"IKC" (space) message & send to 7575

جنگ ابھی جاری ہے!

ویرانی سی ویرانی ہے۔درد سے آنکھ نم ہوئی۔ منظر دھندلا گیا۔
دہشت گردی کے خلاف ہم نے کئی کامیابیاں حاصل کیں۔ ایک بھرپور جنگ لڑی، نہ صرف دشوار گزار پہاڑی علاقوں میں، بلکہ عین شہروں میں، بازاروں اور محلوں میں۔ اور فوج کو اس کا کریڈٹ جاتا ہے۔ بے شک خود کش حملوں میں، ٹارگٹ کلنگ میں، نوگوایریاز میں واضح کمی آئی۔ اس کے باوجود جب جب کوئی بڑا سانحہ ہوتا ہے، مظلوم قتل ہوتے ہیں، گھر اجڑتے ہیں، بچے یتیم، والدین بے سہارا ہوجاتے ہیں، تو دل چِھد سا جاتا ہے۔ 
جھل مگسی سے کیسی کرب ناک خبر آئی۔ درگاہ فتح پور پر قیامت ٹوٹ پڑی۔ سالانہ عرس کے موقعے پر ایک خودکش دھماکا۔ کتنے ہی جسم بے روح ہو گئے۔ کئی گھرانوں میں صف ماتم بجھ گئی۔ یاد رہے، مارچ 2005 ء میں بھی اِس درگارہ کو نشانہ بنایا گیا تھا۔ سانحے کے بعد وہی بیانات سنائی دیے، جو ہم ایک عشرے سے سن رہے ہیں؛ دہشت گرد انسان کہلانے کے لائق نہیں، ان کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، یہ پاکستانی نہیں ہوسکتے۔ صاحب، یہ انسان بھی ہیں، پاکستانی بھی، اورجواز بھی مذہب ہی کو بناتے ہیں۔ گو اُن کی ڈوراسلام دشمنوں کے ہاتھ میں ہے۔
صوفیوں کی درگاہیں، اُن کے مزارات خاص ٹارگٹ ہیں۔ وہاں حملوں کا مقصد فقط دہشت پھیلانا نہیں، بلکہ اس فکر پر ضرب لگانا ہے، اس سوچ کو کچلنا ہے، جن کے صوفی علم بردار تھے۔ یہ اس کشادگی، رواداری اور برداشت کے کلچر پر وار ہے، جن کی بزرگان دین نے ترویج کی۔ یہ محبت کی اس فصل پر درانتی چلانے کی کوشش ہے، جس کے بیج کبھی اِس زمین پر بوئے گئے۔ ہندوستان میں اسلام کی نشر و اشاعت میں صوفیوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ افسوس، آج مذہب ہی کے نام پر ان کی درگاہوں، ان کے عقیدت مندوں کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔ 
یہاں اس دلیر پولیس اہل کار، بہار خان کو خراج تحسین پیش کرنا ضروری ہے، جس نے خودکش حملہ آور کوروکنے کے لیے اپنی جان کا نذرانہ پیش کیا۔ ورنہ نقصان کئی گنا زیادہ ہوتا۔سیہون میں ہم نے یہ منظر دیکھا تھا۔ اپنی زندگی قربان کرنے والا ہر سپاہی ہماراہیرو ہے۔ ان کی تقلید، اُنھیں خراج تحسین پیش کرنا اور ان کے لواحقین کا خیال رکھنا ہم پرفرض ہے۔ 
توبے شک دہشت گردی کے خلاف ہم نے کامیابیاں حاصل کیں۔ البتہ جنگ کا انت ابھی دور ہے۔ دشمن پسپا ہوا ہے، ختم نہیں ہوا۔ اب بھی شہروں میںسلیپر سیل ہیں۔ انتہاپسندوں کے لیے پائی جانے والی ہمدردی اور حمایت بھی ایک تلخ حقیقت۔ ہم یہ دعویٰ کرتے ہیں کہ پاکستانی امن پسند لوگ ہیں، دہشت گردی کے خلاف ہیں، اورمجموعی طور پر یہ موقف درست ہے، مگر یہ بھی ایک سچائی ہے کہ ایک بندوق سیکڑوں افراد کو یرغمال بنا سکتی ہے۔ اسلحے سے لیس تربیت یافتہ دہشت گرد سے مقابلہ کرنا عام شہریوں کے بس کی بات نہیں۔ اوریہ ان کی ذمے داری بھی نہیں ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے ادارے موجود ہیں۔ اس عفریت کے قلع قمع کی ذمے داری بھی اُنہی کے کاندھوں پر ہے، اور اُنھوں نے اس ذمے داری کو نبھانے کے لیے لاتعداد قربانیاںبھی دی ہیں۔ اِس لمحے بھی، جب یہ سطریں لکھی جارہی ہیں، ایک جنگ جاری ہے، مگر اس جنگ کو جیتنے کے لیے چند نکات پیش نظر رکھنے ہوں گے۔ حقائق کو تسلیم کرنا ہو گا۔
پہلا اور اہم ترین نکتہ یہ ہے کہ اس جنگ میں جو وقت اور توانائی ہم عسکری محاذ پر صرف کر رہے ہیں، اتنی ہی سرگرمی نظریاتی محاذ پر بھی درکار ہے۔ معاشرے کو متحرک کرنے کے لیے مذہب اور حب الوطنی سب سے موثرقوتیں ہیں۔ ترقی پذیر ممالک میںان دونوں قوتوں کو حکومتیں اپنے مقاصد کے حصول اور پالیسیوں کے اطلاق کے لیے بہ کثرت کام میں لاتی ہیں۔ اگر یہ مقاصد نیک اور پالیسیاں عوام کے مفاد میں ہوں، تو کوئی اعتراض نہیں۔ بدقسمتی سے پاکستان میں ان قوتوں کو کثرت سے انفرادی اور عارضی مفادات کے لیے برتا گیا۔ حکمران فوجی ہو یا سویلین، دونوں نے خود کو مضبوط کرنے اور اپنے اقتدا رکو طول دینے کے لیے حب الوطنی اور مذہب کو استعمال کیا۔ نتیجہ آج ہمارے سامنے ہے۔ ماضی میں کشمیر کاز اور پھر افغان جہاد کے لیے عسکریت پسندی کو فروغ دیا گیا۔ اول الذکر میں رعایت کا کچھ امکان کہ کشمیر میں آزادی کی جنگ لڑی جارہی ہے، مگر افغان جنگ میں ہم سے بڑی غلطیاں ہوئیں۔
ہم ضیاء دور میںاُس جنگ میں شامل ہوئے۔ یعنی وہ دور ، جب مذہب کے لبادے میں ایک سخت گیر سوچ کو فروغ دیا جارہا تھا، ترقی پسند فکر پر ضرب، آزادیء اظہار پر قدغن لگائی جارہی تھی۔سابق وزیر اعظم کو پھانسی پر چڑھا دیا گیا تھا، صحافی اور سیاسی کارکن، کوڑوں کی سزائیںبھگت رہے تھے۔ اس ماحول نے ہمارے غلط فیصلوں کو مزید گھاتک بنا دیا۔ شاید آپ کے نزدیک کمیونسٹ سوویت یونین کے خلاف امریکا کا اتحادی بننے کا فیصلہ غلط نہ ہو، آپ اُسے حالات کا جبر ٹھہراسکتے ہیں، مگر اس جنگ کے لیے پاکستانی معاشرے کو عسکریت پسندی کی تاریک وادی میں دھکیلنا بہر حال ایک غلط فیصلہ تھا۔ افغان طالبان کی حمایت کو کسی حد تک درست تسلیم کیا جاسکتا ہے، مگر 9/11 کے بعد دہشت گردی کے اس عفریت سے نمٹنے کے لیے فوری اور ٹھوس اقدامات نہ کرنا ایک بڑی غلطی تھی، جس کی پھنکار صاف سنائی دے رہی تھی۔ جب پرویز مشرف اور شوکت عزیز پر حملے ہوئے، ہمیں تب ہی سمجھ لینا چاہیے تھا کہ مستقبل میں کون سا خطرہ ہماری سمت بڑھ رہا ہے۔ اس غفلت کا نتیجہ یہ نکلا کہ اسلام آباد میں لال مسجد واقعہ ہوا، کراچی فرقہ واریت کا گڑھ بن گیا، سوات ہاتھ سے نکلا، آرمی پبلک سکول کا سانحہ ہوا، اور جنگ شہروں میں چھڑ گئی۔
میاں نواز شریف کا ستارہ ضیادور میں چمکاتھا۔ ابتدا میں وہ بے نظیر بھٹو کے مدِمقابل اِسی سوچ کے ترجمان کے طور پر ابھرے۔ البتہ اب انھیںمذہب کو سیاست میں استعمال کرنے کے نقصانات کا اندازہ ہوگیا ہے۔آج ن لیگ خود کو لبرل جماعت کے طور پر پیش کررہی ہے۔ آج احسن اقبال صاحب یہ کہہ رہے ہیں کہ جہاد کا اعلان ریاست کا حق ہے،گلی محلوں میں کفر کے فتووں سے انتشار پیدا ہوگا۔ بات ان کی درست ۔ اور سوشل میڈیا سے متعلق اندیشے بھی صحیح۔ مگر یہ شکوہ کس سے ہے جناب؟ آپ حکومت میں ہیں، وزیر داخلہ ہیں، فوراًقانون سازی کیجیے، ٹھیک ویسے ہی جیسے میاں صاحب کو پارٹی صدر بنانے کے لیے کی تھی۔اگر کالعدم تنظیموں کی سیاست میں آمد خطرناک ہے، تو ان پر روک لگانے کی ذمے داری کس پر عائد ہوتی ہے؟
گزشتہ کچھ عرصے سے بیانیہ کی تبدیلی کی بحث جاری ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اب پاکستانی ریاست نے ایک نیا بیانیہ اختیار کر لیا ہے، جس میں انتہاپسندی کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ اس دعوے پر ہمیں شک نہیں۔ البتہ یہ سوال ذہن میں ضرور کلبلاتا ہے کہ برسوں قبل پرویز مشرف نے روشن خیالی کا جو بیانیہ اختیار کیا تھا، وہ کیوں مثبت اثرات مرتب نہ کرسکا۔
جھل مگسی کا واقعہ اس دشمن کی سمت اشارہ ہے، جس سے ہم نبردآزما ہیں۔ دشمن پروپیگنڈے کو عرصے سے بہ طور ہتھیار استعمال کر رہا ہے۔ وہ ہماری نئی نسل کو برین واش کر چکا۔ اس سے مقابلے کے لیے ہمیں خود کو منظم کرنا ہوگا۔ تعلیم کو ہتھیار بناتے ہوئے اپنے سماجی ادارے منظم کرنے ہوں گے۔ درس گاہوں کے ساتھ مساجد اور مدرسوں کو بھی اِس مقصد میں شامل کیجیے۔ استاد اور خاندان کے سربراہ کو اپنے ساتھ ملا کر یہ جنگ لڑنا ہوگی۔ بھائی چارے اور برداشت پر مبنی وہ امن پسند کلچر بازیافت کرنا ہوگا، جو ہمارا اصل چہرہ ہے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں