زندگی کس ڈھنگ سے گزاری جائے کہ وہ ایک پُرمسرت تجربہ بن جائے؟
اس راز کو پانے کی خواہش نے بہت سے علوم اور فنون کو جنم دیا۔ ترغیب دلاتے مقرر (Motivational Speakers) اور قلم کار بھی اسی خواہش کا جواب ہیں۔ بالعموم انگریزی میں لکھی گئی کتابوں کو اردو میں پیش کیا گیا۔ ان میں بیان کردہ تراکیب کو استعمال میں لاتے ہوئے مقررین کا ایک گروہ پیدا ہوا۔ سہل طلب اور ہتھیلی پہ سرسوں جمانے کے خواہش مند اِن کے ارد گرد جمع ہوگئے۔ ایک مجمع لگ گیا۔ معلوم نہیں کہ لوگوں کے دن پھرے ہیں یا نہیں‘ ان مقررین اور قلم کاروں کے دن ہم نے ضرور پھرتے دیکھے ہیں۔
اس باب میں کچھ سنجیدہ علمی کام بھی ہوا ہے۔ جیسے جذباتی ذہانت (Emotional Intelligence) کا علم۔ نیورو سائنسز اور نفسیات کے انضمام سے وجود میں آنے والا یہ علم‘ آسودہ زندگی کے لیے پیش کیے جانے والے تصورات کے دلائل‘ انسان کے حیاتیاتی وجود میں تلاش کرتا اور ساتھ ہی یہ دعویٰ کرتا ہے کہ اس نے اپنے مقدمے کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کر دیا ہے۔ جیسے غصے کی صورت میں دماغ کے فلاں حصہ سے ایک کیمیکل نکلتا ہے جو سوچنے کی صلاحیت کو معطل کر دیتا ہے۔
موٹیویشنل سپیکر‘ ان تصورات کو روز مرہ واقعات یا مذہبی حوالے سے دلیل فراہم کرتا ہے۔ جذباتی ذہانت جیسے علوم کے وجود میں آنے کے بعد‘ اب وہی تصورات سائنسی دلائل کے ساتھ بیان ہو رہے ہیں۔ انہیں ایک طرف مذہب کے حق میں دلیل کے طور پر پیش کیا جاتا ہے اور دوسری طرف یہ سکھایا جاتا ہے کہ آدمی ان پر عمل کرے تو ایک خوشگوار زندگی گزار سکتا ہے۔
ان باتوں میں کچھ نیا نہیں۔ موٹیویشنل سپیکر‘ انہیں نیا بنا کر پیش کرتا ہے۔ وہ انہیں واقعات یا اندزِ بیان کا ایسا پیرہن عطا کرتا ہے جس سے وہ نئی دکھائی دیتی ہیں۔ کوئی نیا واقعہ یا کوئی نئی علمی دریافت‘ جس سے پرانی شراب نئی بوتلوں میں پیش کی جاتی ہے۔ اس میں کچھ غلط نہیں۔ نئی باتیں کم ہی دریافت ہوتی ہیں۔ انسانی رویوں کے بارے میں جو صدیوں پہلے درست تھا‘ وہی آج بھی درست مانا جاتا ہے۔ بیان کا اچھوتا پن‘ انسان کو جلدی متوجہ کرتا ہے۔ ایک ترغیبی مقرر اسی اچھوتے پن کی تلاش میں رہتا ہے۔ یہی بات اسے موجود لوگوں میں ممتاز بنا سکتی ہے۔
ایک بات البتہ ایسی ہے جو مجھے ہمیشہ کھلتی ہے۔ یہ مبالغہ ہے۔ کسی اصول پر اصرار کرنے کے لیے کسی واقعے کے بیان میں اتنا مبالغہ کر دیا جاتا ہے کہ وہ غیرفطری دکھائی دینے لگتا ہے۔ اس کے ساتھ ایک سوال یہ بھی پیدا ہوتا ہے کہ انسانی نفسیات‘ کیا ریاضی کے اصولوں پر کھڑی ہے اور کیا اسے ایسے اصولوں پر کھڑا کرنا ممکن یا مطلوب بھی ہے؟
زندگی کا حُسن کس میں ہے؟ ریاضیاتی اصولوں پر پورا اترتی زندگی یا انسانی فطرت کے مطابق گزرنے والے روز و شب؟ انسان اگر آزادیٔ عمل سے یکسر محروم ہو جائے تو اپنی تمام ترخوبصورتی کھو دے۔
دو تین روز پہلے ہمارے عہد کے مقبول ترین کالم نگار جاوید چودھری صاحب نے ضیا محی الدین صاحب کے احوال لکھے۔ جاوید صاحب ایک موٹیویشنل سپیکر اور قلم کار بھی ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ ضیا صاحب ایک لیجنڈ کیسے بنے۔ اس کے لیے انہوں نے جو شواہد جمع کیے‘ ان کے مطابق مرحوم ریاضیاتی اصولوں کی طرح زندگی میں ڈسپلن کے قائل تھے۔ مثال کے طور پر وہ آٹھ بجے چائے پیتے تھے۔ ملازم آٹھ بج کر دس سیکنڈ پر چائے لایا تو انہوں نے پینے سے انکار کر دیا۔ یا یہ کہ ساری عمر ایک خاص وقت پر سیب کی دو قاشیں کھاتے رہے۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ انہوں نے اکانوے سال کی عمر پائی ا ور کبھی بیمار نہیں ہوئے۔ تمام عمر انہوں نے کوئی دوا نہیں کھائی۔ اگر ہم طویل اور صحت مند عمر چاہتے ہیں تو ہمیں بھی انہیں رول ماڈل بنانا چاہیے۔
پہلی بات تو یہ کہ مجھے یہ روایت قبول کرنے میں تامل ہے۔ جنہوں نے جاوید صاحب سے یہ معمولات بیان کیے ہیں‘ انہوں نے مبالغہ کیا ہے۔ سیکنڈوں کی پابندی سے زندگی گزارنا عملاً محال ہے۔ یہ تسلیم کرنا بھی آسان نہیں کہ کوئی آدمی نوے برس سے زیادہ جیے اور بیماریوں سے محفوظ رہے۔ پھر یہ کہ اس طرح کے ریاضیاتی اصول اپنانے سے زندگی اجیرن تو ہو سکتی ہے‘ پُرسکون نہیں۔
اصول اس لیے ہوتے ہیں کہ زندگی آسان ہو جائے۔ اس لیے نہیں ہوتے کہ انسان ان کا غلام بن کر جیے۔ انسان کی زندگی کا حسن اس کی آزادیٔ عمل میں ہے۔ اس سے محرومی کا مطلب ایک بڑی راحت سے محرومی ہے۔ یہ شجر و حجر کی زندگی تو ہو سکتی ہے‘ انسان کی زندگی نہیں۔ ایک ڈسپلن کے تحت رہنا اور ریاضیاتی اصولوں کے ساتھ زندگی گزارنا یکساں نہیں ہے۔ آدمی کو فی الجملہ ایک نظم کے مطابق رہنا چاہیے لیکن ہم جس ماحول میں رہتے ہیں‘ وہ مختلف عناصر کے اشتراکِ عمل سے وجود میں آتا ہے۔ یہ سب عناصر‘ ہمارے دستِ قدرت میں نہیں ہوتے۔ اس لیے ہمارے لیے یہ ممکن ہی نہیں کہ ہم زندگی میں ریاضی کے اصول اپنا سکیں۔ لہٰذا زندگی میں اس کی گنجائش رہنی چاہیے کہ کہیں کسی طے شدہ بات سے انحراف ہو جائے تو انسان کسی جھنجھلاہٹ کا شکار نہ ہو۔ وہ اسے معمول کا واقعہ سمجھے۔
زندگی میں بے اعتدالی کے لیے بھی جگہ ہونی چاہیے۔ کبھی دل چاہتا ہے کہ من پسند لوگوں کی مجلس میں رات بیت جائے اور محض گپ شپ کی جائے۔ آدمی کے خوش اور صحت مند رہنے کے لیے یہ بھی اتنا ہی ضروری ہے جتنا پانی اور ہوا۔ ضیا محی الدین کے بارے میں اگر ان روایات کو درست مان لیا جائے تو یہ اطمینان کے ساتھ کہا جا سکتا کہ انہوں نے خو د ساختہ قید میں زندگی گزار دی۔ ایسی زندگی کامیاب تو ہو سکتی ہے‘ مسرور نہیں۔
انسان کی بے اعتدالی بھی اس کے اخلاقی شعور سے متجاوز نہیں ہو سکتی۔ جس کا اخلاقی شعور پختہ ہے‘ وہ کسی کو ایذا پہنچا کر خوش نہیں رہ سکتا۔ اگر وہ ایسا کرے گا تو بے چین ہو جائے گا۔ اسے چین نہیں آئے گا جب تک وہ اس کا ازالہ نہ کر لے گا۔ اس لیے اگر ہم ایک پُر سکون زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو اس کا درست طریقہ یہ ہے کہ انسان کے اخلاقی شعور کو پختہ کرتے ہوئے اس کی آزادیٔ عمل کو یقینی بنایا جائے۔
موٹیویشنل سپیکر بننے کیلئے ضروری ہے کہ انسانی نفسیات کا اچھا مطالعہ کیا جائے۔ انسانی نفسیات سے لاعلمی کے باعث ان مقررین کی تقاریر‘ اُن واعظین کے خطبات کی طرح ہوتی ہیں جو مذہب کی روح سے بے خبر رہ کر لوگوں کو مذہبی بنانے کی بے نتیجہ مشقت اٹھاتے ہیں۔ اردو میں سب سے اچھی موٹیویشنل تحریریں مولانا وحید الدین خان نے لکھی ہیں۔ یہ انگریزی کتابوں کا چربہ نہیں‘ مذہب اور سماج کے گہرے مطالعے کا حاصل ہیں۔
ایک آسودہ اور مطمئن زندگی ایک مذہبی آدمی ہی گزار سکتا ہے۔ اعتدال مذہب کی تعلیم کا جوہر ہے۔ وہ اگر کوئی پابندی لگاتا ہے تو ریاضیاتی اصولوں کے مطابق نہیں‘ انسانی فطرت کی رعایت سے لگاتا ہے۔ ان پابندیوں کا مطالبہ انسان کا اخلاقی شعور کرتا ہے۔ اس پر کبھی تفصیل سے لکھوںگا۔ آج تو انسان اور جمادات و نباتات کے فرق کو بیان کرنا مقصود تھا:
یا وسعتِ افلاک میں تکبیرِ مسلسل
یا خاک کے آغوش میں تسبیح و مناجات
وہ مذہبِ مردانِ خود آگاہ و خدا مست
یہ مذہبِ ملا و جمادات و نباتات