آدھا سچ

ہوش سنبھالنے سے سنتے آئے ہیں کہ پاکستان نازک دور سے گزر رہا ہے۔ بار بار سنے جانے کی وجہ سے یہ فقرہ اپنی معنویت کھو بیٹھا ہے لیکن ملک میں لگی طرح طرح کی آگ نے اس فقرے کو نئی زندگی دے دی ہے۔ یہ فقرہ اب صرف رائے ہی نہیں رہا‘ بلکہ سچ بن چکا ہے کہ دنیا بھر میں انسانی ترقی اور خوشحالی کے ہر پیمانے پر ہماری آخری پوزیشن اور ہر منفی اعشاریے میں وطنِ عزیز کی پہلی پوزیشن اس اَمر کا بین ثبوت ہے کہ بہت کچھ غلط ہو رہا ہے۔ ایسا کہنا کلیشے نہیں ہے کہ اب وقت آ گیا ہے کہ ہمارے سماجی، سیاسی اور مذہبی رہنما قوم کو اپنے گریبان میں جھانکنے کی اور معروف زباں میں اپنی منجی تھلے ڈانگ پھیرنے کی تعلیم و ترغیب دیں لیکن یہ کام تب ہی ہو سکتا ہے جب ہمیں کوئی رہنما نصیب ہو۔ کیا ہمارے موجودہ رہنما، رہنما کہلانے کے حقدار ہیں؟ المیہ ہے کہ تاریکی کے سفر میں ڈوبتی ہماری قوم کیلئے راستہ دکھانے والا اور اُمید دلانے والا بھی کوئی نہیں ہے۔راولپنڈی کے واقعہ نے عشروں سے طاقت پکڑتی فرقہ واریت کو کچھ دنوں کیلئے ہی سہی ہمارے میڈیا پر اُجاگر کیا ہے۔ ہر مکتبہ فکر سے تعلق رکھنے والے دانشور اور علما میڈیا پر زبانی اور تحریری بحثوں میں مصروف نظر آئے۔ لیکن تقریباً سب کا زور اس واقعے اور مخالف فرقے کی مذمت پر ہی رہا جبکہ کسی فرد یا گروہ نے اس پر ندامت کا اظہار نہیں کیا۔وقت آ گیا ہے کہ ہم سب اس واقعہ سے جڑی اپنی اپنی ذمہ داری کو محسوس کریں اور تیزی سے ہوتی سماجی گراوٹ روکنے کے اقدام کریں چاہے وہ کتنے ہی بھی مشکل ہوں۔
ایک بہت مضبوط رائے تواتر سے پیش کی جارہی ہے کہ عبادات کو ایک چاردیواری کی حدود میں ہی ہونا چاہیے لیکن ایسا کوئی بھی قدم تمام فرقوں کو اعتماد میں لئے بغیر نہیں ہونا چاہیے۔ طُرفہ تماشا یہ کہ مذہبی بنیادوں پر نکلنے والے جلوسوں کی مخالفت کرنے والوں نے ہی سانحہ کے ایک ہفتہ بعد احتجاجی جلوسوں کی کال دے دی۔ اگر عاشورہ پر نکلنے والے جلوس امن و امان کی صورتحال کے لئے مشکل پیدا کر سکتے ہیں تو احتجاجی جلوس بھی تو ویسا ہی بگاڑ پیدا کر سکتے ہیں۔
سانحہ راولپنڈی کی المناکی ایک سچ ہے لیکن کوئٹہ میں ہزارہ برادری پر ہونے والے حملوں کی سفاکی بھی ایک المیہ ہے۔ لاہور میں ہونے والے ڈاکٹر علی حیدر اور ان کے بیٹے کا سفاکانہ قتل اور گجرات میں زمیندار یونیورسٹی کے رجسٹرار شبیر شاہ صاحب کا قتل بھی اتنا ہی بڑا سچ ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ادھورے سچ کی بجائے مکمل حقیقت کا سامنا کریں اور ہر طرح کی قتل و غارت کی نہ صرف مذمت کریں بلکہ قاتلوں کو اپنی صفوں سے باہر کریں۔ ادھورا سچ بلاشبہ مکمل جھوٹ سے بھی زیادہ خطرناک ہو سکتا ہے۔ ایسا ہی ادھورا سچ ہم ڈرون حملوں کے بارے میں بھی تواتر سے بول رہے ہیں۔ ڈرون حملوں کی مذمت بجا ہے۔ ڈرون حملوں میں مارے جانے والے معصوموں کا قتل سفاکی اور بربریت کی ایک مثال ہے۔ڈرون حملوں کو فوری طور پر رکنا چاہیے لیکن ہمیں اس سوال کا جواب بھی چاہیے کہ کیا حقانی گروپ اقوامِ متحدہ کی دہشت گردوں کی فہرست میں شامل ہے اور اگر شامل ہے تو پھر ان کے لیڈر ان کا ہمارے ملک میں موجودگی کا کیا مطلب۔
یہ سچ ہے کہ افغان جنگ میں ہمیں امریکہ کا آلۂ کار نہیں بننا چاہیے لیکن جہاد کے نام پر ہمیں افغانستان کے معاملات میں دراندازی سے بھی پرہیز کرنا چاہیے۔ ہمارے ہاں ایسے لوگوں کی کمی نہیں جو جہاد کے نام پر افغانستان کے ہر معاملے میں دخل اندازی کو جائز سمجھتے ہیں اور وہی لوگ ڈرون حملوں کی بھی مخالفت کرتے ہیں۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم افغانیوں کے معاملات میں دخل دیں، ان کے خلاف برسرِ پیکار لوگوں کو اپنے ہاں پناہ دیں اور امریکہ کو لعن طعن کریں کہ وہ ڈرون حملے کر کے ہماری جغرافیائی حدود پامال کر رہا ہے۔ نیٹو کی سپلائی بھلے بند کریں لیکن جب تک ہم ملک سے غیر ملکی دہشت گردوں کو نہیں نکالیں گے ڈرون حملوں کو جواز ملتا رہے گا (ویسے امریکہ کو ڈرون حملوں کیلئے کسی جواز کی ضرورت بھی نہیں)۔اگر ہم اپنے گھروں کی دیواروں کو محفوظ نہیں رکھ سکتے تو پھر ہمیں یہ گلہ نہیں کرنا چاہیے کہ دہشت گردی میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے۔جب تک ہم اپنا گھر ٹھیک نہیں کریں گے ہمیں دوسروں پر انگلیاں اٹھانے کا کوئی حق نہیں۔ اسی طرح ہمیں دوسرے ملکوں کی جغرافیائی حدود کا احترام کرنا ہو گا۔ تاکہ ہمارے ملک کی سرحدوں کا بھی احترام کیا جائے۔ ہمیں معاشی خودانحصاری حاصل کرنا ہو گی تاکہ دنیا میں ہمارا مقام ہو اور ہماری بات سنی جائے اور معاشی ترقی کیلئے امن و امان بنیادی شرط ہے۔ شاعرانہ تخیل ''مومن ہو تو بے تیغ بھی لڑتا ہے سپاہی‘‘ حقیقت بھی ہو سکتا ہے لیکن اپنے آپ میں مومن کی صفات تو پیدا کر لیں۔جب تک ہم یہ صفات پیدا نہیں کرتے ہم اچھے مومن بن سکتے ہیں نہ اچھے انسان۔
فرقہ واریت اور دہشت گردی کی ہر شکل کا خاتمہ پہلی ترجیح ہونی چاہیے۔ فرقہ واریت کے خاتمے کیلئے ہمیں مختلف عقائد کا احترام کرنا اور مختلف فکر کے لوگوں کے ساتھ رہنا سیکھنا ہو گا۔ اس کے لیے ہمیں اپنا چلن تبدیل کرنا ہوگا۔ یہ معاشرے کا چلن بن چکا کہ کسی سے بات منوانی ہو تو گالی
دے کر منوائی جائے۔ بحث و مباحثہ اور مذاکرے کا کلچر تو پروان ہی نہ چڑھ سکا۔ ہر کوئی اپنی بات ڈنڈے کے زور پر منوانے کا خواہشمند ہے۔جو باتیں تہذیب کے دائرے میں رہ کر کی جانی چاہییں وہ اخلاقیات کے دائرے سے ہٹ کر کی جا رہی ہیں۔ ہمیں گالی کے بغیر اور دلیل کے ساتھ گفتگو سیکھنا ہوگی اور یہ بھی سیکھنا ہو گا کہ گالی کا جواب اینٹ کی بجائے شائستگی سے دیا جائے۔ہمارا مذہب بھی ہمیں یہی سکھاتا ہے۔ یہ بھی حقیقت ہے کہ اسلام کی بہت سی اچھی باتیں جو ہمیں اپنانی چاہییں تھیں وہ غیروں نے اپنا لی ہیں۔ قرآن مجید میں جو اسباق موجود ہیں ان سے ہم فائدہ ہی نہیں اٹھا رہے۔ برداشت کے فروغ کی جتنی ضرورت آج ہے اتنی کبھی نہ تھی۔ بحثیت معاشرہ ہمیں ذمہ داری کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔ ہر طرح کے تشدد کی مذمت کرنا ہو گی چاہے اس کا جواز کچھ بھی ہو۔ دلوں کو توڑنے کی بجائے جوڑنا سیکھنا ہو گا۔ یہ سمجھنا ہو گا کہ دل دُکھانا آسان اور دل میں اترنا مشکل ہے۔ ہمیں نفرتوں کی بجائے محبتوں کا پیغام دینا ہو گا اور اس کیلئے نصاب میں ہر ضروری تبدیلی کے ساتھ ساتھ فنونِ لطیفہ کی ہر شکل کی حوصلہ افزائی کرنا ہو گی۔ ہمیں یہ ماننا ہو گا کہ ہم طالبان سے ہونے والی جنگ صرف اسلحے کے استعمال سے نہیں جیت سکتے۔ حربی سے زیادہ یہ جنگ نظریاتی ہے اور جب تک ہمارے علمائے کرام اسلامی فقہ کی روشنی میں طالبان کی جنگ کو غیر اسلامی قرار نہیں دیتے۔ امن و امان کا ہر خواب تشنہ رہے گا۔

Advertisement
0 seconds of 0 secondsVolume 0%
Press shift question mark to access a list of keyboard shortcuts
00:00
00:00
00:00
 
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں