کیا آج ہمیں ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے؟
اس ملک کے دانش کدوں میں‘ ہر چند سال بعد یہ سوال اٹھتا ہے اور پھر اس کی گونج ہر طرف سنائی دینے لگتی ہے۔ روایتی سیاست کے ناقدین‘ اپنے دلائل کو قلم اور زبان کی سان پر چڑھاتے اور بزعمِ خویش اتنا صیقل کر دیتے ہیں کہ یہ ایک روشن اور مسلمہ مقدمہ بن جاتا ہے۔ اپنے گمان کو اس یقین کے ساتھ پیش کرتے ہیں کہ اس قوم کو درپیش جملہ مسائل کا حل یہی ہے۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے اکثر نقیب‘ روایتی سیاسی جماعتوں کے گملوں میں نشو ونما اور پھر شہرت پاتے ہیں۔ کسی لمحے ان کی اَنا کو ٹھیس پہنچتی ہے تو انہیں خیال آتا ہے کہ یہ روایتی سیاست‘ سب خرابیوں کی جڑ ہے۔
اقتدار کے حقیقی مرکز میں براجمان‘ وہ نا بغہ ہائے روزگار‘ جو سیاسی حرکیات پر نظر رکھنے کی نوکری کرتے ہیں‘ اس صورتِ حال سے اپنے مقاصدکشید کرتے ہیں۔ اگر کوئی مقبول نیا چہرہ ان کے ہاتھ لگ جائے تو روایتی سیاست کے شاکی‘ اس کے گرد جمع کر دیے جاتے ہیں۔ چند برسوں میں‘ یہ کانِ نمک میں نمک ہو جاتا ہے۔ ایک بار پھر ہمارے دانش کدوں سے صدا بلند ہوتی ہے: ملک کو ایک نئی سیاسی جماعت کی ضرورت ہے۔ یوں یہ دائرے کا ایک لاحاصل سفر ہے جو کبھی ختم نہیں ہوتا۔ اگر آپ نے غلام عباس کا لافانی افسانہ ''آنندی‘‘ پڑھ رکھا ہے تو اس صورتِ حال کو بہتر طور پر سمجھ سکتے ہیں۔
سیاسی جماعت کیا ہوتی ہے؟ یہ جدید سیاسی نظام کا ایک جزو ہے۔ جدید ریاست کے وجود میں آنے کے بعد‘ تبدیلیٔ اقتدار کے لیے جو لائحہ عمل تشکیل پایاہے‘ اس میں بنیادی کردار سیاسی جماعت کا ہے۔ جدید ریاست میں یہ تبدیلی جمہوری عمل کے ذریعے آتی ہے۔ سیاسی جماعت جمہور کو جمع کرنے کے لیے ایک وسیلہ بنتی ہے تاکہ ہم خیال مل کر اپنی رائے کو نتیجہ خیز بنا سکیں۔ نتیجہ خیزی سے مراد اقتدار تک رسائی ہے۔
اہلِ اقتدار کو اگر عوام کی اکثریت کا اعتماد حاصل ہو تو یہ ریاست کو مستحکم رکھتا ہے۔ حکومت تو جبر سے بھی قائم ہو جاتی ہے لیکن وہ غیر مستحکم ہوتی ہے۔ قدیم ادوار میں اقتدار اس قبیلے کو سونپا جاتا تھا جسے سیاسی عصبیت حاصل ہوتی تھی۔ اسی اصول پر‘ سماجی ارتقا کے ساتھ سیاسی جماعتیں وجود میں آئیں اور سیاسی عصبیت کو منظم کرنے کا وسیلہ بنیں۔ سیاسی جماعت کا قیام کوئی مصنوعی عمل نہیں ہے۔ یہ اقتدار کے حصول اور تبدیلی کے لیے قائم سیاسی نظام کا حصہ ہے۔ اس سے سماجی اصلاح کا کوئی کام نہیں لیا جا سکتا کیونکہ اس کی تخلیق اس مقصد کے لیے نہیں ہوتی۔
سیاسی جماعت کے بارے میں یہ بھی واضح رہنا چاہیے کہ یہ کسی سماج کی سیاسی سرمایہ کاری کا حاصل ہے۔ سیاسی جماعتوں میں استحکام‘ دنوں میں نہیں‘ عشروں میں آ تا ہے۔ پیپلز پارٹی اس ملک کی واحد سیاسی جماعت ہے جو اپنے قیام کے چند سال بعد اقتدار تک پہنچ گئی۔ یہ بھی ایک سانحے کے باعث ہوا۔ اگر پاکستان متحد رہتا تو 1971ء میں اسے اقتدار نہیں مل سکتا تھا۔ اس لیے وہ سیاسی جماعتیں‘ جو ایک طویل عرصہ تک مشکلات کے باجود اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہیں‘ اپنی خرابیوں کے باوجود‘ ریاست کے لیے ایک اثاثہ ہیں۔ انہیں بیک جنبشِ قلم رد کرتے ہوئے‘ یہ خیال کرنا کہ کوئی نئی سیاسی جماعت برائلر مرغی کی طرح دنوں میں بڑی ہو جائے گی‘ ایک خواب ہے اور اقتدار کی سیاست میں خواب کے لیے کوئی جگہ نہیں۔
سیاسی احوال کی اصلاح بھی سیاسی جماعت بنا کر نہیں ہو سکتی۔ ایک سیاسی جماعت میں وہی شامل ہوگا جسے اقتدار کی سیاست سے دلچسپی ہو گی۔ اسی لیے میں نے عرض کیا کہ سیاسی جماعت کا ڈھانچہ کسی سماجی تبدیلی کے لیے سازگار نہیں ہوتا۔ سیاسی جماعت کی حکمتِ عملی اس سوال کے گرد گھومتی ہے کہ اقتدار تک رسائی کیسے ممکن ہے؟ جیسے ہی یہ سوال اٹھتا ہے‘ سیاسی جماعت کا سامنا تلخ زمینی حقائق سے ہوتا ہے۔ حقیقت پسندی سیاست کا پہلا مطالبہ ہے۔ اگر سیاسی جماعت حقیقت پسند نہ ہو تو اقتدار میں نہیں آ سکتی۔ حقیقت پسند‘ مثالیت پسند نہیں ہو سکتا۔ یوں سیاسی جماعت سماجی تبدیلی کا کوئی خواب نہیں دیکھ سکتی۔
عوام بھی سیاست کو ہمیشہ حقیقت پسندی کی نظر سے دیکھتے ہیں۔ میں ہر طرح کے سماجی حلقوں میں بیٹھا ہوں۔ یہ اَن پڑھوں کی مجلس ہو یا پڑھے لکھوں کی‘ میں نے ان میں‘ اس باب میں کم اختلاف پایا ہے کہ جماعت اسلامی کے لوگ سب سے بہتر ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود لوگ ووٹ نہیں دیتے۔ جب ان سے پوچھا جاتا ہے کہ ان کو اچھا سمجھتے ہوئے بھی‘ وہ جماعت کو ووٹ کیوں نہیں دیتے توسب ایک ہی وجہ بتاتے ہیں: یہ اقتدار تک نہیں پہنچ سکتے۔ یہ رائے کیوں بنتی ہے؟ عوام دیکھ رہے ہوتے ہیں کہ جو عوامل اقتدار تک پہنچاتے ہیں‘ وہ جماعت اسلامی کے حق میں نہیں ہیں۔ یہ عوامل کیا ہیں: سرمایہ‘ برادری‘ مقتدر قوتوں کی تائید‘ تھانہ کچہری کی سیاست‘ غیر سیاسی سوچ‘ عوام کے حقیقی مسائل سے لاتعلقی۔
بعض اوقات ایک دو عوامل آپ کے حق میں ہوتے ہیں۔ اس کے باوجود اقتدار کی دیوی آپ پر مہربان نہیں ہوتی۔ اس کی وجہ یہ ہوتی ہے کہ آپ سیاسی کامیابی کے لیے مطلوب سیاسی عصبیت سے محروم ہوتے ہیں۔ شاہد خاقان عباسی اس کی ایک مثال ہیں۔ وہ ایک نیک نام سیاستدان ہیں۔ ان کے پاس پیسہ بھی بہت ہے۔ برادری بھی ہے۔ اس کے باوجود کوئی یقین سے یہ نہیں کہہ سکتا کہ وہ اپنے حلقۂ انتخاب میں جیت جائیں گے۔ وجہ یہ ہے کہ ابھی ان کو وہ سیاسی عصبیت حاصل نہیں ہے جو سیاسی کامیابی کے لیے ضروری ہے۔
جس دن قدیم سماجی عوامل تبدیل ہوگئے اور ان کی جگہ نئے عوامل نے لے لی‘ عوام کی رائے ان کے تابع ہو جائے گی۔ جیسے ہی حسنِ کردار‘ علم‘ خدا خوفی‘ غریب پروری جیسے عوامل عوام کی نظر میں فیصلہ کن ہو گئے‘ سیاسی قیادت تبدیل ہو جائے گی۔ یہ تبدیلی ایک سماجی جد وجہد کے نتیجے میں آئے گی نہ کہ سیاسی جماعت بنانے سے۔ سماجی تبدیلی کی جدوجہد اقتدار کی سیاست سے بے نیاز ہو کر ہی کی جا سکتی ہے۔
ہماری ضرورت نئی سیاسی جماعت کا قیام نہیں‘ موجود سیاسی جماعتوں کی اصلاح اور تطہیر ہے۔ اس کی دوصورتیں ہیں۔ ایک یہ کہ اصلاح پسند اقتدار کی خواہش سے بے نیاز ہوکر ان سیاسی جماعتوں میں شامل رہیں اور پارٹی کے فورمز پر حق بات کہتے رہیں۔ اس سے قیادت پر داخلی دباؤ بڑھتا ہے۔ دوسری صورت ایسے مضبوط سماجی اور فکری حلقوں اور فورمزکا قیام ہے جو رائے عامہ پر اثر انداز ہونے کی صلاحیت رکھتے ہوں۔ عوام کے رجحانات بدلیں گے تو وہ سماجی عوامل بدلیں گے جو سیاست کی صورت گری کرتے ہیں۔ یوں یہ خارجی دباؤ ہوگا جو سیاسی جماعتوں پر اثر انداز ہوگا۔ جب ایک سیاسی جماعت کو معلوم ہوگا کہ کرپشن اور اخلاقی بے راہ روی کی شہرت رکھنے والا عوام کی نظروں میں ناپسندیدہ ہے تو وہ انتخابات میں اسے پارٹی ٹکٹ دینے سے گریز کرے گی۔ میں نے جس سیاسی نظام کی بات کی ہے‘ سیاسی جماعتوں کے ساتھ‘ اس میں ایک کردار پریشر گروپس کا بھی ہے جو اقتدار کی سیاست کا حصہ نہیں ہوتے مگر سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں۔
اس لیے میں ایک نئی سیاسی جماعت کے قیام کو ایک لاحاصل کوشش سمجھتا ہوں۔ یہ محض وقت گزاری کا ایک شغل ہے۔ اصلاح پسندوں کا اصل میدان سماج ہے۔ ان کا کام عوام کے سیاسی شعور کو بہتر بنانا اور اس کو ایک سمت دینا ہے۔ اس وقت عوامی سطح پر ایک اضطراب ہے جسے شعور نہیں کہا سکتا۔ یہ اضطراب اس بات کا اظہار ہے کہ جو کچھ ہو رہا ہے‘ عوام اس سے خوش نہیں۔ اہلِ دانش کا کام اس اضطراب کو ایک رُخ دینا ہے تاکہ یہ کسی مثبت تبدیلی کیلئے استعمال ہو۔ بصورتِ دیگر یہ دائرے کا سفر ثابت ہوگا۔