پختونخوا کے اہلِ دانش کی سوچ‘ لاہور اور کراچی کے دانشوروں سے بہت مختلف ہے۔ اس کا اندازہ مجھے پشاور جا کر ہوا۔
یہ ادبی میلوں کا موسم ہے۔ چند روز پہلے لاہور میں ادبی ہنگامہ برپا رہا۔ فیض امن میلے میں بھارت کے ایک فلمی شاعر کی تقریر موضوع بنی۔ کراچی میں بھی یہ سرگرمی جاری ہے۔ میں نے موضوعات اور مقرر خواتین و حضرات کی فہرست پر ایک نظر ڈالی تو سب سے پہلے مجھے جس بات نے اپنی طرف متوجہ کیا‘ وہ یہی سوچ کا اختلاف ہے۔ زیرِ بحث موضوعات اور شرکا اتنے مختلف ہیں کہ حیرت ہوتی ہے۔
لاہور میں اس بار بھی کراچی کے تجربے کو دہرایا گیا۔ شرکا ایک جیسے اور موضوعات بھی کم و بیش یکساں۔ ان میلوں میں زیادہ تر وہی لوگ مدعو ہوتے ہیں‘ جو اپنے شعبوں میں نامور ہیں لیکن عوام کے لیے اب ان میں کوئی نیا پن نہیں۔ وہ اپنے تخلیقی جوہر کا بڑی حد تک اظہار کر چکے۔ لوگ ان کی تخلیقات سے واقف ہیں اور انہیں کثرت کے ساتھ ٹی وی چینلز پر دیکھتے ہیں۔ ان میلوں میں یہ دیکھا گیا ہے کہ ادبی کتابوں پرگفتگو کے لیے بھی میڈیا کے لوگ ہی بلائے جاتے ہیں۔ اس کا سبب مجھے اس کے سوا دکھائی نہیں دیتا کہ میڈیا میں منتظمین کی تحسین ہو جائے۔ دنیا میں کوئی کام افادیت سے خالی نہیں ہوتا‘ اس لیے مجھے ان میلوں کی افادیت سے انکار نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا یہ میلے‘ سماج میں کسی فکری ارتقا کو بھی مہمیز دے رہے ہیں؟
یہ میلے اسی وقت بامعنی ہو سکتے ہیں جب یہ سماج کے حقیقی مسائل کو زیرِ بحث لائیں اور اس کے ساتھ‘ ہم یہ بھی جان سکیں کہ معاشرے میں کون سے تازہ افکار جنم لے رہے ہیں۔ ان میلوں کی مدد سے سماج کی فکری تربیت ہو۔ مجھے ایک تسلسل کے باجود‘ ان میلوں کا یہ نتیجہ نکلتا دکھائی نہیں دیتا۔ ایک خاص طرز کا مزاح جسے سنتے ہوئے کئی سال ہو گئے۔ موضوعات میں بھی کچھ نیا نہیں۔ پشاور کا معاملہ مگر مختلف ہے۔ پشاور ادبی میلے میں جو موضوعات زیرِ بحث ہیں‘ وہ ہمارے زندہ مسائل ہیں۔ یہی نہیں بلکہ اس کے شرکا کی بڑی تعداد بھی نئے تخلیق کاروں پر مشتمل ہے۔ میں یہاں چند منتخب موضوعات کی ایک فہرست آپ کے سامنے رکھ رہا ہوں جس سے آپ کو اندازہ ہوگا کہ میں نے یہ مقدمہ کیوں قائم کیا ہے۔
پشاور یونیورسٹی اور انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز میں جو نشستیں ہوئی ہیں‘ ان کے موضوعات دیکھیے: ''عوام کے لیے سائنسی موضوعات پرتصنیفات‘ کلاسیکی ادب اور اسلامی تاریخ‘ مذہب اور ادب: بنیادی اشتراکات‘ ہندوکش کا ثقافتی تنوع‘ نصاب اور متنوع شناختیں‘ عدم تشدد: باچا خان اور مولانا وحید الدین خاں‘ اقبال اور فکرِ اسلامی کی تشکیلِ نو‘ مولانا روم کا پیغام‘ مسلم مذہبی انتہا پسندی اور متبادل بیانیہ‘ پختونخوا کی ادبیات اور میڈیکل ڈاکٹر‘ امریکی انخلا کے بعد کا افغانستان اور خطے کی سیاست۔ ان موضوعات پر چند مقبول مگر زیادہ تر ایسے نوجوان مقررین مدعو ہیں جنہوں نے ان فکری مباحث پر تحقیق کر رکھی ہے۔
اردو‘ انگریزی‘ ہندکو اور پشتو کی نئی تخلیقات پر بھی سیشن رکھے گئے ہیں اور علم و ادب میں تحقیقی کام کرنے والی شخصیات کے ساتھ بھی نشستوں کا اہتمام کیا گیا ہے۔ ڈاکٹر خالد مسعود‘ ڈاکٹر حسن الامین‘ عاصم بخشی اور کتنے ہی اہلِ علم ہیں جو ان مذاکروں اور پروگراموں میں شریک ہیں۔ جامعات کے نوجوان طالب علموں کے ساتھ اسلام ازم‘ پوسٹ اسلام ازم‘ پوسٹ ماڈرن ازم اور دیگر فلسفیانہ موضوعات پر بات ہو رہی ہے اور وہ شوق سے سن رہے ہیں۔ اسی طرح کہیں شمس الرحمٰن فاروقی کے ناول 'کئی چاند تھے سرِ آسمان‘ اور کہیں 'پاکستان کے عصری مسائل: گورننس‘ ترقی اور ماحولیات‘ جیسی کتابوں پر مباحثے ہو رہے ہیں۔ پوٹھوہار پر ڈاکٹر شاہد صدیقی کی کتاب پر بھی ایک نشست رکھی گئی ہے۔
ڈاکٹر سکندر تنگی اور جناب اسلم میر جیسے بہت سے علم دوست ہیں جنہوں نے اس میلے کے لیے دن رات ایک کیا ہوا ہے اور کسی شہرت کی خواہش سے بے نیاز‘ صرف یہ چاہتے ہیں کہ سماج کو فکری ارتقا کے راستے پر ڈال دیا جائے تا کہ ہم خود شناسی سے گزرتے ہوئے‘ کم از کم فکر کی دنیا میں تو خود کفیل ہو سکیں۔ اس میلے میں موضوعات کا اتنا وفور ہے کہ کوئی آدمی کوشش کے باوجود سب سے استفاہ نہیں کر سکتا۔
سوال یہ ہے کہ پختونخوا کا دانشور جو سوچ رہا ہے‘ اس کی جھلک کہیں اور کیوں دکھائی نہیں دیتی؟ یہ موضوعات لاہور اور پشاور میں کیوں زیرِ بحث نہیں؟ کیا یہ حالات کا فرق ہے؟ کیا اہلِ دانش کی فکری ترجیحات قومی سے زیادہ مقامی ہیں؟ یا یہ ان میلوں کے پس منظر میں کارفرما مقاصد کا اختلاف ہے؟
پاکستان گزشتہ چند دہاہیوں میں جن تبدیلیوں سے گزرا‘ ان کا جغرافیائی مرکز پختونخوا تھا۔ مذہبی انتہا پسندی اگرچہ پورے ملک کا مسئلہ ہے لیکن اس نے یہاں کے لوگوں کو سب سے زیادہ متاثر کیا۔ ہمارا سماجی ڈھانچہ جس طرح گھائل ہوا‘ اس کا جتنا گہرا احساس‘ پختونخوا میں پایا جا تا ہے‘ ملک کے دوسرے حصوں میں آباد اہلِ دانش شاید ان کی تشویش میں شریک نہیں۔
پشاور کے اہلِ علم اور دانشوروں میں‘ نہ صرف درپیش مسائل کا ادراک ہے بلکہ وہ ایک جذبے کے ساتھ‘ ان پر قابو پانے کے لیے بھی کوشاں ہیں۔ اس کی ایک مثال‘ یہاں کا انسٹیٹیوٹ آف مینجمنٹ سائنسز ہے۔ یہ سرکاری ادارہ ہے مگر لگتا ہے کہ کسی ترقی یافتہ ملک کی نجی یونیورسٹی ہے۔ اس کے ڈائریکٹر ڈاکٹر عثمان غنی نے اسے 'سنٹر آف ایکسیلینس‘ بنا دیا ہے۔ آج ملکی سرکاری یونیورسٹیوں میں تنخواہوں کے لالے پڑے ہوئے ہیں اور اس ادارے میں کم ازکم پچاس فیصد طلبہ و طالبات کو وظائف دیے جا رہے ہیں۔ افغانستان کے تین سو طالب علم یہاں پڑھ رہے ہیں۔
یہاں کے 'مرکز برائے اسلامی نظامِ مالیات‘ نے اس موضوع پر جو تحقیقی کتب شائع کی ہیں‘ ان کے معیار کو ایچ ای سی کی سطح پر سراہا گیا۔ یہ ادارہ آج پاکستان کے پانچ ممتاز ترین تعلیمی اداروں میں شامل ہے۔ یہاں کے طالب علم تخلیقی کاموں میں مصروف ہیں اور ڈاکٹر عثمان غنی کی قیادت پر‘ ایسے منصوبے بنا رہے ہیں جن کے لیے انہیں بڑے بڑے ادارے مالی معاونت کے لیے تیار ہیں۔ اس کی معاشی خود کفالت کا سبب‘ یہاں کی علمی اور انتظامی قیادت اور تخلیقی ذہن رکھنے والے طلبہ و طالبات اور تعلیم و تربیت کے لیے فراہم کیا گیا خوشگوار ماحول ہے۔ یہ ادارہ پشاور ادبی میلے میں بھی بھرپور کردار ادا کر رہا ہے۔
میں یہ بات کئی بار لکھ چکا کہ ریاست کی طرف دیکھنے کے بجائے‘ ہمیں اپنے سماجی سرمایے (Social Capital) کو بروئے کار لانا ہوگا۔ اس کے لیے جہاں ہمیں اپنے مسائل پر غور و فکر کرنا ہے‘ وہاں ان کا فکری اور عملی حل بھی تلاش کرنا ہے۔ پختونخوا میں لوگ اب ان خطوط پر سوچ رہے ہیں۔ میری تشویش مگر یہ ہے کہ قومی سطح پر اس نوعیت کی کوئی سرگرمی نہیں ہو رہی۔ اگر ادبی میلوں جیسی سرگرمیوں کو قومی سطح پر ایک وحدتِ فکر کے ساتھ منظم کیا جائے اور اسے مقامی اور گروہی مفادات سے بلند تر ہوکر ترتیب دیا جائے تو سماج کو زندہ کیا جا سکتا ہے۔ آج اکادمی ادبیات میں ڈاکٹر یوسف خشک جیسے متحرک لوگ موجود ہیں۔ وہ اپنے ادارے کو اس اجتماعی دانش کے فروغ کے لیے مرکزِ وحدت بن سکتے ہیں۔
اس کام کے آغاز میں‘ اس سوال کا جواب تلاش کرنا ضروری ہے کہ ادبی میلوں کے موضوعات میں اتنا فرق کیوں ہے؟ پختونخوا کے دانشور کی سوچ‘ ملک کے دوسرے حصوں کے دانشور کی سوچ سے مختلف کیوں ہے؟