احوال‘مقامات‘تاریخ‘فکر ونظر‘علم و تحقیق اورفلسفہ وتصوف جیسے گل ہائے رنگا رنگ کو‘مخدومی فتح محمد ملک صاحب نے ایک گلدستے کی صورت میں جمع کر دیاہے اور اس کا نام رکھا ہے:''آشیانۂ غربت سے آشیاں در آشیاں‘‘۔میں نے گزشتہ کئی دن ان کی صحبت میں گزارے ہیں۔ان کی خوشبو کو محسوس کیاہے۔یہ خود غرضی ہوتی اگر میں اس مہک کواپنے پڑھنے والوں تک نہ پہنچاتا۔کہنے کو یہ ایک فرد کی سرگزشت ہے مگراس کے دوامتیازات ایسے ہیں جس نے اسے ایک شخص کے احوال سے اٹھا کر‘ایک وسیع تر فکری افق دے دیاہے۔یوں یہ ایک فردکی زندگی کا روزنامچہ نہیں‘ ایک عہد کی فکری داستان ہے۔پہلا امتیاز تو یہ ہے کہ ملک صاحب نے اس میں اپنے علمی و فکری سفر کے ارتقائی مراحل کو بیان کیااورشخصی احوال کے ذکر سے دانستہ گریز کیا ہے۔ہمیں یہ معلوم نہیں ہوتا کہ ان کی اولاد میں کون کون شامل ہیں اوروہ کیا کرتے ہیں؟پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں کتنے ہیں؟خود نوشت میں یہ تذکرہ ممنوع نہیں اور ان رشتوں کا ذکرکوئی برائی بھی نہیں۔ملک صاحب کے بچے ماشا اللہ نامور ہیں اور آپ اپنا تعارف ہیں لیکن انہوں نے غالباًدانستہ یہ کوشش کی ہے کہ اپنی ذاتی خوشیوں اورغموں کو اپنی ذات تک ہی محدود رکھا جائے۔
اس خود نوشت کادوسرا امتیاز یہ ہے کہ یہ پاکستان کی نظریاتی تاریخ ہے۔مورخ اور سکالر میں فرق یہ ہے کہ مورخ محض وقائع نگار ہوتا ہے۔ایک سکالرہر واقعے کو ایک وسیع تر فکری تناظر میں دیکھتا ہے۔ملک صاحب نے تاریخ کے ایک عالم کی نظر سے پاکستان میں پیش آنے والے واقعات کو دیکھا ہے۔ہمارے ملک کی ایک فکری تاریخ ہے۔اس میں نظریات کے بناؤ اور بگاڑ کے ساتھ‘فکری مکالمے اورتصادم کے واقعات بھی رقم ہیں۔انہیں عام طور پر بیان نہیں کیاجاتا۔ملک صاحب نے آپ بیتی کے پردے میں اس فکری تاریخ کو بیان کر دیا ہے۔میں نے اس کتاب کامطالعہ شروع کیا توابتدا میں یوں لگا جیسے اپنی کہانی پڑھ رہا ہوں۔ملک صاحب کے والدِ محترم کا نام گل محمد ہے۔میرے والدِ گرامی کا نام گل حسین ہے۔ دونوں امام مسجد اور خطیب تھے۔ملک صاحب کے والد ماہنامہ ''مولوی‘‘ پڑھتے تھے۔میرے والد بھی ''مولوی‘‘ کے خریدارتھے۔میں نے تبرکاً اس کے چند پرچے سنبھال رکھے ہیں۔ ملک صاحب گورنمنٹ کالج کیمبل پورمیں پڑھتے رہے۔ میں بھی گورنمنٹ کالج اٹک کا طالب علم رہا۔کیمبل پور کا نیا نام اٹک ہے۔مجھے ان کی طرح ڈاکٹرغلام جیلانی برق کا براہ راست شاگرد ہونے کا اعزازتو حاصل نہیں ہوا مگر مجھے ان کے ہاتھوں سے انعام لینے کی سعادت ضرور نصیب ہوئی‘جب میں فرسٹ ایئر کا طالب علم تھا۔اور ہاں نذر صابری صاحب میرے دور میں بھی کالج کے لائبریرین تھے؛ تاہم منو بھائی جیسا کوئی طالب علم میرا ہم جماعت نہیں تھا۔
ابتدائی ابواب کے بعد‘ملک صاحب اور میرے راستے جدا ہوجاتے ہیں۔ ملک صاحب صحافت سے ہوتے ہوئے درس وتدریس کے ہو گئے۔ صحافت اور سیاست کا چولی دامن کا ساتھ ہے۔یوں سیاست بھی ان کی زندگی کا حصہ بنی۔میں ڈاکٹر بننے نکلا اور بن نہیں سکا۔سماجی علوم اور کسی حد تک صحافت کی طرف چل نکلا۔یہیں ملک صاحب سے ملاقات ہو گئی۔ اس کی کہانی پھر کبھی۔اس وقت تو ملک صاحب کی داستانِ حیات کا ذکر مطلوب ہے۔ بعض معرکہ آراعلمی اور ادبی مباحث پاکستان کی تاریخ کا حصہ ہیں۔ایک بحث اسلام اور سوشلزم کی ہے۔1960 ء کی دہائی میں یہ بحث اپنے عروج پر تھی۔اسی دوران میں 'اسلامی سوشلزم‘ بھی اس بحث کا ایک اہم عنوان بن کر سامنے آیا۔اسلامی سوشلزم کیا ہے؟یوں سمجھیے کہ یہ مارکس کی غریب پرور 'جدلیاتی مادیت‘ کو اسلام کی روحانیت کا بپتسمہ دیناہے۔حنیف رامے مرحوم نے اس کا عَلم اٹھایا۔ان کی ادارت میں نکلنے والا''نصرت‘‘ اس کا نقیب تھا جو کبھی ماہنامہ رہا اور کبھی ہفت روزہ۔دوسری طرف ماہنامہ ''چراغِ راہ‘‘تھا جو اسلام پسندوں کا ترجمان تھا۔اس کے مدیر پروفیسر خورشید احمد صاحب تھے۔اس نقطہ نظر کے مطابق سوشلزم ایک غیر اسلامی تصور ہے جس کے ساتھ اسلام کی پیوند کاری محض تکلف ہے۔
اختلاف اور اتفاق سے قطع نظر‘یہ علمی مکالمہ تھا اور نظریات کا ایک سنجیدہ طالب علم دونوں سے صرفِ نظر نہیں کر سکتا۔فتح محمد ملک صاحب کی رامے صاحب سے دوستی تھی اوراس کی وجہ فکری اتفاقِ رائے تھی۔ملک صاحب اسلامی سوشلزم ہی کو اسلام کی درست تعبیر سمجھتے ہیں۔ان کی اس خود نوشت سے ان مباحث کا سراغ ملتا ہے جو پاکستان کی فکری سیاست کے طالب علم میں مزید جاننے کا شوق پیدا کرتاہے۔اسی ضمن میں پروفیسر محمد عثمان کا ذکرِ خیر بھی ہے جو کیمبل پور کالج میں ملک صاحب کے استاد تھے۔وہ پروفیسرعثمان صاحب کی اقبال فہمی کی روایت ہی کو آگے بڑھاتے ہیں۔
نظریاتی حوالے سے ایک بحث پیپلزپارٹی کے داخلی حلقوں میں بھی جاری تھی۔یہ 'سائنٹیفک سوشلزم‘ اور 'اسلامی سوشلزم‘کے حامیوں کے مابین تھی۔بھٹو صاحب‘ ملک صاحب کے مطابق اسلامی سوشلزم کے قائل تھے۔یہ ہماری نظریاتی تاریخ کا ایک اہم موضوع ہے جس پرمزید تحقیقی کام کی ضرورت ہے۔پیپلزپارٹی کے تذکرے میں جے اے رحیم مرحوم کا ذکر بھی آیا۔ایک مرتبہ انہیں بھٹو صاحب کے ہاتھوں ذلت اٹھانا پڑی اور اس کو بہت شہرت ملی۔ملک صاحب اس کی تائید نہیں کرتے مگر اس واقعے کا جو پس منظر بتاتے ہیں‘اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ جے اے رحیم صاحب نے خود کو اس سلوک کا مستحق ثابت کیا تھا۔
اقبال‘ ملک صاحب کا عشق ہے۔انہوں نے عمر کا ایک بڑا حصہ فکرِ اقبال کی پرتیں کھولنے میں صرف کیا ہے۔اس کتاب میں اس کی جھلکیاں جگہ جگہ دیکھی جا سکتی ہیں۔ وہ جس طرح گوئٹے کے ''نغمۂ محمد‘‘ اور پھر اقبال کے ترجمے ''جوئے آب‘‘ کا ذکر کرتے اور دانشِ شرق کی بازیافت میں دونوں بڑی شخصیات کے فکری قرب کو بیان کرتے ہیں‘اس کامطالعہ ایک شاندارعلمی تجربہ ہے۔ ادب بھی ملک صاحب کا خصوصی میدان ہے۔اس کتاب میں‘ وہ کہیں قرۃ العین طاہرہ اور قرۃ العین حیدر کا تقابل کرتے ہیں اور کہیں فیض صاحب اورجناب احمد ندیم قاسمی کے اختلاف کوصحیح تناظر میں ہمارے سامنے لاتے ہیں۔ان دونوں شخصیات پر ملک صاحب کی مستقل تصانیف موجود ہیں۔اسی طرح ہمیں انجمن ترقی پسند مصنفین کے احوال اور تصورِ پاکستان کے حوالے سے ان کے موقف کو سمجھنے کا بھی موقع ملتا ہے۔ملک صاحب اسلامی یونیورسٹی کے ریکٹر رہے ہیں۔انہوں نے یہاںجو دیکھا‘اس کے احوال بھی بیان کیے ہیں۔اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ اس ملک میں اعلیٰ تعلیم کے ساتھ کیا سلوک ہوتا ہے اور کس طرح ایک شاندارادارہ‘آج جائے عبرت بن چکاہے۔مقطع میں بس ایک سخن گسترانہ۔ملک صاحب نے اسلامی یونیورسٹی میں اپنے رفیقِ کار ڈاکٹر ظفراسحاق انصاری مرحوم کا ذکر بھی کیا ہے۔میرا دل یہ کہتا ہے کہ جس اسلوب میں ان کا تذکرہ ہواہے‘اس طرح نہ ہوتا تو اچھا ہوتا۔
کالم کی قلتِ داماں اس کتاب کے مباحث کا پوری طرح احاطہ کرنے میں مانع ہے۔میں نے توا س کتاب کے ہر جملے کو تبرک سمجھا ہے۔ملک صاحب نے جس طرح ہماری نظریاتی تاریخ کے گم شدہ ابواب کو بازیافت کیا ہے‘اس نے پاکستان کے ہر طالب علم کے لیے‘اسے ایک 'ناگزیر مطالعہ‘(Must Read) بنا دیا ہے۔جو اس کتاب میں ہے‘ شاید کہیں اور نہ مل سکے۔ملک صاحب کے اسلوبِ تحریر نے علمی مباحث میں کہانی کی دلچسپی پیدا کر دی ہے۔میری دعا ہے کہ ملک صاحب کا قلم تادیر رواں رہے اور صریرِخامہ سے نوائے سروش بلند ہوتی رہے۔