"KNC" (space) message & send to 7575

عمران خان اور شیخ مجیب الرحمن

تحریک انصاف کے ساتھ‘ کیا آج وہی سلوک ہو رہا ہے جو کل عوامی لیگ کے ساتھ روا رکھا گیا؟ اگر اس کا تدارک نہ ہوا توکیا عمران خان مستقبل کے شیخ مجیب الرحمن ثابت ہوں گے؟
اس خدشے کا اظہار خان صاحب نے خودکیا ہے۔ 10اگست کو انہوں نے اس باب میں جو کہا‘ اسے ایک بار پھر یاد کر لیتے ہیں۔ ان کا کہنا تھا ''آج ملک کی سب سے بڑی جماعت کو فوج کے سامنے کھڑا کرنے کی کوشش ہو رہی ہے‘‘۔ خان صاحب نے اس ضمن میں تاریخ سے مثال پیش کی کہ کس طرح ماضی میں یہی ہوا جب مشرقی پاکستان میں فوج اور عوامی لیگ آمنے سامنے آگئے۔ انہوں نے تائید میں اپنا یہ مشاہدہ پیش کیا کہ جب 1970ء میں وہ کرکٹ کھیلنے مشرقی پاکستان گئے تو اپنے ایک کزن کے پاس ٹھہرے جو فوج میں بریگیڈیئر تھے۔ ''تب مجھے پتا چلا کہ بنگلہ دیش (مشرقی پاکستان) کی سب سے بڑی جماعت اور مقتدرہ کے اندر کتنی نفرت پھیل چکی تھی۔ اس کے بعد ہمارا ملک ٹوٹا۔ پھر سب سے بڑی جماعت اور مقتدرہ کے درمیان جو کچھ ہوا‘ یہ ملکی تاریخ کا سب سے افسوس ناک واقعہ ہے۔ آج وہی کوشش کی جا رہی ہے‘‘۔
کیا یہ واقعاتی مطابقت درست ہے؟ کیا ہم نیا شیخ مجیب الرحمن پیدا کرنے جا رہے ہیں؟ میں نے آج ان سوالات کے جوابات تلاش کرنے کی کوشش کی ہے‘ لیکن پہلے ایک تمہیدی بات۔ جب کسی فرد یا جماعت کو ایک معاشرے میں قابلِ ذکر عصبیت حاصل ہو جائے تو قانون کے استعمال سے اس کا راستہ نہیں روکا جا سکتا۔ جب کسی مقبول رہنما کے خلاف‘ قانون اور طاقت سے کام لیا جاتا ہے تو اس سے ممکن ہے کوئی وقتی کامیابی حاصل ہو جائے لیکن اس کے دور رس اثرات سالمیت کے لیے خطرناک ہوتے ہیں۔ اس لیے جب اقتدار صاحبانِ بصیرت کے ہاتھ میں ہوتا ہے تو وہ ایسے رہنماؤں کے خلاف قانون اور ریاستی قوت کے استعمال سے‘ ممکن حد تک گریز کرتے ہیں۔ وہ ان کو سیاسی عمل کے ذریعے کمزور کرتے ہیں‘ اگر وہ ریاست اور سماج کے لیے خطرناک بنتے جا رہے ہوں۔
اب آئیے بنیادی سوال کی طرف۔
تحریکِ انصاف اور عوامی لیگ میں کوئی مطابقت نہیں۔ اس کی سب سے بڑی دلیل یہ ہے کہ تحریکِ انصاف ایک قومی جماعت ہے اور عوامی لیگ ایک صوبائی جماعت تھی۔ فوج بطور ادارہ پوری ریاست کی نمائندگی کرتی ہے۔ اسی طرح قومی سیاسی جماعت بھی۔ اگر دونوں کی قوت کی بنیاد ایک ہو تو ان کے مابین تصادم کی صورت میں خانہ جنگی تو ہو سکتی ہے‘ ریاست کی جغرافیائی وحدت متاثر نہیں ہوتی۔عوامی لیگ مشرقی پاکستان میں مقبول تھی جو سب سے بڑا صوبہ تھا۔ اسی طرح پیپلز پارٹی بھی اُس وقت ایک صوبائی جماعت تھی۔ انتخابات کے بعد عوامی لیگ ایک صوبے اور پیپلز پارٹی دوسرے صوبے میں کامیاب ہوئی۔ زیادہ آبادی کے سبب‘ مشرقی پاکستان کی نشستیں زیادہ تھیں جو دو کے سوا تمام عوامی لیگ نے جیتیں۔ اس لیے اقتدار اسی کا حق تھا۔ جب عوامی لیگ کے اس حق کا انکار کیاگیا تو احتجاج اور غصہ ایک صوبے تک محدود رہا۔ یوں اس سے علیحدگی کی سوچ کو تقویت ملی جس کے بیج‘ ایک متبادل حل کے طور پر عوامی لیگ پہلے ہی بو چکی تھی۔
دوسری دلیل یہ ہے کہ اُس وقت فوج کے بارے میں یہ پروپیگنڈا کیا جا رہا تھا کہ یہ پنجابی فوج ہے۔ اس پروپیگنڈا میں جو نفرت چھپی تھی‘ اس کا اندازہ کرنا مشکل نہیں۔ عمران خان اپنے مشاہدے کے حوالے سے اسی کا ذکر کر رہے ہیں۔ جب مشرقی پاکستان میں کارروائی کی گئی تو اس پروپیگنڈانے اس صوبائی عصبیت کی آگ پر تیل کا کام کیا جو عوامی لیگ پھیلا چکی تھی۔ اس کے باوجود ریاست کی قوت شاید ملک کو وقتی طور پر متحد رکھ سکتی تھی‘ اگر بھارت مشرقی پاکستان کا ہمسایہ نہ ہوتا۔ اس نے اپنی فوج بھیج کر علیحدگی کے عمل کو مکمل کر دیا۔
آج یہ تینوں اسباب مو جود نہیں ہیں۔ تحریکِ انصاف پورے ملک میں موجود ہے۔ فوج قوم کی نمائندہ ہے۔ اور پھر بھارت کسی طور مداخلت نہیں کر سکتا۔ نہ تو تحریکِ انصاف اور بھارت میں کوئی رابطہ ہے اور نہ جغرافیائی منظر نامہ اس طرح کے کسی منصوبے کے لیے سازگار ہے۔ تحریکِ انصاف‘ ایک صورت میں عوامی لیگ بن سکتی ہے اگروہ خود کو کے پی تک محدود کر لے۔ اس سال مئی میں اس کا امکان پیدا ہو گیا تھا جب عمران خان کے لانگ مارچ کو پنجاب سے کوئی تائید نہ مل سکی اور یہاں ان کی حکومت بھی باقی نہ رہی۔ وہ عملاً کے پی تک سمٹ گئے۔ پنجاب کے ضمنی انتخابات میں پی ٹی آئی کی کامیابی اور پھر صوبے میں حکومت بننے سے‘ اب وہ پنجاب میں بھی متحرک ہیں۔اس سے یقینا وہ سوچ کمزور ہوئی ہوگی جو تحریکِ انصاف کو صوبے کی جماعت بنا سکتی تھی۔ لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد جس طرح کے پی کی حکومت مرکز کے خلاف محاذ آرا تھی‘ اس سے یہ خدشہ پیدا ہو گیا تھا کہ ہیجان کی سیاست خان صاحب کو کہیں عوامی لیگ کے راستے پر نہ ڈال دے۔ اللہ کا شکر ہے کہ اب صورتِ حال تبدیل ہو گئی ہے۔ اس لیے اس کا امکان‘ کم از کم اس وقت‘ ختم ہو گیا ہے کہ تحریکِ انصاف عوامی لیگ کا راستہ اپنائے گی۔ سوال یہ ہے کہ پھرخان صاحب نے دو دن پہلے اس خدشے کا اظہارکیوں کیا؟
میرا خیال ہے وہ کلی نہیں‘ جزوی مناسبت کا ذکر کر رہے ہیں۔ فوج اور ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے مابین ایسا واضح اختلاف جو تصادم یا محاذ آرائی کا تاثر دے‘ قومی یک جہتی کے لیے نیک شگون نہیں۔ اس کی ذمہ داری مگر وہ کسی طرح دوسرے فریق پر نہیں ڈال سکتے۔ کسی کو اختلاف نہیں کہ عمران خان کی انتخابی کامیابی سے لے کر حکومتی کامیابی تک‘ اداروں نے جس طرح دستِ تعاون دراز کیا‘ اس کی کوئی مثال پاکستان کی پوری تاریخ میں نہیں ملتی۔ خان صاحب کے لیے سوچنے کی بات یہ ہے کہ یہ تعاون‘ سرد مہری میں کیسے بدلا اور وہ کون سے عوامل تھے جنہوں نے اداروں کو نیوٹرل ہونے پر مجبور کیا؟
دوسرا اہم سوال یہ ہے کہ اس سرد مہری پر خان صاحب کا ردِ عمل کیا تھا؟ فریقِ ثانی کی اعلانیہ مخالفت یا اس سے تعلقات کو بہتر بنانے کی کوشش؟ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ خان صاحب نے دوسرے فریق کو دباؤ میں لانے کی کوشش کی اور اسے سرِ بازار رسوا کرکے اپنا مطلب نکالنا چاہا۔ عوامی جلسوں میں طرح طرح کے خطابات دے کر‘ تعاون کی بحالی کا اگر کوئی امکان ہو سکتا تھا تو خود ہی اس کا خاتمہ کر دیا۔ یہی نہیں! خان صاحب نے قومی سلامتی کے معاملے میں بھی قومی اداروں کے نقطۂ نظر کو مسترد کردیا اور ان کی ملک سے وفا داری کو مشکوک بنا دیا۔ شہباز گل کا بیان تو اونٹ کی پیٹھ پر آخری تنکا تھا۔
یہ میرا تجزیہ ہے مگر جب ہیجان کی فضا ہو تو عقلی اور منطقی استدلال کی قبولیت کا امکان زیادہ نہیںہوتا۔ اس پر کم لوگ ہی کان دھریں گے۔ اس لیے ضرورت ہے کہ خان صاحب کو سیاسی عمل میں شریک کیا جائے۔ اس کے لیے حکومت کو قائدانہ کردار ادا کرنا ہوگا۔ حکومت کو اب سیاسی فریق کے بجائے‘ ریاست بن کر سوچنا ہے۔ معاشی استحکام کے ساتھ سیاسی استحکام بھی اس کی ذمہ داری ہے۔ میری تجویز ہوگی کہ حکومت ملی وحدت کے لیے ایک چارٹر پر قومی مکالمے کا آغاز کرے۔ شیخ مجیب الرحمن وہیں پیدا ہوتے ہیں جہاں مکالمے کی نفی ہوتی ہے۔

Advertisement
روزنامہ دنیا ایپ انسٹال کریں