جس بات کا تعلق علمِ سیاسیات کے مبادیات سے ہے‘کیا ہماری ریاست کے ذمہ داران اس سے واقف نہیں ہیں؟
انسان حیرت میں ڈوب جاتا ہے جب والیانِ ریاست کے فرمودات سنتا ہے۔عام آدمی سے کیا گلہ کریں کہ ہم نے اس کی ذہنی رفعت کے لیے کوئی اہتمام نہیں کیا۔ درس گاہوں سے لے کر میڈیا تک‘تعلیم و تربیت کا ہر قدیم وجدید ادارہ‘اس کو اہمیت نہیں دیتا۔جدید ریاست کسے کہتے ہیں؟آئین کیاہوتا ہے؟سیاسی جماعتیں کیوں ضروری ہیں؟اگر عام شہری ان سوالات کے جواب سے واقف نہیں تو اس سے گلہ نہیں کرنا چاہیے‘ہمارا مسئلہ یہ ہے کہ ریاست کے نگہبان بھی ان مباحث سے ناواقف لگتے ہیں۔آج صرف ایک سوال کو موضوع بناتے ہیں:جدید ریاست کیا ہوتی ہے؟
سلطنت سے قومی ریاست تک کا سفر انسان کے فکری ارتقا کی شاندار داستان ہے۔سلطنت‘بادشاہ کی مطلق العنانیت کانام تھا۔وہی قانون ساز تھا اورقوتِ نافذہ بھی اسی کے پاس تھی۔انصاف کا ترازو بھی اسی کے ہاتھ میں تھا اور اس کے فیصلے کو کوئی چیلنج نہیں کر سکتا تھا۔اس کا فرمان قانون ہوتا تھا اوروہ کسی کے سامنے جوابدہ نہیں تھا۔بادشاہ کا منصب‘اسے وارثت کی بنیاد پر ملتا تھا یاتلوار کے زور پر۔
جدید ریاست تقسیمِ کار اور جمہوریت کے اصول پر کھڑی ہے۔ریاست کا اختیار اب تین حصوں میں منقسم ہوگیا۔ایک پارلیمان جسے قانون سازی کا حق حاصل ہے۔ دوسرا حصہ عدالت ہے جو قانون پر عمل درآمد کے لیے جوابدہ ہے۔اگر قانون کسی شرح و وضاحت کا محتاج ہے تویہ کام بھی عدلیہ کرتی ہے۔تیسرا شعبہ انتظامیہ ہے جو قانون پر عمل در آمد کا ذمہ دار ہے۔اختیارات کی یہ تقسیم ایک معاہدے کے تحت ہوتی ہے جسے آئین کہتے ہیں اور سب اس کی پاسداری کا حلف اٹھاتے ہیں۔جمہوریت کا مطلب ہے کہ یہ حق عوام کے پاس ہے کہ وہ کسے اقتدار کی باگ سونپتے ہیں۔
جدید ریاست میں استحکام کے لیے لازم ہے کہ ہر شعبہ اپنے دائرہ اختیار تک محدود رہے۔اسے اپنی حدود کااچھی طرح ادراک ہو۔جیسے ہی وہ ان سے قدم باہر رکھتا ہے‘اسے خالی جگہ نہیں ملتی اور لازماً اس کا قدم کسی دوسرے کی زمین پر ہوتا ہے۔گویا وہ کسی دوسرے کے اختیارات میں مداخلت کرتا ہے۔اس سے اداروں کے مابین تناؤ اور نتیجتاً فساد پیدا ہوتا اور اس طرح ریاست عدم استحکام سے دوچارہو جا تی ہے۔
قانون سازی‘اس تقسیم کے مطابق‘ پارلیمان کا اختیار ہے۔دوسرا کوئی ادارہ قانون سازی نہیں کر سکتا۔یہ حق صرف آئین کے پاس ہے کہ وہ پارلیمنٹ پر قانون سازی کے باب میں کوئی قدغن لگا سکتا ہے۔جیسے ہمارے آئین میں لکھ دیا گیا ہے کہ یہ ایوان کوئی ایسا قانون نہیں بنائے گا جوقرآن و سنت کی تعلیمات کے خلاف یا ان سے متصادم ہو۔اسی طرح بنیادی انسانی حقوق کو متاثر کرنے والا کوئی قانون بھی نہیں بن سکتا۔قانون سازی پارلیمان کا ایسا حق ہے‘ جس میں ریاست کا کوئی دوسرا ادارہ مداخلت نہیں کر سکتا۔ پارلیمان نے ایک قانون کیوں بنایا؟ارکان کی نیت کیا تھی؟اس کو پرکھنے کا حق آئین نے کسی کو نہیں دیا۔اگر کوئی ادارہ اپنے طور پر پارلیمان میں بیٹھے لوگوں کی نیتوں کے بارے میں فیصلہ کرتا اور اپنے اس تجزیے کی بنیاد پر کسی قانون کو کالعدم قرار دیتا ہے تو یہ اپنی حدود سے تجاوز ہے اور اس کا ناگزیر نتیجہ فساد اور عدم استحکام ہے۔
جدید ریاست میں ایک کردار سیاسی جماعت کا بھی ہے۔وہ عوام کے سامنے اپنا منشور رکھتی ہے اورعوام کو یہ موقع دیتی ہے کہ وہ اگر اس سے اتفاق کرتے ہیں تو اسے حقِ اقتدار سونپ دیں۔یہ حق جدید ریاست میں عوام کے پاس ہے۔وزیر اعظم کو بنانا اور ہٹانا پارلیمان کا کام ہے‘ کسی دوسرے ریاستی ادارے کا نہیں۔ایک سیاسی جماعت جب پارلیمان تک پہنچ جاتی ہے وہ قانون سازی کے عمل میں شریک ہوجا تی ہے۔اگر عوام اسے ووٹ نہیں دیتے یا پارلیمان میں اس کی نشستیں اتنی کم ہیں کہ وہ اپنی مرضی سے قانون سازی نہیں کر سکتی تو اسے یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ مقدمہ عدالت میں لے جائے اور اس سے یہ درخواست کرے کہ پارلیمان کا بنایا ہوا قانون منسوخ کر دیا جائے۔ سیاسی جماعت یہ حق رکھتی ہے نہ آئین عدالت کو یہ اختیار دیتا ہے کہ و ہ پارلیمان کا کام اپنے ہاتھ میں لے لے۔
جب ایک سیاسی جماعت قانون سازی یا کسی قانون کی منسوخی کے لیے عدالت سے رجوع کرتی ہے تو در اصل اپنے حدود سے تجاوز کرتی ہے۔اس کی ایک مثال‘اس وقت ہمارے سامنے ہے۔تحریکِ انصاف پارلیمان کی اکثریتی جماعت تھی۔وہ یہ حق رکھتی تھی کہ پارلیمان میں قانون سازی میں شریک ہو۔وہ اپنے اس حق سے دست بردار ہوگئی۔لوگ روکتے رہ گئے مگر اس جماعت کے اراکینِ اسمبلی نے قومی اسمبلی جانے سے انکار کیا۔ سپیکر نے کچھ عرصہ ان استعفوں کو روکے رکھا تاکہ وہ لوٹ آئیں۔وہ اس پر مصر رہے اور انہوں نے سپیکر کو تنقید کا نشانہ بنایا کہ وہ استعفوں کی منظوری میں کیوں تاخیرکر رہے ہیں؟
تحریکِ انصاف کی غیر موجودگی میں‘ پارلیمان میں قانون سازی کا عمل جاری رہا۔ وقت گزر جانے کے بعد جب تحریکِ انصاف نے پارلیمان میں واپسی کا فیصلہ کیا تو ان کے استعفے منظور کر لیے گئے۔اب تحریکِ انصاف عدالت جاپہنچی کہ ان کی غیر موجودگی میں پارلیمان نے جو قانون سازی کی ہے‘اسے منسوخ کیا جائے۔ اس مقدمے میں دو کمزوریاں ہیں۔ ایک یہ کہ جب آپ کو قانون سازی میں اپنا کردار ادا کرنا تھا‘ آپ اپنی مرضی سے اس میں شریک نہیں ہوئے۔دوسرے یہ کہ جو کام پارلیمان نے کرنا ہے‘اس کے لیے آپ عدالت سے رجوع کر رہے ہیں۔ قانون بنانا یا کسی پرانے قانون کو ختم کرنا عدالت کا نہیں‘ پارلیمان کا کام ہے۔گویا آپ خود پارلیمان کے حق کو ختم کر رہے ہیں جو کسی طرح ایک سیاسی جماعت کے شایانِ شان نہیں۔مزید ستم یہ کہ عمران خان صاحب ایک سے زیادہ نشستوں سے کامیاب ہونے کے بعد بھی پارلیمان میں نہیں آتے اور ساتھ یہ گلہ کرتے ہیں کہ پارلیمان ہماری مرضی کے خلاف قانون سازی کیوں کر رہی ہے۔
تقسیمِ کار کا اصول یا سیاسی جماعت کا کردار‘علمِ سیاسیات کی بنیادی کتابوں میں لکھ دیا گیاہے۔یہ اس کے ابتدائی اسباق ہیں جوایک مبتدی کو پڑھائے جاتے ہیں۔ پاکستان میں کمال یہ ہے کہ اداروں کے اعلیٰ ترین مناصب پر موجود لوگ ان سے بے خبر دکھائی دیتے ہیں۔ سیاسی جماعت سب سے بڑی عدالت میں پیش ہو چکی اور ملک کے بڑے بڑے وکیل اس کے حق میں دلائل دے رہے ہیں۔ہماری عدالتوں کے پاس مقدمات کی کمی نہیں۔عدالت کو ایک ایسے کام میں الجھانا جواس کا ہے ہی نہیں‘عدالت کا وقت ضائع کرنا ہے۔
یہی ہمارا اصل مسئلہ ہے۔ہم نے جدید ریاست کے ماڈل پر ملک بنا لیا ہے لیکن اس کی روح کو نہیں جان سکے۔اس میں دوباتیں طے ہیں۔ایک یہ کہ کوئی مطلق العنان نہیں۔ہر کسی کا ایک دائرہ کار ہے اور وہ اس سے باہر قدم نہیں رکھ سکتا۔دوسرا جمہوریت میں حقِ اقتدار عوام کے منتخب نمائندوں کے پاس ہے۔ان دونوں سے جب انحراف ہوگا‘ ریاست میںعدم استحکام ہوگا۔ہم اگر عدم استحکام کا شکار ہیں تو اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم عوام کی رائے کا احترام کرتے ہیں اور نہ اپنی حدوں میں رہتے ہیں۔ کاش ہم اپنا اصل مسئلہ جان سکیں۔