"IKC" (space) message & send to 7575

آئینہ اور آئن اسٹائن

"The more I learn, the more I realize how much I don't know." 
کیاآئن اسٹائن اپنے عہد کا سب سے ذہین شخص تھا؟ کیا وہ عظیم نیوٹن سے بھی زیادہ ذہین تھا؟ نیوٹن، جسے مائیکل ہارٹ نے اپنی مشہور زمانہ کتاب The 100: A Ranking of the Most Influential Persons in History میں عظمت کے دوسرے استھان پر فائز کیاتھا، جس کی بابت ممتاز انگزیز شاعر الیگزینڈرپوپ نے کہا تھاـ:''فطرت کے قوانین رات کی تاریکی میںپنہاں ہیں۔ خدا نے کہا: جب نیوٹن آئے گا، تو ہر شے منور ہوجائے گی!‘‘
ممکن ہے،آئن اسٹائن، جو بچپن میں اوسط درجے کا طالب علم تھا، نیوٹن جتنا ذہین نہ ہو، مگر اس کا قول یہ ضرور ثابت کرتا ہے کہ نظریۂ اضافیت پیش کرنے والا یہ سائنس داں، جس کی حس مزاح غضب کی تھی، اور جو بڑی مہارت سے وائلن بجاتا تھا، اس عاجزانہ دانش سے لیس تھا، جو صرف علم کی دین ہے۔ اوریہ اُسی قدیم دانش کا تسلسل ہے، جس کی دل موہ لینے والی جھلک ہمیں 400 قبل مسیح میں یونان میں دکھائی دی تھی، جب علم فلسفہ کے جلیل المرتبت استاد، سقراط نے کہا تھا:''میں ایک بات جانتا ہوں کہ میں کچھ نہیں جانتا۔‘‘
آئن اسٹائن جب اس عظیم استاد کے تجربے سے گزرا، آگہی حاصل ہوئی، تو اُس کی زبان سے جنم لینے والے الفاظ نے سقراط کے سادہ، مگر پراثر قول کو مزید بامعنی بنا دیا۔ وہ ہمیں بتاتا ہے کہ جوں جوں وہ سیکھتا گیا، علم حاصل کرتا گیا، اُس پر عیاں ہوتاگیا کہ ابھی کتنا کچھ ہے، جو وہ نہیں جانتا،کتنا کچھ ہے، جو اُسے سیکھنا ہے۔ٹھیک سقراط کی مانند یہ علم تھا، جس نے آئن اسٹائن کو اپنی لاعلمی کا احساس دلایا۔ 
کلام خدا قرآن حکیم بھی انسان کو بار بار عمل یعنی کائنات پر غور کرنے کا حکم دیتا ہے، تحقیق کی راہ دکھاتا ہے، سر اٹھا کر آسمان کی سمت دیکھنے کی تحریک دیتا ہے کہ جب انسان کائنات کی عظمت، وسعت اور ترتیب پر غور کرتا ہے، تب اُس پر انکشاف ہوتا ہے کہ علم کا سمندر بے کراں ہے۔کتنا کچھ ہے، جس کی اُسے خبر نہیں۔کیا کچھ ہے، جو اس نے اب تک نہیں جانا اور یوں مزید جاننے کی چاہ پیدا ہوتی ہے۔ اولین حکم ''اقرا‘‘ تھا، توایک سبب تھا کہ یہ ''عمل اعظم ‘‘ہے، انسان کو اوروں کے لیے سودمندبناتا ہے۔
لاعلمی کاادراک ایک نعمت ہے۔ اس کے وسیلے انسان میںعاجزی، کشادگی ، بے ساختگی پیدا ہوتی ہے۔ جبر کا زور ٹوٹتا ہے۔دوسرے کا نقطۂ نظر سمجھنے کی صلاحیت جنم لیتی ہے۔یہ وہی روحانی کیفیت ہے، جس کے حصول کے واسطے معروف ہندوستانی مصنف، دیپک چوپڑا نے اپنی بیسٹ سیلر کتاب میں سات اصول قلم بند کیے۔ اس کا چوتھا اصول فطری بے ساختگی کا قانون(The Law of Least Effort) ہے، جہاں آپ چیزوں کو اُن کی فطری حالت میں تسلیم کرلیتے ہیں، حالات کی مکمل ذمے داری قبول کرتے ہیں، اورآپ کے تمام اعمال محبت سے لبریز ہوتے ہیں۔
گو نصابی کتب انسان کو بہت کچھ سکھاتی ہیں، مگر حصول علم زندگی بھر کا سودا ہے۔ مسلسل مطالعہ۔سمجھوتے کی کوئی گنجائش نہیں۔ کوئی بہانہ نہیں۔ اگر دنیا کے عظیم انسانوں کی فہرست پر نگاہ ڈالی جائے، تو احساس ہوتا ہے کہ وہ کتابوں کے فقط شائق ہی نہ تھے، مطالعہ ان کے معمولات کا حصہ تھا۔ غلامی کے تصور پر کاری ضرب لگانے والا ابراہام لنکن، روسی انقلاب کا معمار لینن، برطانیہ کو جنگ عظیم جتوانے والا چرچل، ''میرا ایک خواب ہے‘‘ جیسی لازوال تقریر کرنے والا مارٹن لوتھر کنگ، کیوبا کا انقلابی فیڈل کاسترو۔۔۔سب کتابوں کے رسیا تھے۔یہی معاملہ جناح اور گاندھی کا تھا۔مطالعہ آج بھی ہر امریکی صدر کے معمولات کا جزو ہے۔ عہد حاضر کا امیر ترین آدمی، بل گیٹس سال میں پچاس کتابیں پڑھتا ہے۔ یعنی ہفتے میں ایک کتاب۔ ممتاز ٹی وی میزبان، اوپراونفرے کتابوں کی عاشق ہے۔ تعمیر شخصیت اور مثبت سوچ سے متعلق کتب اس کے مطالعے میں رہتی ہیں،اور وہ ہر ماہ اپنے بک کلب کے ارکان کے ساتھ پسندیدہ کتابوں پر بحث کرتی ہے۔ نامور امریکی بزنس مین مارک کیوبن روزانہ تین گھنٹے مطالعہ کرتا ہے۔جب بیسویں صدی کے کامیاب ترین سرمایہ کار وارن بافیٹ سے کامیابی کا نسخہ پوچھا گیا، تواس نے قریب پڑے کتابوں کے انبار کی سمت اشارہ کیا تھا۔ مشہور ہے کہ وہ روزانہ پانچ سو صفحات پڑھتا ہے۔
تویہ کتابیں ہیں، مطالعہ ہے، جو پہلے مرحلے میں معلومات بنتا ہے، اور جب غور و فکر کی چکی میں مشاہدے اور تجربے کے ساتھ پستا ہے، تو علم بن جاتا ہے اور علم انسان کو احساس دلاتا ہے کہ وہ کس قدر لاعلم ہے۔ اُسے کتنا کچھ مزید سیکھنا ہے۔یوں آئن ا سٹائن کی طرح اُس کا سر عاجزی سے جھک جاتا ہے۔ میرے نزدیک آئن اسٹائن کا قول اِس قابل ہے کہ پاکستانی کا ہر فرد اُسے آئینے پر چسپاں کر دے، تاکہ صبح جب آئینہ دیکھے، تو اُسے اپنے اندر جھانکنے کی تحریک ملے۔۔۔میں نے بھی اپنے آئینے پر آئن اسٹائن کا یہ قول چسپاں کر رکھا ہے، جو کالم ، کہانی اور انٹرویو نگاری کی گوناگوںمصروفیات کے باوجود، اس شہر کے بڑھتے فاصلوں اور بگڑتے موسموں کے باوجود کسی نہ کسی طرح مجھے کتابوں سے جوڑے رکھتا ہے، مطالعے پر اکساتا ہے۔ لکھتے لکھتے کچھ دیر ٹھہر کر میں پڑھنے لگتا ہوں۔ اور جوں جوں پڑھتا جاتا ہوں، لاعلمی کا احساس گہرا ہوتا جاتا ہے۔ 
مجھے قطعی علم نہیں تھا کہ اس زمین پر بسنے والے مسیحیوں نے قیام پاکستان، اس کی تعمیر اور دفاع میں کیا کردار ادا کیا۔ مجھے خبر نہیں تھی کہ پاک فوج کے لیے خدمات انجام دیتے ہوئے ستر مسیحی جوانوں نے اپنی زندگی قربان کی۔اِس کمیونٹی سے تعلق رکھنے والے سات افسروں نے ستارۂ جرات اور تین نے تمغۂ جرات اپنے نام کیا۔ نو ستارۂ بصالت، نو تمغۂ بصالت کے حق دار ٹھہرے۔ پانچ افسران میجر جنرل یا اس کے مساوی عہدوں تک پہنچے۔ چوبیس بریگیڈیر بنے۔مجھے پتا نہیں تھا کہ پاکستان ایئرفورس کے وہ اکلوتے جا نثار، جنھیں دو بار ستارۂ جرات ملا، ایک مسیحی مارون لیسلے تھے۔مجھے ایئر کموڈور نظیر لطیف کی بھی خبر نہیں تھی، جنھوں نے 65 ء اور 71ء کی جنگوں میں جرات اور بہادری کی بے مثال داستان رقم کی۔ 
اِن حقائق کا علم اعظم معراج کی کتابیں پڑھ کر ہوتا ہے۔ ''سبز و سفید ہلالی پرچم کے محافظ و شہید‘‘، دھرتی جائے کیوں پرائے ‘‘اور اب ''شناخت نامہ‘‘، جو خبر دیتی ہے کہ پاکستان میں بسنے والے مسیحی کی اِس دھرتی سے نسبت ہزاروں سال پرانی ہے۔ اس کے اجداد آزادی ہند، قیام، تعمیر اور دفاع پاکستان کا حصہ رہے، اور آج بھی یہ طبقہ زندگی کے ہر شعبے میں اپنا کردار نبھا رہا ہے۔
کراچی سے تعلق رکھنے والے، اعظم معراج، جو پیشے کے اعتبار سے اسٹیٹ ایجنٹ ہیں،اکثریت سے شکوہ کرنے کے بجائے مسیحی برداری کی اِس معاشرے سے بیگانگی ختم کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔ اور اُن کی یہ مخلص کوشش مجھ جیسے قلم کار کواپنی لاعلمی کا احساس دلاتی ہے۔ مزید جاننے پر اکساتی ہے اور اِس کے لیے میں آئن اسٹائن کا شکر گزار ہوں۔

 

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں