِس ادارے کی ''خدمات‘‘ حاصل کئے بغیر آپ کچھ نہیں کر سکتے۔ یہ رقم پہلے بلدیہ کراچی کو ملتی تھی لیکن اب سندھ حکومت نے اس پر بھی ''قبضہ‘‘ کر لیا ہے۔ کراچی کے بارے میں ہر کوئی کہتا ہے کہ یہ شہر پورے ملک کو چلاتا ہے لیکن خود کراچی کو اللہ ہی چلا رہا ہے۔ اس کے محکموں کی حالت بھی ''غیر‘‘ ہو چکی ہے۔ بعض لوگ تو کہتے ہیں کہ کراچی کو ہی ''غیر‘‘ بنا دیا گیا ہے۔ وزیر اعلیٰ سندھ مراد علی شاہ جب اپنی کابینہ کے ہمراہ مزار قائد پر پہنچے تو
میڈیا سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ میں خود ''کراچی والا‘‘ ہوں۔ لیکن کراچی سے محبت تو عمل سے ظاہر ہو گی۔ کراچی والوں نے بہت باتیں سنی ہیں‘ لیکن کراچی کے شہری اُن پر عملدرآمد کے لئے ترس رہے ہیں۔
ابھی کراچی میں بارش کا پہلا مرحلہ ختم ہوا ہے۔ محکمہ موسمیات نے دوسرے مرحلے کی پیش گوئی کر رکھی ہے‘ لیکن اب تک ایسا نہیں لگ رہا کہ محکمہ بلدیات نے بارش کے پانی کی نکاسی کی کوئی پیشگی منصوبہ بندی کی ہو۔ نہ کراچی کے برساتی نالے صاف ہوئے اور نہ ہی کچرا اٹھایا گیا۔ کسی کو کراچی سے واقعی محبت ہوتی تو اب تک یہ تمام کام ہو چکے ہوتے‘ لیکن افسوس کہ باتیں کرنا جتنا آسان ہے‘ عمل کرنا اتنا ہی مشکل ہے۔ کراچی میں دوبارہ ایسی بارش ہوئی تو رہی سہی کسر بھی پوری ہو جائے گی۔ پیپلز پارٹی کے سابق صوبائی وزیر اور رکن سندھ اسمبلی ساجد جوکھیو کا بھتیجا ملیر ندی میں ڈوب کر ہلاک ہو گیا لیکن اُن کی اپنی پی پی حکومت نے بھی کوئی ایکشن نہیں لیا۔ کراچی کے ندی اور نالے عام دنوں میں کچرا کھاتے ہیں تو بارش کے موسم میں لوگوں کا خون پیتے ہیں۔ اور اس کی تمام ذمہ داری حکومت پر عائد ہوتی ہے۔ سندھ حکومت ''نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے‘‘ پر عمل کرتے ہوئے نہ خود کام کر رہی ہے اور نہ ہی اختیارات نچلی سطح تک منتقل کرکے بلدیاتی نمائندوں کو کام کرنے دے رہی ہے۔ ایسی صورتحال میں لاوارث شہر کراچی کا وارث کون بن سکتا ہے۔ 

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں