فواد چودھری گرفتار ہوگئے اور اسی الزام میں مطلوب عمران خان آزاد ہیں۔ر یاست و حکومت کے رویے میں یہ تفاوت‘کیا کسی حکمت پر مبنی ہے؟
اس کا ایک لفظی جواب ہے: نتیجہ۔ فواد چودھری صاحب کی گرفتاری پر کوئی قابل ِذکر احتجاج نہیں ہوا۔زندگی حسبِ معمول رواں دواں رہی۔ عوام کے صفوں میں کوئی بڑا اضطراب دکھائی نہیں دیا۔ ان کے اہلِ خانہ‘ خیر خواہ اور دوست احباب پریشان ہوئے۔ میڈیا کے ٹاک شوز کو نیا مواد ہاتھ لگا۔ چوپال اور بیٹھک کی مجالس میں وقت گزاری کے لیے ایک موضوع ہاتھ آ گیا۔ ایک سیاسی کارکن کی گرفتار کا یہی نتیجہ نکل سکتا تھا۔
عمران خان صاحب کا معاملہ یہ نہیں ہے۔وہ ایک مقبول سیاسی راہ نما ہیں۔ان کی گرفتاری عوام کے ایک بڑے حلقے کو مشتعل کر سکتی ہے۔ لوگ سڑکوں پر نکل سکتے اور ایک ہنگامہ برپا کر سکتے ہیں۔حکومت کے لیے امن و امان کا مسئلہ کھڑا ہو سکتا ہے۔ معمول کی زندگی متاثر ہو سکتی ہے۔ حکومت کی پہلی ترجیح زندگی کے معمولات کو برقرار رکھنا ہے۔ وہ ایسے اقدامات سے ہر ممکن حد تک گریز کرتی ہے جن کا نتیجہ ہنگامہ آرائی ہو سکتا ہے۔اسی لیے عمران خان کی گرفتاری سے پہلے سو بار سوچا جائے گا۔ اسی کا نام سیاسی عصبیت ہے۔
کیا اس کا مطلب یہ ہے کہ اس ملک میں دو طرح کے قوانین ہیں:طاقتور کے لیے اور‘ عام آدمی کے لیے اور؟ عام آدمی کے خلاف مقدمہ قائم ہو توانتظامیہ سرعت کے ساتھ اقدام کرتی ہے۔ خاص کا معاملہ ہو تو اس کے ہاتھ پاؤں ٹھنڈے پڑ جاتے ہیں۔ایسا کیوں ہے؟ ان سوالات کو سماجی ا خلاقیات کے پہلو سے دیکھیں گے تو ان کے جواب کچھ اور ہوں گے۔سیاسی حرکیات کے پہلو سے غور کریں گے تو کچھ اور۔ میں انہیںسیاسی پہلوسے دیکھ رہا ہوں۔ اسی لیے میں نے اس کا ایک لفظی جواب دیا ہے: نتیجہ ۔
ریاست کے پیشِ نظرچند مقاصدہوتے ہیں۔سب سے بڑا مقصد عوام کے جان و مال کا تحفظ ہے۔اس کی اوّلیت کو سامنے رکھتے ہوئے‘ ریاست بعض اوقات ایسے فیصلے کرتی ہے جس سے کوئی قانون یا تصورِ قانون مجروح ہوتا دکھائی دیتا ہے‘لیکن عوام کا مفاد اسی کا متقاضی ہوتا ہے۔یہ اسی کی ایک مثال ہے کہ حکومت فوادچودھری صاحب کو تو گرفتار کرتی ہے مگر عمران خان پر ہاتھ ڈالنے سے گریز کرتی ہے۔
ایک فرد کو جب کسی معاشرے میں سیاسی عصبیت حاصل ہو جاتی ہے اور حکومت بھی اس کے مخالفین کے پاس ہوتی ہے تو ریاست کو اُس کے خلاف اقدام کرتے وقت سو بار سوچنا پڑتا ہے۔اب جو فیصلہ بھی دیا جائے گا‘ اس کے بارے میں یہی سمجھا جائے گاکہ یہ فیصلہ متعصبانہ اورسیاسی مخالفت پر مبنی ہے۔یوں اس سے عوام کے ایک طبقے میں اشتعال پیدا ہوتاہے جو امنِ عا مہ کو متاثر کرنے کا باعث بنتا ہے۔شیخ مجیب الرحمن اس کی ایک مثال ہیں۔بنگال کے لوگ اس پر سوچنے کے لیے آمادہ ہی نہیں ہوئے کہ اگر تلہ سازش مقدمے میں سچائی کتنی تھی۔اسی طرح ذوالفقار علی بھٹو صاحب کے بارے میں بھی یہ بحث غیر اہم ہوگئی کہ وہ احمد رضا قصوری صاحب کے والد کے قتل میں ملوث تھے یا نہیں۔ تاریخ کے حافظے میں صرف یہ بات محفوظ رہی کہ ایک آمر نے اپنے اقتدار کو بچانے کے لیے اسے پھانسی چڑھا دیا۔ عمران خان صاحب نے چیف الیکشن کمشنر کے بارے میں جو کچھ کہا‘ اس سے آگے کچھ کہا نہیں جا سکتا۔ اس کے باوجود اگروہ گرفتارہوتے ہیں تو اسے سیاسی گرفتاری ہی سمجھا جا ئے گا۔
عمران خان کو آج سیاسی عصبیت حاصل ہے۔وہ ایک مقبول عوامی رہنما ہیں۔ حکومت ان کے خلاف جو اقدام کرے گی‘اسے سیاسی تناظر ہی میں دیکھا جا ئے گا۔ان کو اگرعدالت نا اہل قرار دے دے تو اس کو بھی ایک سیاسی فیصلہ سمجھا جا ئے گا۔ ماضی میں اگر اہلِ سیاست کے خلاف عدالتی فیصلے‘سیاسی اعتبار سے مؤثر ثابت نہیں ہوئے تو عمران خان صاحب کے معاملے میں بھی یہی ہو گا۔عدالت کا کوئی فیصلہ اگر وسیع تر عوامی حلقے میں منصفانہ نہ سمجھا جائے تواس کے دور رس نتائج نکلتے ہیں جو ریاست کے لیے نقصان دہ ثابت ہوتے ہیں۔اس لیے اہلِ سیاست کے مقابلے کے لیے سب سے موزوں میدان‘ سیاسی میدان ہے۔
جن کا خیال ہے کہ عمران خان صاحب کی سیاسی قیادت‘اس ملک کے لیے مضر ہے‘ان کے لیے ایک ہی راستہ ہے اور وہ ہے عوام سے رجوع۔ اگر ان کے پاس کوئی دلیل ہے تو عوام کی عدالت میں رکھیں۔ سیاسی جماعتوں کو یہی کرنا چاہیے اور اہلِ دانش سمیت دوسرے طبقات کو بھی۔اس کے بعد فیصلہ عوام پر چھوڑ دینا چاہیے۔عوام کا فیصلہ غلط ہو سکتا ہے اور صحیح بھی۔جمہوریت اسی کا نام ہے۔
ریاست کا کردارارتقا پذیر ہے۔پاکستان میں یہ ارتقا بہت سست ہے۔ یہاں جمہوری کلچر عہدِ طفولیت میں ہے۔با اثر طبقات اس کی نشو ونما میں حائل ہیں۔جمہوری کلچر میں اختیارات کی تقسیم اورادارہ سازی اہم ہے۔ یہاں کہنے کو تو ریاست کے سب ہی ستون موجود ہیں لیکن عملاً یہ ریاست ایک ستون پر کھڑی ہے۔دیگر دکھائی دینے والے ستون دراصل اس کی معاونت اور تائید کے لیے ایستادہ ہیں۔اس لیے کسی ادارے کا فیصلہ آزادانہ نہیں سمجھا جاتا۔
ایسی بہت سی مثالیں ہیں جو بتاتی ہیں کہ پاکستان میں ابھی ادارے اپنی آزادی اور انصاف پسندی کا تاثر قائم نہیں کر سکے۔ اگر ایسا ہوتا تو عمران خان صاحب کے خلاف آنے والے عدالتی فیصلوں کو عدالت ہی کا فیصلہ سمجھا جاتا۔اس وقت ایسا نہیں ہے۔اس لیے ان کے خلاف اگر کوئی عدالتی فیصلہ آتا بھی ہے تو اس کو سیاسی فیصلہ سمجھا جا ئے گا‘ایسے ہی جیسے بھٹو صاحب یا شیخ مجیب الرحمن کے خلاف عدالتی فیصلوں کو سیاسی قرار دیا گیا۔
اپنا اعتماد قائم کرنے کے لیے‘ہمارے ریاستی اداروں کوابھی بہت کچھ کرنا ہو گا۔جب اعتماد کا وہ دور آئے گا تو اس وقت مقبول راہ نماؤں کے خلاف بھی عدالتی فیصلے مؤثر ہوں گے۔اس وقت تک واحد راستہ عوامی شعور پر اعتماد ہے۔موجود ابلاغی ذرائع سے عوام تک اپنا نقطۂ نظر پہنچایا جائے۔اگر کسی فرد کی سیاسی قیادت کسی کی نظر میں مضر ہے تو اس کے اسباب عوام کو بتائے جائیں۔اگر کسی کے پاس اپنے موقف کی تائید میں کوئی واقعاتی شہادت موجود ہے تو اسے عوامی عدالت میں پیش کیا جائے۔اس کے بعد فیصلہ عوام پر چھوڑ دیا جائے۔
یہ حق‘کسی ریاستی ادارے‘سیاسی جماعت یا میڈیاکو حاصل نہیں کہ وہ اپنی رائے عوام پر زبردستی مسلط کرے۔خدائی فوجدار بننے کا حق کسی کو آئین نے دیا ہے نہ اللہ تعالیٰ نے۔کسی کی نگاہ میں اگر عوام کسی غلط فیصلے پرآمادہ ہیں تو وہ کیا کر سکتا ہے؟عوام اپنے نفع نقصان کے بارے میں فیصلہ کرنے کا حق رکھتے ہیں اور ان کے اس حق کا احترام ہو نا چاہیے۔
پاکستان میں جب ادارے اپنی ساکھ کے بارے میں حساس ہوں گے توعدالتوں پر عوام کا اعتماد قائم ہو جائے گا۔اس وقت سمجھا جائے گا کہ قانون سب کے لیے یکساں ہے۔یہ اس کا سماجی پہلو ہے۔سماج میں جب اخلاقیات کو فیصلہ کن حیثیت حاصل ہو جاتی ہے تو اس کے بعداداروں کے فیصلے سیاسی نہیں رہتے۔سماجی اخلاقیات کا تعلق سماج کے اخلاقی شعور کے ساتھ ہے۔جہاں یہ شعور ناپختہ ہو‘وہاں اخلاقیات کے معیار پرفیصلے نہیں ہو سکتے۔آج پاکستان کی ترجیح سیاسی استحکام ہے۔یہ استحکام متقاضی ہو توایک طرح کے مقدمے میں فواد چودھری گرفتار ہو سکتے ہیں اور عمران خان آزاد رہ سکتے ہیں۔یہ سیاسی حرکیات کا مسئلہ ہے اور اس کو اسی تناظر میں دیکھنا چاہیے۔اس کو سماجی اخلاقیات کی روشنی میں نہیں سمجھاجا سکتا۔