صاحبو، جب عدالتی کارروائی خبروں کا محور بنی ہو، جب اخبارات اور ٹی وی چینلز پر وارنٹ گرفتاری اور فرد جرم کا چرچا ہو، شریف خاندان میں اختلاف، اداروں میں فاصلہ حقیقت بن چکا ہو، بازیاب کروائے جانے والے غیر ملکی جوڑے سے متعلق انکشافات ہو رہے ہوں، اور پاکستان سری لنکا سے ٹیسٹ میچزکی ناکامی کا بدلہ لے چکا ہو، ایسے میں یہ کسی طور سہل نہیں کہ عوامی دل چسپی کے اِن موضوعات کو، جن سے بلا کی سنسنی خیزی اور تجسس جڑا ہے، چھوڑ کر کسی اور دنیا کا رخ کیا جائے، کسی اور موضوع کا انتخاب کیا جائے، مگر آج۔۔۔ یہ مجھ پر لازم ہے۔
یہ گوتم بدھ ہے، جس کی سوانح حیات کا میں گرویدہ ہوں۔ عام طور پر آپ کسی عظیم لیڈر، جیسے اتا ترک یا نیلسن منڈیلا، کی ایک دو بائیوگرافی پڑھ کر مطمئن ہو جاتے ہیں، مگر بیری کے سائے تلے نروان پانے والے اس شخص سے میری روح کا عجب رشتہ ہے۔ گو میں خواہش ترک کرنے کے فلسفے کو قابل عمل نہیں پاتا، مگر یہ امر بدھ سے میری عقیدت کم کرنے میں ناکام رہتا ہے۔ اور ایسے معاشرے میں‘ جہاں مطالعے کو وقت کا ضیاع تصور کیا جاتا ہے، میں اس کی سوانح حیات ڈھونڈ ڈھونڈ کر پڑھتا ہوں۔ اِس دانا کی زندگی کے چند اسرار مجھ پر گرو رجنیش کے لیکچرز سے کھلے، اور چند غور و فکر سے، جس کے لیے آسن جمانا پڑا۔ جاتک کتھائوں سمیت گوتم بدھ کی زندگی سے کئی حکایتیں اور کہانیاں جڑی ہیں، اور یہ فقط سبق آموز نہیں، اِن میں سے چند میں بہت گہرے رمز ہیں۔ جیسے یہ حکایت کہ جب بدھ اپنے بھکشوئوں کے ساتھ کسی گائوں میں جاتا، تو مخالفین اکٹھے ہو کر اُسے برا بھلا کہنے لگتے۔ کوستے، گالیاں دیتے، اور جواب میں۔۔۔ وہ مسکراتا رہتا۔ وہ لعن طعن سے تھک جاتے، مگر بدھ کی مسکراہٹ قائم رہتی۔ اور تب بھکشو پوچھتے: '' یہ کیسے ممکن ہے، یہ لوگ گالیاں دے رہے ہیں، اور آپ مسکرا رہے ہیں؟‘‘ تو شاکیہ منی جواب دیتا: ''میرے فرزند، میں انھیں وہی کچھ پیش کر سکتا ہوں، جو میرے پاس ہو‘‘۔
اس طرح کی ایک اور دل پذیر حکایت بھی ہے۔ کہتے ہیں، جب بدھ جنگل سے گزرتا تھا، تو درختوں پر پھول کھل اٹھتے، گو وہ پھولوں کے کھلنے کا موسم نہیں ہوتا تھا۔ یہ بہت خوبصورت حکایت ہے، جس میں یہ پیغام پوشیدہ کہ انسان، مفادات اور مادیت پرستی کی عینک کے باعث، سچائی کو پہچانے میں غلطی کر سکتا ہے، مگر پھول اور پتھر نہیں، کنکریاں اور بادل نہیں۔ وہ فطرت سے ہم آہنگ ہوتے ہیں، اور فطرت کی کامل علامت کو، گیانیوں، صوفیوں اور درویشوں کو پہچاننے میںکبھی نہیں چوکتے۔ یہ ہستیاں محبت سے لبریز ہوتی ہیں، جو کائنات کے ہر شخص سے محبت بانٹتی ہیں، چاہے انسان ہوں، پرندے یا پھول۔ اور پھر وہ اسی محبت کے سہارے صدیوں تک زندہ رہتی ہیں۔ نثری نظم کے ممتاز شاعر، میرے دوست، میرے محسن، احسن سلیم نے۔۔۔ سہ ماہی اجراء کے بانی مدیر احسن سلیم نے جو محبت بانٹی، اس کا مظاہرہ شہر قائد نے 14 اکتوبر کی شام، فاران کلب میں منعقدہ پُروقار تقریب میں دیکھا، جہاں اِس بے بدل تخلیق کار کی کلیات ''تصویر سخن‘‘ اور سہ ماہی اجرا کے سلور جوبلی نمبر کی تقریبِ رونمائی ہو۔ شکیل عادل زادہ صدر تھے، صابر ظفر، ڈاکٹر یونس حسنی، بیگم بلقیس کشفی جیسی شخصیات نے اظہار خیال کیا۔ شہر کی ممتاز علمی و ادبی شخصیات سامعین میں موجود تھیں۔ ''تصویرِ سخن‘‘ جیسا میگا پراجیکٹ احسن سلیم مرحوم کے مخلص دوستوں شاہین نیازی اور ایاز محمود کے وسیلے مکمل ہوا، جن کی میدان ادب میں اپنی خدمات بھی تسلیم شدہ ہیں۔ ان صاحبان نے یہ اہتمام بھی کیا کہ اشاعت سے قبل ہی کلیات کی سو کاپیاں فروحت کر دی جائیں، اور یہ رقم مرحوم کے اہل خانہ کو پورے احترام کے ساتھ پیش کی جائے۔ نثری نظم پر اعتراض کرنے والے اگر احسن سلیم کی نظمیں پڑھ لیں، تو اُنھیں اِس صنف کا جواز مل جائے۔ مرحوم نے ماورائیت اور روحانیت کو اپنی فکر اور اسلوب میں گوندھ کر اِس ڈھب پر پیش کیا کہ ایک نیا آہنگ سامنے آیا۔ مجھے یقین ہے کہ ''تصویر سخن‘‘ اِس صاحب اسلوب شاعر کے قد و قامت کے تعین میں معاون ثابت ہو گی۔
اچھا، 14 اکتوبر ہی کے گرم دن۔۔۔ اُسی دن جس کی شام احسن سلیم کے نام ہونی تھی، ایک عجیب واقعہ اور ہوا۔
اِس عہد کے مقبول ترین لکھاری کے مداح ایک جگہ اکٹھے ہوئے، اس کی کتابوں سے اپنے من پسند اقتباسات پڑھ پڑھ کر سرشار ہوئے، اُس سے جڑی یادیں ایک دوسرے سے بانٹیں، اور اس کی نسبت سے ایک دوسرے سے محبت سے پیش آئے۔ اب میں اپنے دوسرے محسن کا ذکر کر رہا ہوں۔ ایک زندہ انسان کا، ایک چلتی پھرتی اساطیر کا، مستنصر حسین تارڑ کا۔ اردو ادب کی تاریخ میں جو محبت، مقبولیت اور رسائی تارڑ صاحب کے حصے میں آئی، جس دیوانگی سے اُن کی تحریریں پڑھی گئیں، جس عقیدت سے اُن کا تعاقب ہوا، اس کی مثال ملنا مشکل ہے۔
ایک ایسے زمانے میں، جہاں ہمارے ادیبوں کی اکثریت ناقدری پر شاکی، حکومت سے نالاں، ناشروں سے ناراض ہے، ایک ایسا ادیب بھی ہے، جس کی کتابیں ہاتھوں ہاتھ لی جاتی ہیں۔ لٹریچر فیسٹیول میں سیشن ہو، تو مداح امڈ آتے ہیں۔ آٹو گراف کے لیے لائن لگ جاتی ہے۔ فیس بک پر 70 ہزار سے زائد افراد اُنھیں فالو کرتے ہیں۔ مداحوں نے ''ریڈرز کلب‘‘ بنا رکھا ہے، جہاں اُن کی تخلیقات کا تذکرہ، تجزیہ ہوتا ہے۔
گیبرئیل گارشیا مارکیز نے کہا تھا ''میں چے گویرا سے متعلق ہزار سال تک لاکھوں الفاظ لکھ سکتا ہوں!‘‘ میں مستنصر حسین تارڑ سے متعلق اس نوع کا کوئی دعویٰ تو نہیں کرتا، مگر یقین رکھتا ہوں کہ میرے پاس چند دل چسپ کہانیاں ہیں۔ جس زمانے میں ہم نے فکشن پڑھنا شروع کیا، اُس وقت ہمارے ذہن میں اُن کی تصویر ایک باکمال سفرنامہ نویس کی تھی۔ بے خبر تھے کہ وہ ''بہائو‘‘ جیسا شاہ کار ناول لکھ چکے ہیں۔ بھلا ہو ڈاکٹر ممتاز احمد خان کا، جنھیں تنقید نگاروں والی نرگسیت چھو کر بھی نہیں گزری، جنھوں نے موئن جودڑو کے زمانے کو منظر کرتے اِس ناول کا تذکرہ کیا۔ یہ وہ زمانہ تھا ، جب مجھے صحافت میں چند برس ہو گئے تھے، خود بھی فکشن لکھنے لگا تھا، ٹالسٹائی اور ڈکنز سے واقف تھا، اور آگ کا دریا، آنگن، اداس نسلیں، بستی اور راجہ گدھ پڑھ چکا تھا۔ یعنی کسی سے مرعوب ہونے کو تیار نہ تھا، مگر اس ناول نے مجھے خس و خاشاک کر دیا۔ داستان گوئی اور زندہ دلی پنجاب کے خمیر میں ہے، تارڑ اُسی خمیر سے گندھے ہوئے ہیں۔ بعد میں اِس فسوں گر ادیب سے کئی ملاقاتیں ہوئیں۔ چند انٹرویوز بھی کیے، جن میں سے ایک یادگار انٹرویو احسن سلیم نے بڑے اہتمام سے اجرا میں شایع کیا ۔
تو تارڑ کے عشاق نے ''تکیہ تارڑ‘‘ کے نام سے ایک گروپ بنا رکھا ہے، جس کے تحت وہ مختلف شہروں میں۔۔۔ کبھی میوزیم، کبھی لائبریریوں، کبھی پارک، کھنڈر، دریا کنارے، پہاڑ کی چوٹی پر اور کبھی ایک سے دوسرے شہر کی سمت جاتی بس میں اکٹھے ہوتے ہیں۔ تارڑ صاحب کی کتابوں سے اقتباسات پڑھتے ہیں۔ ایسا ہی ایک ایونٹ 14 اکتوبر کی گرم دوپہر منعقد ہوا، جہاں ہم نے اِس ہر دل عزیز مصنف کو یاد کیا، اور خوب یاد کیا۔
صاحبو، خواہش تو یہی تھی کہ مقدمات پر، شریف خاندان میں اختلافات پر، شیخ رشید کے جلسے پر، پاکستان کی جیت پر قلم اٹھایا جائے، مگر 14 اکتوبر کے گرم دن کا تذکرہ مجھ پر لازم تھا کہ اُس سے دو زندہ انسانوں کی یاد جڑی ہے۔ اور یوں بھی، بدھ کی مانند ہر قلم کار وہی کچھ پیش کر سکتا ہے، جو اُس کے پاس ہو۔