ترقی، تبدیلی کے بغیر ناممکن ہے‘ اور جو اپنی فکر تبدیل نہیں کر سکتا، وہ کسی بھی شے کو تبدیل کرنے سے قاصر رہتا ہے۔ (جارج برناڈ شا)
آج جو مناظر ہمارے سامنے ہیں، وہ ہم پہلے بھی دیکھ چکے ہیں۔ سابق وزیر اعظم کا شکوہ نیا نہیں صاحب۔ یہ پہلا موقع تو نہیں، جب وزیر اعظم پاکستان کو نااہلی کا کرب سہنا پڑا۔ یہ عہدہ بدقسمت ہے شاید۔ پاکستانی تاریخ میں کوئی وزیر اعظم اپنی آئینی مدت پوری نہ کر سکا۔ اور میاں صاحب کو یہ کبھی راس نہیں آیا۔ تین بار اس سانحے سے گزر چکے ہیں۔ ایسے میں نااہلی کی مدت کم کروانا کیا دانش مندانہ فیصلہ ہو گا؟
یومیہ درجن بھر خبروں کو جنم دینے والی کشمکش بھی نئی نہیں۔ آصف علی زرداری کی حکومت اور افتخار چوہدری کا رشتہ بھی تلخ رہا۔ روز خبریں بنتی تھیں۔ پرویز مشرف سرکار اور عدلیہ کے درمیان بھی اختلافات رہے۔ ماضی میں جائیں، تو سپریم کورٹ پر حملے کا المیہ ملتا ہے۔ ایک اور جست لگائیں، تو آپ بھٹو کیس کے روبرو ہوں گے۔ اگلی جست میں جسٹس منیر کے نظریۂ ضرورت تک جا پہنچیں گے۔ فیڈرل شریعت کورٹ کے سابق چیف جسٹس حاذق الخیری کے بہ قول؛ وہیں سے بگاڑ کا آغاز ہوتا ہے۔
اپوزیشن کی جانب سے حکومت گرانے کی کوششیں بھی وہی پرانی ہیں۔ جب جب حکومت لڑکھڑا تی ہے، اپوزیشن پارٹیاں اختلافات بھول کر احتجاج کی راہ پر چل پڑتی ہیں۔ اچھا، ان احتجاجی تحاریک پر مخصوص چھاپ کا الزام بھی نیا نہیں۔ آج ن لیگ یہ الزام پی ٹی آئی پر عائد کر رہی ہے، کبھی پیپلز پارٹی یہی الزام ن لیگ پر تھوپا کرتی تھی۔ 73ء کا آئین بنانے والے ذوالفقار علی بھٹو پی این اے کی جس تحریک کی زد میں آئے، اس کی بابت بھی بہت سوں کی یہی رائے تھی۔ پروفیسر غفور احمد سے آخر کے برسوں میں ہماری چند ملاقاتیں رہیں۔ وہ حکومت سے مذاکرات کرنے والی تین رکنی کمیٹی کا حصہ تھے۔ پروفیسر صاحب بتایا کرتے تھے کہ ایک جانب بھٹو صاحب سے مذاکرات ہو رہے تھے، دوسری طرف ولی خان سمیت پی این اے کے قائدین اس عمل کو لاحاصل ٹھہرایا کرتے کہ انھیں یقین تھا، جلد حکومت کا تختہ الٹ جائے گا۔
بات دُور نکل گئی، موقف ہمارا یہ کہ اِس سمے پاکستان میں جو مناظر دکھائی دے رہے ہیں، چاہے وہ پیشی بھگتتے سیاست داں ہوں، نئی خارجہ پالیسی کے نعرے ہوں، تبدیلی کے وعدے ہوں یا ملک کے ناقابل تسخیر ہونے کے دعوے؛ اِن میں تازگی مفقود ہے۔ جناب، معیشت کے استحکام، غربت کے خاتمے، نئے ریاستی بیانیے اور ملک کے ترقی کی راہ پر گامزن ہونے کا مژدہ ہم پہلے بھی سن چکے ہیں۔ دراصل ہم سات عشروں سے خود کو دہرا رہے ہیں۔ ایک جیسے اقدامات، ایک جیسی غلطیاں۔ اِسی باعث وہی ناکامیاں، وہی نتائج ہمارے سامنے آ رہے ہیں، جو ہم پہلے بھی بھگت چکے ہیں۔ تاریخ خود کو نہیں دہراتی۔ یہ آدمی ہے، جو یکساں فیصلے کرتا ہے، اور الزام تاریخ پر تھوپ دیتا ہے۔
اس پورے عمل میں، اس روایتی ہلچل میں، جس شے کی شدت سے کمی محسوس ہوتی ہے، وہ ہے: تبدیلی! حقیقی تبدیلی کی راہ میں آج سیاسی، سماجی اور فکری جمود پتھریلی رکاوٹ بنا کھڑا ہے۔ اس جمود کو جاگیرداری اور اشرافیہ کے گٹھ جوڑ اور بار بار لگنے والے مارشل لاز نے قوت فراہم کی۔ کرپٹ اور نااہل سیاست دانوں کو ضرور کوسیں، مگر یہ حقیقت بھی پیش نظر رہے کہ اس نوع کے بیشتر سیاست دان فوجی حکومتوں کی پیداوار ہوتے ہیں۔ ان کا مشن پورا کرنے کا عہد کرتے ہیں‘ اور پھر کبھی اِس آسیب سے جان نہیں چھڑا پاتے۔ مثالیں ہمارے سامنے ہیں!
تبدیلی کے لیے فلسفی، مفکرین، قائدین یوں تو کئی اصول، کئی راستے تجویز کرتے ہیں، مگر چند بنیادی طریقے ہیں، جنھیں انسانی تاریخ میں متعدد بار آزمایا گیا۔ ایک طریقہ ہے، مضبوط قیادت کا سامنے آنا، جس کی تقلید کرتے ہوئے عوام منزل کو پا لیں۔ یہی قیادت کبھی قدیم ہندوستان اور ایران کے روایتی مذہبی معاشروں میں گوتم بدھ اور زرتشت کی صورت ظاہر ہوئی تھی۔ دور جدید میں امریکا میں ابراہام لنکن، روس میں لینن اور چین میں مائو اس کی بڑی مثالیں ہیں۔ پاکستان میں قائد اعظم پہلی اور آخری مثال تھے! دوسرا طریقہ ہے، خونیں انقلاب۔ یہ طریقہ بدلائو تو لاتا ہے، مگر اس کی قوت نظام کی مثبت اقدار کو بھی تلپٹ کر دیتی ہے، اور یوں تبدیلی کا خواب شرمندہ تعبیر نہیں ہوتا۔ اس ضمن میں موثر ترین طریقہ، جو عہدِ جدید میں قابل قبول بھی ہے، اور پسندیدہ بھی، تعلیم ہے۔ جی، عظیم نیلسن منڈیلا بھی اپنی طویل جدوجہد کے بعد اسی نتیجے پر پہنچا تھا۔ کہتا ہے: ''تعلیم ہی وہ موثر ترین ہتھیار، جو آپ تبدیلی کے لیے استعمال کر سکتے ہیں۔‘‘
پاکستان میں نظامِ تعلیم جن مسائل سے دوچار، اُس کے بیان کے لیے الگ دفتر درکار ہے۔ اساتذہ بے وقعت۔ درس گاہیں خستہ حال۔ تعلیم جیسی بنیادی سہولت کاروبار بن گئی ہے۔ نسلیں تباہ ہوتی رہیں، حکمرانوں کی آنکھوں کے سامنے مفادات کا پردہ پڑا رہا۔ اگر آج اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوان دہشت گردی کی طرف مائل ہو رہے ہیں، تو قصوروار وہ لوگ ہیں جنہوں نے عسکریت پسندی کے بیج بوئے، مگر اُن سے پھوٹنے والے زہریلے خود رو پودوں کی صفائی پر توجہ نہیں دی، جنھوں نے ہمارے شعور کو ڈھانپ لیا۔ اِنہی پودوں سے دہشت گردی کے عفریت نے سر اٹھایا۔ ساٹھ ہزار جانیں ضائع ہوئیں، جن میں سات ہزار کے لگ بھگ فوجی جوان تھے۔
آپریشن ضرب عضب اور ردالفساد نے بے شک بڑی کامیابیاں حاصل کیں۔ دہشت گردی میں کمی آئی۔ عسکریت پسندوں کا نیٹ ورک ٹوٹا، مگر جنگ ابھی ختم نہیں ہوئی۔ فوجی آپریشن کے ساتھ ایک طویل مدتی نظریاتی آپریشن درکار‘ اور اس کے لیے وہی ہتھیار استعمال کرنا ہو گا، جسے نیلسن منڈیلا نے موثر پایا‘ یعنی تعلیم۔ ہمیں تعصب اور پروپیگنڈے سے پاک، حقائق بیان کرتا، نئی نسل کو اکیسویں صدی کے چیلنجز کے لیے تیار کرتا نصاب درکار ہے‘ جو بچوں کو سوچنے پر اُکسائے۔ طلبا کو ملازمتیں تلاش کرنے کے بجائے اپنا مقصد کھوجنے، ہنر مند اور معاشرے کے لیے کارآمد بننے کی تحریک دے۔ جی ہاں، نصاب ہی وہ آلہ ہے، جو تبدیلی کا محرک بنتا ہے، اور ارتقا کی راہ ہموار کرتا ہے۔ نئے ریاستی بیانیے کا اطلاق نصاب ہی کی معاونت سے ممکن ہے۔ اور کوئی صورت نہیں۔
ماضی کی غلطیوں کا ہم انتہا پسندی کی صورت اب تک عذاب بھگت رہے ہیں۔ ایسے میں جب امریکہ میں ٹرمپ حکمران ہے، عرب دنیا تقسیم ہو چکی ہے، افغانستان میں خلفشار پھیلا ہے، بھارت آپ کی چین سے بڑھتی قربت میں نقب لگانے میں جٹا ہے، ہمیں روز روز جنم لینے والی لاحاصل سیاسی الجھنوں سے نکل کر اپنے نظام تعلیم اور نصاب پر سنجیدگی سے توجہ دینی ہو گی۔ اگر ہم نے ایسا نہیں کیا، تو پھر نہ تو نیا اپوزیشن لیڈر کسی کام آئے گا، نہ ہی میاں صاحب کی واپسی سے کچھ حاصل ہو گا، اور نہ ہی عمران خان کے وزیر اعظم بننے سے تبدیلی آئے گی۔ آنے والے برسوں میں بھی وہی مناظر ہمارا نصیب بنیں گے، جو آج آنکھوں کے سامنے رقصاں ہیں۔
تصویر سخن: ''سچا تخلیق کار اِس بات کا حق دار ہے کہ موت کے بعد بھی اُسے یاد رکھا جائے۔‘‘ ادبی جریدے ''اجرا‘‘ کے بانی مدیر، ممتاز شاعر، احسن سلیم کے یہ الفاظ آج بھی میری سماعتوں میں گونجتے ہیں۔ نثری نظم کو وقار بخشنے والے اس منفرد تخلیق کار کو، جسے قمر جمیل نے ایک لیجنڈ قرار دیا تھا، ہم سے بچھڑے ایک برس ہو گیا۔ احسن سلیم کے مخلص دوستوں نے ایک سچے تخلیق کار کے مانند اُسے یاد رکھا۔ اسی محبت کا دل پذیر نتیجہ مرحوم کی کلیات ''تصویر سخن‘‘ کی صورت برآمد ہوا، جو بلاشبہ 2017ء کا ایک اہم ادبی واقعہ ہے۔ اِس کتاب کی بازگشت، مجھے یقین ہے، کئی برس تک سنائی دیتی رہے گی۔