"IKC" (space) message & send to 7575

دعووں کی سائنس

دن بھر شہر میں گرم، دھول زدہ جھکڑ چلتے۔ شام پڑنے پر جب سمندری ہوائیں گلیوں میں اترتیں، تب ساحلی شہر کچھ قابل برداشت ہو جاتا۔ اور وہ سڑکیں، جو مرکزی گزرگاہوں سے دور ہیں، وہاں کسی پرسکون گوشے میں۔۔۔ چائے کی پیالی پر مکالمے کا امکان جنم لیتا۔
یہ وزیر خزانہ اسحاق ڈار کی بجٹ تقریر سے کچھ روز پہلے کا تذکرہ ہے، جب اسلامی کانفرنس سے جڑے مباحث پر مانچسٹر دھماکا غالب آنے کو تھا، اور ہندوستانی فکشن نگاروں میں مستنصر حسین تارڑ کا ایک حالیہ انٹرویو موضوع بحث بننے والا تھا۔۔۔ تب ایک شام چند صحافی ڈیفنس کے ایک پرسکون قہوہ خانے میں اکٹھے ہوئے، تاکہ چائے کی پیالی پر سیاست سے متعلق، مسلم دنیا کی ایران اور سعودی بلاک میں تقسیم اور پاناما لیکس سے متعلق، اپنا آہنگ بلند کیے بغیر، تبادلۂ خیال کر سکیں۔ 
اُس شا م کراچی کے سیاسی منظر پر چھائی دھند، جسے ٹکڑوں میں بٹی ایم کیو ایم کی ریلیاں اور جلسے بڑھاوا دے رہے ہیں، زیر بحث آئی، تو ایک فاضل دوست نے، جو باخبر تجزیہ کاروں تک رسائی رکھتے ہیں، ماضی میں کراچی آپریشن کی قیادت کرنے والے جنرل بلال اکبر اور جنرل نوید مختار کے موجودہ عہدوں کا بالخصوص تذکرہ کیا۔ اول الذکر ڈی جی رینجرز سے چیف آف جنرل اسٹاف ہوئے، دوسرے کور کمانڈر کراچی سے ڈی جی آئی ایس آئی۔۔۔ یعنی کراچی آپریشن کا تسلسل برقرار ہے۔ یہ موضوع بھی زیر بحث آیا کہ پی ایس پی کی آمد کے وقت مقتدر حلقوں کی سپورٹ کا جو تاثر ابھرا تھا، وہ گو ختم نہیں ہوا، مگر تھوڑا کمزور ضرور پڑا ہے۔ پرامن سیاسی سرگرمیوں کے لیے ماحول بن رہا ہے، فاروق ستار گروپ کو آہستہ آہستہ وہ ''اسپیس‘‘ دی جا رہی ہے، جس کا وہ 22 اگست کے بعد تقاضا کر رہے تھے۔ ہاں، نگرانی جاری رہے گی۔ چند سینئر تجزیہ کاروں کا خیال ہے کہ فاروق ستار اب بھی لندن قیادت سے رابطے میں ہیں۔ ممکن ہے، ایسا ہو، لیکن اگر الیکشن 2018 تک لندن گروپ کو موجودہ پابندیوں کا سامنا رہا، تب ایم کیو ایم کا نام اور پتنگ کا نشان فاروق ستار گروپ کی طاقت بن سکتا ہے۔ اچھا، وزیر اعظم بھی فاروق ستار کے لیے نرم گوشہ رکھتے ہیں۔ شاید وہ ایم کیو ایم پاکستان کو ممکنہ اتحادی کے طور پر دیکھ رہے ہوں۔ وقت کا بھی یہی تقاضا ہے۔ سندھ اور دیگر صوبوں میں ہونے والے ن لیگ کے حالیہ جلسے بے سبب نہیں۔ بے شک پلہ اُن کا بھاری ہے، لیکن اگلے الیکشن میں 2013 کی کارکردگی دہرانا ذرا مشکل ہو گا۔ اپوزیشن حرکت میں آ چکی ہے۔ میاں صاحب کے لیے نئے اتحادی ضروری۔ 
دورانِ گفتگو ایک نوجوان نے ہمارے گزشتہ کالم کا حوالہ دیتے ہوئے یہ تو تسلیم کیا کہ جس تذبذب کا ہم بہ طورِ قوم شکار ہیں، وہ ہمیں مسلسل تقسیم کر رہا ہے، مگر ساتھ یہ شکوہ بھی کیا کہ تحریر وہ کچھ قنوطیت والی تھی، آج ہمیں امید درکار ہے۔۔۔ ایک زاویے سے تو یہ شکوہ درست ہے، مگر یہ نکتہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ مسائل کی نشان دہی اُن کے حل کی جانب پہلا قدم ہے۔ غیر ضروری رجائیت پسندی کا شکار ہو کر مسائل کی شدت گھٹانا مسائل کو مزید قوت فراہم کرنے کے مترادف ہے۔ مثلاً مذہبی طبقے کا یہ اعتراض تو درست کہ ہمارے لبرل حساس ملکی مسائل کی جس شدت سے نشان دہی کرتے ہیں، اس سے بین الاقوامی سطح پر ملکی امیج متاثر ہوتا ہے، مگر اس دلیل کی بنیاد پر مسائل سے صرف نظر بھی ممکن نہیں۔ کاروکاری، خواتین کو زندہ درگور کرنا، ان کی آبرو ریزی، بچوں کا جنسی استحصال، اقلیتوں کے ساتھ زیادتی، قوانین کا غلط استعمال؛ یہ سب ایک تلخ حقیقت ہے، جن کی نشان دہی ضروری۔ اور نشان دہی کرنے والوں کو غدار اور غیرملکی ایجنٹ کہنا فقط فکری اتھلا پن۔
جہاں تک ترقی کے بے انت دعووںکا معاملہ ہے، پہلے بھی لکھا، تمام دعو ے دار نہیں، مگر ان کی اکثریت یا تو عوام کو دھوکا دے رہی ہوتی ہے، یا پھر خود غلطی فہمی کا شکار ہو جاتی ہے۔ مثلاً ممتاز مفتی جب پاکستان کے سورج کی مانند دمکنے کی پیش گوئی کرتے تھے، تو نیت اُن کی ضرور نیک رہی ہو گی، مگر اس پیش گوئی کے کچھ ہی برس بعد مشرقی پاکستان ہم سے الگ ہو گیا۔ ان جذباتی مگر مقبول قلم کاروں کو بھی رعایت دے دیجیے، جو تواتر سے طالبان کی فتح کے دعوے کرتے رہے۔ سیاست تجزیوںکی بنیاد پر ذہانت کے ساتھ، وقت پر کئے جانے والے اقدامات کا نام ہے۔ بڑی جماعتوں سے عشروں سے وابستہ سینئر سیاست دانوں کے تجزیے شاذ ہی غلط ثابت ہوتے ہیں۔ البتہ اُنھیں اپنے حواریوں، حامیوں اور ووٹرزکے لیے کثرت سے ایسے پاپولر بیانات داغنے پڑتے ہیں، ایسے دعوے کرنے پڑتے ہیں، جن کی بابت اُنھیں خود بھی خبر ہوتی ہے کہ وہ کبھی حقیقت کا روپ نہیں دھار سکیں گے۔ 
ایک مثال پیش خدمت ہے: 2013 کے انتخابات سے قبل جب ہم سیاست دانوں کے انٹرویوز کر رہے تھے، تب امیر جماعت اسلامی، جناب منور حسن کا بھی ایک طویل انٹرویو کیا۔ گو جماعت کے کارکن پرجوش تھے، مگر یہ واضح تھا کہ سوائے خیبر پختون خوا کے جماعت کے لیے اُس نوع کی کامیابی حاصل کرنا ممکن نہیں، جیسی اُسے ایم ایم اے کے زمانے میں ملی تھی۔ دوران انٹرویو منور صاحب سے یہ سوال بھی کیا کہ ایک منظم پارٹی ہونے کے باوجود جماعت کی انتخابی سیاست میں اوسط درجے کی کارکردگی کا کیا سبب ہے؟ اور کیا جماعت کی نوجوان قیادت کے ذہن میں کوئی متبادل راستہ ہے؟ (یہ سوال اس تناظر میں پوچھا کہ اس زمانے میں کچھ حلقوں نے عسکریت پسندی سے انقلابی امیدیں وابستہ کر لیں تھیں، اور کچھ کو طاہرالقادری کے دھرنے کا راستہ بھا گیا تھا!) اُنھوں نے تسلیم کیا کہ نوجوان قیادت کی جانب سے یہ مطالبہ کیا جاتا ہے کہ اگر الیکشن سے متوقع نتائج سامنے نہیں آ رہے، تو کوئی اور راستہ اختیار کیا 
جائے۔ ہم نے پوچھا: اگر حالیہ انتخابات سے متوقع نتائج نہیں آتے، تو کیا ہو گا؟ انھوں نے ایک لمحہ ضائع کیے بغیر اپنے مخصوص انداز میں کہا: ''اگر ایسا ہوا، تو احتجاجاً لاکھوں لوگ سڑکوں پر نکل آئیں گے، جنھیں کنٹرول کرنا ممکن نہیں ہو گا۔‘‘ 
الیکشن ہوئے، اور ہم نے دیکھا، جماعت اسلامی جن نتائج کی خواہش مند تھی، وہ حاصل نہیں ہوئے، مگر کوئی سڑکوں پر نہیں نکلا، بلکہ جماعت اطمینان سے خیبر پختون خوا حکومت کا حصہ بن گئی۔ یعنی وہ تجزیہ غلط ثابت ہوا۔۔۔ اب یہاں کچھ دیر ٹھہر کر ماضی میں چلتے ہیں۔ 77-78ء میں، جب بھٹو صاحب پر مقدمہ چل رہا تھا، تب کراچی کے ایک لیکچرر اور ادیب نے ایک نجی محفل میں منور صاحب سے بھٹو کے مستقبل کی بابت سوال کیا۔ جواب مختصر، مگر مکمل تھا۔ اُنھوں نے دو انگلیوں سے گردن کی جانب اشارہ کر دیا۔ وہ بات من و عن درست ثابت ہوئی۔ اِن دو واقعات سے بہ آسانی اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ نجی محافل کے برعکس عوامی پلیٹ فارم پر کیے جانے والے دعووںکا غلط ثابت ہونا نہ صرف امکانی ہوتا ہے، بلکہ اس سے سیاست دان کی ساکھ پر بھی کوئی فرق نہیں پڑتا۔ 
یہ برسوں پرانا کلیہ آج بھی کارگر ہے۔ جب ہمارے سیاست دان پاکستان کو ایشین ٹائیگر بنانے، کشکول توڑنے، انقلاب لانے، نیا پاکستان بنانے، سڑکوں کے جال بچھانے، مخالفین کو گھسیٹنے، لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کے دعوے کرتے ہیں، تو یہ تجزیے کی بنیاد پر کیے جانے والے ٹھوس نہیں، فقط پاپولر دعوے ہوتے ہیں، جو ووٹرز کو لبھاتے ہیں، خبر بنتے ہیں، زیر بحث آتے ہیں، مگرکبھی حقیقت کا روپ نہیں دھارتے۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں