'ہمارے معاشرے میں 'عوامی دانش مند‘ (Public Intellectual) کا کوئی وجود نہیں‘۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیّر سے منسوب یہ جملہ ایک انگریزی اخبار میں شائع ہوا۔ کراچی میں گزشتہ ہفتے ایک اردو کانفرنس منعقد ہوئی جس میں ایک اجلاس اردو تنقید کے لیے بھی وقف تھا۔ ڈاکٹر تحسین فراقی بھی اس اجلاس میں شریک تھے۔ ڈاکٹر نیر نے یہ بات اسی مجلس میں کہی۔ اخبار کی خبر میں زیادہ تفصیل نہیں لیکن میرے لیے یہ جملہ بہت تشویشناک ہے‘ جو مستحق ہے کہ اس کوکالم کا موضوع بنایا جائے۔
ڈاکٹر ناصر عباس نیر نے اردو تنقید کے ضمن میں جو کچھ لکھا‘ اس نے ہماری ادبی روایت کو ثروت مند بنایا۔ بالخصوص پسِ جدیدیت کے مباحث کو انہوں نے جس طرح ادب کا حصہ بنایا‘ اس نے سوچنے سمجھنے کے بہت سے در وا کیے۔ ڈاکٹر صاحب ادبی کانفرنسوں میں بھی 'عوامی دانش مند‘ کی حیثیت سے شریک ہوتے ہیں۔ میں‘ ان کی بات پڑھ کر یہ سوچ رہا ہوں کہ ان کے ہوتے ہوئے‘ یہ بات کتنی درست ہے؟
ہمارے ہاں دانش مند تو ہیں لیکن عوامی دانش مند نہیں ہیں۔ اس کا مفہوم اس کے سوا کچھ نہیں کہ سماج کی سطح پر کوئی علمی اور فکری سرگرمی نہیں ہے۔ نومبر کے دنوں میں چند ادبی میلے لگتے ہیں جن کا آغاز خوش آئند ہے لیکن یہ سماجی سطح پر کوئی تحریک نہیں بن سکے۔ سرِ دست اس کے اسباب سے صرفِ نظر کرتے ہوئے‘ مجھے یہ کہنا ہے کہ جب سماجی سطح پر اس طرح کی کوئی سرگرمی نہیں ہوتی تو 'عوامی دانش مند‘ کا پیدا ہونا مشکل ہو جاتا ہے۔
یہ عوامی ضرورت ہے جو عوامی دانش مند پیدا کرتی ہے۔ اگر عوام اس سے بے نیاز ہوں تو وقیع علمی کام بھی لائبریریوں کی زینت بنا رہتا ہے اور تخلیق کار طاقِ نسیاں کی نذر ہو جاتے ہیں۔ یہ کام دراصل ان سماجی اداروں کا ہے جن کا وظیفہ عوام میں اس کا ذوق اور ضرورت پیدا کرنا ہے۔ اس کے لیے عوام کو یہ باور کرانا ضروری ہے کہ سماج کی صحت کے لیے صرف صاف غذا اور ہوا کافی نہیں‘ فکر و نظر کا تازہ جھونکا بھی ضروری ہے جو اس کی ذہنی فضا کو سطح مند بناتا ہے۔ بصورتِ دیگر لوگ جسمانی طور پر تو بڑے ہو جاتے ہیں مگر ان میں ذہنی پختگی نہیں آتی۔
اس وقت ہمارے ہاں جو ادبی تقریبات ہوتی ہیں‘ ان میں سب سے نمایاں کتب کی رو نمائی ہے۔ یہ تقریبات انجمن ستائشِ باہمی کے اجلاس کے سوا کچھ نہیں۔ ان میں کی جانے والی تقاریر کو سنیے تو معلوم ہوتا ہے کہ ہر شاعر غالبؔ و اقبالؔ کا ہم سر اور ہر نثر نگار ابوالکلام اگر نہیں تو رشید احمد صدیقی سے بھی کم نہیں۔ دانش ان تقریبات میں کہیں دکھائی اور سنائی نہیں دیتی۔ خیال ہوتا ہے کہ یہ شاعر اور مصنف کا مسئلہ ہے اور نہ مبصر کا۔
میڈیا میں سنجیدہ موضوعات کو زیرِ بحث لانا وقت کا ضیاع سمجھا جاتا ہے۔ یو ٹیوب پر بعض ایسے پروگرام موجود ہیں جن سے اندازہ ہوتا ہے کہ ہمارے ہاں میڈیا کی سطح کیا تھی۔ میں نے مو لانا غلام رسول مہر کا ایک انٹرویو دیکھا جوکشور ناہید صاحبہ نے پی ٹی وی کے لیے کیا تھا۔ دیکھا تو زبان سے بے اختیار نکلا 'سبحان اللہ‘۔ کیا زبان ہے اور کیا موضوعات ہیں۔ مہر صاحب کی تحریروں میں تنوع ہے۔ دین اور ادب کے کم و بیش تمام موضوعات پر انہوں نے قلم اٹھایا۔ ان میں غالبؔ اور اقبالؔ ہیں اور ساتھ ہی تاریخ اور سوانح بھی۔ آپ اندازہ کر سکتے ہیں کہ ان سے کیسا انٹرویو کیا جا سکتا ہے۔
آج کا میڈیا لیکن اس طرح نہیں سوچتا۔ آج تو ہم جیسوں سے بھی شکایت ہوتی ہے کہ مشکل زبان لکھتے ہیں۔ لکھنے والے کا وظیفہ یہ بھی ہے کہ اس کو پڑھ کر قاری کی زبان اور فہم‘ دونوں کا معیار بہتر ہو۔ اس سے یہ مطالبہ کرنا جائز نہیں کہ وہ اپنا معیار کم کرے۔ یہ مطالبہ قاری سے ہونا چاہیے کہ وہ اپنی سطح کو بلند کرے۔ اس کے لیے زیادہ مشقت کی ضرورت نہیں۔ اگر میڈیا میں دستیاب مواد اعلیٰ درجے کا ہوگا تو اس کی سطح خود بخود بلند ہو جائے گی۔ اس کے بعد 'عوامی دانش مند‘ بھی پیدا ہونا شروع ہو جائیں گے۔
میڈیا کو ادب کے نام پر بھی ہنسانے والوں کی ضرورت ہے۔ بدقسمتی یہ ہے کہ وہ بھی اب نہیں رہے۔ لے دے کر ایک انور مقصود ہیں۔ بطور ڈرامہ نگار میں ان کا معترف ہوں۔ ایک دور میں انہوں نے بہت اچھا مزاح لکھا۔ ان کے سوتے مگر مدت ہوئی خشک ہو چکے۔ ہمارا میڈیا اور ادبی تنظیمیں اس سے مزید مزاح کشید کرنا چاہتے ہیں مگر وہ اب موجود نہیں۔ لوگ ان کے جملوں پر عادتاً ہنس رہے ہوتے ہیں‘ وگرنہ ان جملوں میں اب ہنسانے کی صلاحیت باقی نہیں رہی۔ وہ خود کو دہراتے ہیں اور وہ بھی اس انداز میں کہ ہنسنے سے زیادہ اب رونے کو جی چاہتا ہے۔
یہ محض ادب کی بحث نہیں۔ یہ سماج کی بحث ہے۔ میں نے ابھی پسِ جدیدیت (Post Modernism) کا ذکر کیا ہے۔ یہ صرف ادب کا موضوع نہیں۔ یہ سوچ کا ایک زاویہ ہے جو مذہب سے لے کر سماجی علوم تک‘ ہر شعبۂ زندگی پر اثر انداز ہو رہا ہے۔ یہ اجتماعی شعور سے متعلق ایک فکری رجحان کا بیان ہے۔ اس کی تفہیم کے لیے جدیدیت کا فہم ناگزیر ہے۔ جدیدیت ہمارا سماجی تجربہ نہیں ہے۔ پسِ جدیدیت ان معاشروں کا موضوع ہے جو جدیدیت سے گزر چکے یا گزر رہے ہیں۔ ہم تو جدیدیت میں کبھی داخل ہی نہیں ہوئے۔ عالمگیریت نے ہمیں پسِ جدیدیت کے مباحث کا مخاطب بنا دیا ہے۔ یہ ہمارے لیے ایک نظری بحث تو ہے‘ عملی نہیں۔ عالمگیریت کے زیرِ اثر مگر ہم اس سے صرفِ نظر بھی نہیں کر سکتے۔
یہ 'عوامی دانش مند‘ ہیں جو ایسے موضوعات کو عوامی فورمز میں زیرِ بحث لاتے ہیں۔ ہمارے ہاں ایسے فورمز موجود ہی نہیں۔ موجود اس لیے نہیں ہیں کہ سماج کو ان کی ضرورت نہیں۔ گیلپ کا ایک سروے چونکا دینے والا ہے۔ لوگوں سے سوال کیا گیا کہ گزشتہ چند دنوں میں کیا آپ نے اخبار پڑھا ہے؟ نوے فیصد افراد کاجواب نفی میں تھا۔ جس سماج میں اخبار کا یہ عالم ہے‘ وہاں کتاب بینی کتنی ہوتی ہو گی؟ اب ایسی فضا میں دانش مند کا کیا کردار ہے؟
رہی سہی کسر سوشل میڈیا نے نکال دی۔ سیاست و سماج کے مسائل کو سمجھنے میں اس نے لوگوں کی ذہنی سطح کو مزید پست کر دیا ہے۔ اس کے مظاہر ہم سیاست میں آئے دن دیکھتے ہیں جس کا مظہر ٹی وی کے ٹاک شوز ہیں۔ پڑھے لکھے بھی جمہوریت کے مفہوم سے واقف ہیں نہ ریاست کی جدید صورت ہی کے بارے میں کچھ جانتے ہیں۔ اس فضا میں سیاسیات کے جدید مباحث سیاسی ڈسکورس کا کیسے حصہ بن سکتے ہیں۔ کالم میں جب 'کلٹ‘ یا 'پاپولزم‘ کی بات کی جاتی ہے تو اس کی تفہیم ہی نہیں ہوتی۔ کیا اس کا علاج یہ ہے کہ سیاسی مباحث کو رجال کی بحث تک محدود کر دیا جائے؟
مجھے معلوم نہیں کہ ڈاکٹر تحسین فراقی‘ ڈاکٹر ناصر عباس نیر اور قاسم یعقوب نے کانفرنس کے اجلاس میں 'عوامی دانش مند‘ کے نہ ہونے کی کیا وجوہات بیان کیں۔ رؤف پاریکھ صاحب اس کی روداد لکھیں تو شاید کچھ معلوم ہو سکے۔ اجلاس کے شرکا‘ عوامی دانش مند‘ بن سکتے ہیں۔ شرط بس یہ ہے کہ پبلک ڈسکورس میں دانش کی کوئی جگہ ہو۔ ہمارے لیے تو یہ اصطلاح ہی ابھی اجنبی ہے۔ ہم واعظ سے واقف ہیں یا پھرشعلہ بیان مقررین سے۔ اس لیے سماج میں ہیجان ہے‘ وعظ و نصیحت ہے‘ دانش مندی کہیں نہیں۔ دانش مند کو ہم نے مار دیا یا ہجرت پر مجبور کر دیا۔ جو یہاں ہیں‘ وہ اپنے حجروں میں بند ہیں یا ان کی جلوہ نمائی ہوتی ہے تو ادبی کانفرنسوں کی حد تک۔