ہمارے گلستانِ علم میں ویرانی کا سماں ہے۔ چند دنوں میں اجل نے چار گل ہائے رنگا رنگ اُچک لیے۔
پہلے خبر آئی کہ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی ہم میں نہیں رہے۔ برصغیر نے گزشتہ نصف صدی میں جو بڑی علمی شخصیات پیدا کیں‘ وہ ان میں سے ایک تھے۔ اس میں کوئی مبالغہ نہیں کہ دو نسلوں کے علمی ذوق کی تعمیر اور شعوری بیداری میں ان کا حصہ ہے۔ وہ ان لوگوں میں سے تھے جنہیں اپنے عہدکے علمی چیلنج کا ادراک تھا اور انہوں نے اس کا سامنا کرنے کی مقدور بھر کوشش کی۔ان کا تعلق اس نسل سے تھا جو فکرِ مودودی کے آغوش میں بڑی ہوئی۔ اسے آپ دبستانِ شبلی کا تسلسل بھی کہہ سکتے ہیں۔ یہ مکتبِ فکر جہاں دین کی تجدید و احیا کا قائل ہے وہاں روایت سے وابستگی کو اپنی کمزوری نہیں‘ قوت سمجھتا ہے اور یوں اس کے سائے میں آگے بڑھتا ہے۔
ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا اصل میدان تو معیشت تھا لیکن انہوں نے فکرِ اسلامی کو بھی اپنی علمی سعی وجہد کا مرکز بنایا۔ 1960ء کی دہائی میں انہوں نے امام ابو یوسف کی ''کتاب الخراج‘‘ کا اردو میں ترجمہ کیا۔ معیشت کی اسلامی تشکیل کے باب میں انہوں نے بنیادی کام کیا۔ میرا احساس ہے کہ اس موضوع سے دلچسپی رکھنے والا کوئی طالب علم ان کی تحقیق اور تصانیف سے بے نیاز نہیں ہو سکتا۔فکرِ اسلامی کے باب میں ان کی کتاب ''مقاصدِ شریعت‘‘ دینی لٹریچر میں اہم اضافہ ہے۔ ہماری علمی روایت میں جب مقاصد پر بحث ہوئی تو ابتدا میں ان مقاصد کو پانچ تک محدود رکھا گیا۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی نے اس فہرست میں اضافہ کیا اور یہ بتایا کہ دورِ جدید نے جو مسائل پیدا کر دیے ہیں‘ وہ متقاضی ہیں کہ انہیں پانچ تک محدود نہ رکھا جائے۔ یہ کتاب ان کا ایک علمی کارنامہ ہے۔
ایک اور شخصیت جن کا چند دن پہلے انتقال ہوا‘ مفتی محمد رفیع عثمانی ہیں۔ مفتی صاحب‘ صاحبِ ''معارف القرآن‘‘ مفتی محمد شفیع مرحوم کے بڑے صاحب زادے تھے۔ یہ خاندان علمائے دیوبند کی اس شاخ سے تعلق رکھتا ہے جو تقسیمِ ہند کے مسئلے پر کانگرس کے بجائے مسلم لیگ کا ہم نوا تھا۔ یہ گھرانہ علم میں اکابر علمائے دیوبند کے منہج ہی کا پابند رہا لیکن اس کے باوصف اس کے ہاں ایک فراخی رہی‘ مفتی صاحب جس کی علامت بن کر سامنے آئے۔ یہ تعبیر و استنباط میں شدت پسند نہیں تھے۔ مفتی رفیع صاحب نے قومی اور عوامی سطح پر مسلکی اختلاف کو زیرِ بحث لانے سے گریز کیا اور اس کی حوصلہ شکنی کی۔ مفتی صاحب اور ان کے مدرسے کی اس فراخ دلی کا دائرہ اگرچہ روایتی مسالک ہی تک محدود رہا لیکن انتہا پسندی کے اس دور میں اسے بھی غنیمت سمجھنا چاہیے۔مفتی صاحب کا ایک اور امتیاز یہ رہا کہ انہوں نے اپنے مدرسے کو اقتدار کی سیاست سے الگ رکھا۔ ان کے مسلک کی سیاسی جماعت‘ جمعیت علمائے اسلام‘ قومی سیاست میں ہمیشہ فعال رہی لیکن مفتی صاحب اور ان کے مدرسہ نے اس سے عملاً لاتعلقی اختیار کیے رکھی۔ انہوں نے ہماری روایت کے ساتھ اپنا تعلق نبھایا جس میں علما نے خود کو تعلیم اور تذکیر تک محدود رکھا ہے۔ وہ کبھی اقتدار کے کھیل کا حصہ نہیں بنے۔ یوں اِنہوں نے علما کے اس وقار کی حفاظت کی جسے اقتدار کی سیاست میں شریک 'علما‘ نے شدید نقصان پہنچایا۔
تیسری اہم شخصیت ڈاکٹر ایوب صابر کی ہے۔ اقبالیات کا کوئی طالب علم ان کی تحقیق اور تصانیف سے مستغنی نہیں ہو سکتا۔ تفہیمِ اقبال کے ساتھ‘ ان کا اہم موضوع اقبال پر ہونے والے اعتراضات ہیں۔ علامہ اقبال کے دینی تصورات‘ ان کے افکار اور ان کی ذات سے وابستہ بعض سوالات ڈاکٹر صاحب کی تحقیق کا موضوع رہے۔ اقبال پر تحقیق کرنے والے بالعموم ان کے شخصی اور فکری سحر سے نہیں نکل سکے۔ انہوں نے اقبال کا دفاع یوں کیا جیسے کوئی مرید اپنے پیر کا دفاع کرتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کا معاملہ بھی ایسا ہی رہا۔ انہیں اقبال سے والہانہ لگاؤ تھا اور ان سے مل کر یوں محسوس ہوتا تھا کہ وہ اقبال کا دفاع ایک دینی فریضہ سمجھ کر کرتے ہیں۔
اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس محبت نے ان کے تحقیقی کام کو متاثر کیا ہے۔ انہوں نے تحقیق کے بنیادی مطالبات کو پورا کرتے ہوئے اپنی اس محبت کو نبھایا ہے۔ اعتراضات اور ان کے جوابات کو انہوں نے تین جلدوں میں جمع کر دیا تھا۔ ان اعتراضات پر مختلف لوگوں نے کام کیا ہے لیکن یہ متفرق مضامین میں بکھرا ہوا ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے انہیں یکجا کر دیا۔ اس کتاب کو پڑھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ اقبال پر اعتراضات بالعموم کتنے سطحی اور بے خبری پر مشتمل ہیں۔ ہر بڑے مفکر اور متکلم و فلسفی کے افکار علم کی دنیا میں زیرِ بحث رہتے ہیں۔ ان پر تنقید بھی ہوتی ہے اور اس سے ان کی عظمت کم نہیں ہوتی۔ تاہم ہمارے ہاں کچھ لوگ اقبال شکنی کو مقصدِ حیات بنائے ہوئے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ اقبال کے نام سے قائم اس قصرِ علم و فکر کو گرانے ہی سے ان کا جھونپڑا دکھائی دے سکتا ہے۔ ڈاکٹر ایوب صابر نے اس غیر علمی رویے کا تعاقب کیا ہے۔
جسٹس افضل حیدر بھی انہی دنوں میں رخصت ہوئے۔ جسٹس صاحب نے خود کو مسلکی امتیازات سے بلند کرتے ہوئے دین کو سمجھنے کی کوشش کی اور قرآن مجید کو خاص طور پر اپنے مطالعے کا مرکز بنایا۔ چند ماہ پہلے ہی‘ مضامینِ قرآن پر ایک کتاب شائع ہوئی جس کا تعارف اس کالم میں کرایا گیا تھا۔ یہ وہ استفسارات تھے جو قرآن مجید کے باب میں ان سے کیے گئے اور انہوں نے عام فہم انداز میں ان کے جواب دیے۔ قیدیوں کے حقوق پر بھی انہوں نے اہم کام کیا اور جیل کے نظام میں اصلاحات کے لیے سفارشات مرتب کیں۔ یہ شخصیات ہفتے عشرے کے دوران میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ ان کا وجود ہماری علمی زندگی کو باوقار بنائے ہوئے تھا اور اس کی زندگی کی علامت تھا۔ میں رسماً نہیں‘ ذمہ داری کے ساتھ یہ رائے رکھتا ہوں کہ ان کے جانے سے ایک بڑا خلا پیدا ہو گیا ہے۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی مرحوم جیسے لوگ عالمی سطح پر ایک علمی محاذ سنبھالے ہوئے تھے اور انہوں نے دنیا کو یہ باور کرایا تھا کہ معیشت کی تشکیل کے لیے اسلام بھی ایک نقطۂ نظر رکھتا جس کی اساس فلاحِ انسانیت ہے۔ مفتی رفیع عثمانی صاحب کو دیکھ کر ہمیں یہ معلوم ہوتا تھا کہ مسلم سماج میں علما کا کیا کردار ہے اور اس باب میں ہمارے اسلاف کا رویہ کیا تھا۔ ڈاکٹر ایوب صابر نے اقبال کے ساتھ ہمارے زندہ تعلق کو قائم رکھا۔ جسٹس افضل حیدر نے سکھایا کہ مسلکی تنوع رکھنے والے سماج میں کیسے جینا چاہیے۔
سماج کی تشکیل میں بہت سے افراد بیک وقت اپنا کردار ادا کرتے ہیں۔ اہلِ علم کو اس لیے امتیاز حاصل ہے کہ وہ معاشرے کی سمت کو درست رکھتے ہیں۔ وہ باہمی اختلاف کے باوجود مجموعی طور پر سماج کی بہتری میں ایک کردار ادا کرتے ہیں۔ ڈاکٹر نجات اللہ صدیقی کا تعلق پاکستان سے نہیں تھا لیکن مسلم تہذیب سے ضرور تھا۔ ان کی بہت سی کتب پاکستان سے شائع ہوئیں۔ یوں وہ ہم سے الگ نہیں تھے۔ اسی طرح ڈاکٹر ایوب صابرکو بھارت سمیت دنیا کے ہر کونے میں موجود اقبال شناس سراہتے تھے۔
مجھے اندازہ نہیں کہ ان شخصیات کے رخصت ہونے کا مسلم سماج کو کتنا احساس ہے۔ نظامِ فطرت کے تحت‘ لوگ اسی طرح رخصت ہوتے رہیں گے۔ گلستانِ علم میں اگر ہم نے نئے گل بوٹے نہ لگائے تو اس کی خوشبو کم ہوتی جائے گی۔ جہاں علم کی خوشبو نہ ہو وہاں جہالت کا تعفن پھیل جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ جانے والوں کی مغفرت کرے اور ہمیں ان کا نعم البدل عطا فرمائے۔