"KNC" (space) message & send to 7575

اشتراکت اور پاکستان

پاکستان کی سرزمین اشتراکیت کے لیے کبھی سازگار نہیں رہی۔
اس کے کئی اسباب ہیں۔ایک سبب تاریخی ہے۔نظریاتی سیاست کا تناظر ہمیشہ عالمی ہوتا ہے۔بیسویں صدی کی نظریاتی سیاست سرمایہ داری اور اشتراکیت کی کشمکش سے عبارت ہے ۔واشنگٹن اورماسکو اس کے فکری ہی نہیں‘ عملی مرکز بھی تھے۔اس نظریاتی سیاست نے دنیا بھر کے معاشروں کو دائیں اور بائیں بازو میں تقسیم کیا۔اسلام پسندوں کو بالعموم دائیں اور قوم پرستوں کو بائیں بازو کا حصہ سمجھا گیا۔برصغیر میں بھی اشتراکی فکر سے وابستہ لوگ کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان کی صورت میں منظم ہوئے۔فکری سطح پر اس تحریک نے ادب کو ہدف بنایا اور انجمن ترقی پسند مصنفین وجود میں آئی۔برصغیر تقسیم ہوا تو کمیونسٹ پارٹی اور انجمن ترقی پسند مصنفین بھی دو حصوں میں منقسم ہو گئیں۔سجاد ظہیر بھارت سے آئے اور انہوں نے اس کے لیے بنیادی کردار ادا کیا۔ ناکامی کے بعد واپس بھارت لوٹ گئے۔
عالمی سیاست کے تناظر میں دیکھیے تو سوویت یونین برطانیہ کے خلاف تھا۔برصغیر کی کمیو نسٹ پارٹی بھی انگریزوں کے خلاف تھی اوراس کا نقطہ نظر یہ تھا کہ برصغیر کی تقسیم دراصل انگریزوں کا ایک منصوبہ ہے۔ اس لیے مسلم لیگ اور قائد اعظم کے بارے میں ان کے خیالات عوامی خیالات سے ہم آہنگ نہیں تھے۔ادب ان کی سرگرمیوں کا مرکز رہا۔کوئی ان تاریخی عوامل کو سمجھنا چاہے تو اسے مخدومی پروفیسر فتح محمد ملک کی کتاب ''انجمن ترقی پسند مصنفین‘‘‘ کا مطالعہ کرناچاہیے۔چونکہ تاریخ کا یہ تصور یہاں کی اکثریت کے تاریخی شعور سے ہم آہنگ نہیں تھااس لیے کمیونسٹ پارٹی کو عوامی سطح پر زیادہ پذیرائی نہیں ملی۔
پاکستان کی سر زمین اگر اس فکر کے لیے سازگار نہیں تھی تو اس کی دوسری بڑی وجہ یہاں کا جاگیردارانہ کلچر ہے۔پاکستان کے قیام کے بعد لازم تھا کہ جن لوگوں کو انگریزوں نے جاگیروں سے نوازا تھا‘ان سے یہ جاگیریں واپس لی جاتیں۔بدقسمتی سے ایسا نہیں ہو سکا۔اس کی وجہ یہ ہوئی کہ یہاں کا جاگیر دار مسلم لیگ اور اقتدار پر قابض ہو گیا اور اس نے زرعی اصلاحات کا ہر دروازہ بند کر دیا۔
ادب کی معرفت اشتراکیت نے ایک فکری اقلیت کومتاثر کیا لیکن اس سے کوئی عوامی تحریک برپا نہ ہوسکی۔بھٹو صاحب کی غیر معمولی شخصیت نے کمیونزم کو تو نہیں لیکن سوشلزم کو ایک مقبول نعرہ بنایا لیکن بات نعرے سے زیادہ آگے نہ بڑھ سکی۔ان کی تحریک نے عام آدمی میں اس کے حقوق کا شعور اور احساسِ ذات پیدا کیا لیکن ان کی افتادِ طبع اسے ایک بڑی عوامی تحریک بنانے میں مانع ہوئی۔نظریاتی اشتراکی مایوس ہوئے اور ان سے دور ہوتے گئے۔ان میں سے کوئی ایسا نہ تھا جو کوئی ایک تحریک برپا کرسکتا۔
پاکستان کے برخلاف بھارت میں اشتراکیت کے اثرات زیادہ گہرے ہیں۔ایک تو وہاں ابتدا ہی میں جاگیرداری کا خاتمہ کر دیا گیا۔ دوسرا یہ کہ گاندھی کے بعدوہاں کے سب سے بڑے سیاسی راہنما نہرو اشتراکی فکر رکھتے تھے اور وہ طویل عرصہ سیاست میں فعال رہے۔ ان عوامل نے بائیں بازو کی سیاست کو مرنے نہیں دیا۔ بنگال اور آسام سمیت بھارت کے بعض علاقوں میں اقتدار بائیں بازو کے پاس رہا۔ آج اگر بھارت میں کسانوں نے بڑی حد تک ایک کامیاب عوامی تحریک اٹھائی ہے تو اس کی وجہ یہی تاریخی پس منظر ہے۔
ناکامی کی تیسری بڑی وجہ اشتراکیت پر اسلام پسندوں کی فکری یلغارتھی۔ اس منظم فکری اور سیاسی چیلنج نے بائیں بازو پر مقبولیت کے دروازے بند کر دیے۔ اشتراکیت کو فکری محاذپر شکست ہوئی۔بھٹو صاحب نے مقامی فضا کا ادراک کرتے ہوئے‘اشتراکیت کے مذہب مخالف آہنگ کو کم کرنے کی شعوری کوشش کی مگر جماعت اسلامی نے سوشلزم کو کفر کے مترادف بنا کر پیش کیا۔پاکستان کے سماجی پس منظر میں اگر کسی فکر یا فرد کو مذہب مخالف ثابت کر دیا جائے تو اس کی پذیرائی کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔حنیف رامے جیسے دانشوروں نے اسلامی سوشلزم کا مقدمہ پیش کیا مگر ان کے چراغ کی لو پھیل نہ سکی۔اس کی روشنی ایک ناقابلِ ذکر اقلیت تک محدود رہی۔
چوتھی وجہ داخلی تھی۔اشتراکیت کو پاکستان میں ایک المیہ یہ پیش آیا کہ اسے وہ صاحبانِ عزیمت نہ مل سکے جو نظریاتی تحریکوں کی ناگزیر ضرورت ہوتے ہیں۔طارق علی جیسے دانشوروں نے عزیمت پر آسودگی کو ترجیح دی اور برطانیہ جیسے سرمایہ داری کے مرکز میں جا بسیرا کیا۔جویہاں رہ گئے انہوں نے سرمایہ دارانہ نظام کے تحت وجود میں آنے والی سول سوسائٹی میں پناہ لی اور کمیونزم کے بجائے لبرل ازم کو اپنالیا۔ ڈاکٹر لال خان نے آخر وقت تک پوری استقامت کے ساتھ یہ علم اٹھائے رکھا مگر ان کے کامریڈ اتنے ہی تھے جو انگلیوں پر گنے جا سکیں۔
اس کے ساتھ یہ بھی امرِ واقعہ ہے کہ بھٹو صاحب کے اقتدار کے ابتدائی برسوں کے سوا ‘ اشتراکیت کے لیے ریاست کا رویہ کبھی ہمدردانہ نہیں رہا۔رہی سہی کسر افغانستان میں سوویت یونین کی شکست نے پوری کر دی۔اس کے بعد دنیا کے ساتھ‘ پاکستان میں بھی اشتراکیت کا چراغ بجھ گیا۔پیپلزپارٹی بے نظیر صاحبہ کے دور میں کھلی منڈی کی تجارت کی علم بردار بن گئی اور اس کی سیاست امریکہ مرکز(US centric) ہوگئی۔
اشتراکیت کی ناکامی کی پانچویں بڑی وجہ یہ ہوئی کہ پاکستان میں مزدروں‘ کسانوں اور طلبا کی تحریکیںزیادہ منظم نہ ہو سکیں۔دنیا بھر میں ان تنظیموں نے اشتراکی فکر کے فروغ میں بنیادی کردارادا کیا۔ 1950ء اور1960ء کی دہائی میں اس کی کوشش کی گئی مگر اسلام پسندوں نے اسے کم ہی کامیاب ہو نے دیا۔یہاں کی اسلامی تحریک بھی چونکہ کمیونسٹ تحریک کی طرز پر منظم ہوئی تھی‘اس لیے وہ اس کا مؤثر توڑ ثابت ہوئی۔اسلام پسندوں نے تعلیمی اداروں اور مزدوروں تک اشتراکیوں کی رسائی کو مشکل بنا دیا۔
یہ چند اہم وجوہات ہیں جنہوں نے پاکستان میں اشتراکی فکر کو ایک مؤثر فکری وسیاسی قوت نہیں بننے دیا۔عالمی سطح پر چین اور روس نے بھی جب کھلی منڈی کی تجارت کو قبول کر لیا توپرولتاریوںکی حکومت کا خواب بکھر کر رہ گیا۔اس کے بعد کوئی ایسی بنیاد باقی نہیں رہی جو کسی اشتراکی تحریک کا جواز بن سکتی۔سرمایہ داری کا ظلم کسی ایسی تحریک کاجواز بن سکتا ہے جو اس کی ضد ہو مگر یہ اسی صورت میں ممکن ہے جب یہ ضد کوئی قابلِ عمل متبادل بھی فراہم کر رہی ہو۔ورنہ یہ ایک بے ضرر مرثیہ خوانی کے سوا کچھ نہیں جو سرمایہ داری کے مظالم پر صرف رلا سکتی ہے۔
مجھے عمار علی جان جیسے نوجوان اچھے لگتے ہیں جو اس ظلم کو محسوس کرتے ہیں جو سرمایہ دارانہ نظام نے ڈھایاہے؛ تاہم انہیں کوئی نیا تجربہ کرنا ہو گا۔مارکس اورمارکس ازم نے سرمایہ دار کے ظلم کے خلاف جو حساسیت پیدا کی‘وہ بہت قابلِ قدر ہے مگراس سے مہمیز تو مل سکتی ہے‘سفر نہیں کاٹا جا سکتا۔اس کے لیے کسی نئے سفینے کی ضرورت ہوگی۔ اگر ان نوجوانوں نے خود کو ایک نظریے میں قید کرنا چاہا تو مجھے ڈر ہے کہ ان کا قابلِ قدر جذبہ عام آدمی کے کسی کام نہیں آ سکے گا۔ آدمی کو غیر نظریانی کبھی نہیں ہو نا چاہیے۔میں صرف ایک نظریے کی قید میں رہنے کے مضمرات کی بات کر رہاہوں جو فکری ارتقا میں مانع ہوتے ہیں۔ سیاسی تحریکوں میں نظریے نے جب عقیدے کی صورت اختیار کر لی تو وہ خود اس اعتراض کا مصداق بن گئیں جو اہلِ مذہب پر کیا جاتا ہے۔

روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں