ذوالفقار علی بھٹو اور عمران خان کو ہم سر قرار دینا خوش ذوقی نہیں ہے۔ اس اعتراف کے باوجود ان کا تقابل سیاسیات کے ایک طالب علم کے لیے تحقیق کا ایک دلچسپ موضوع ہو سکتا ہے۔
دونوں کے فرق کو سمجھنے کے لیے آج کی تاریخ ہی کفایت کرتی ہے۔ 4اپریل 1979ء کو بھٹو تختہ دار پر جھول گئے۔ تاریخ نے ان کے خلاف دیے گئے عدالتی فیصلے کو مسترد کر دیا۔ نواب محمد احمد خان کا قتل کس نے کیا یا کروایا‘ یہ میں نہیں جانتا۔ اتنی بات البتہ تاریخ نے واضح کر دی کہ عدالتی ایوانوں میں ان کے ساتھ نا انصافی کی گئی۔ بھٹو صاحب کی موت انہیں ممتاز کر گئی۔ یہ امتیاز کسی دوسرے سیاست دان کے ساتھ ان کے موازنے میں ہمیشہ مانع رہے گا‘ اِلّا یہ کہ کوئی آئے اور ان کی طرح سوئے مقتل چلے۔ جو گرفتاری سے بچنے کے لیے پولیس والوں کو کہلوا بھیجیں کہ 'گھر پر نہیں ہیں‘ ان کا بھٹو صاحب سے تقابل خوش ذوقی نہیں ہے۔ فرق لیکن اتنا ہی نہیں۔
بھٹو ایک فطری سیاست دان تھے۔ خاندانی پس منظر اور پھر اس پر مستزاد اُن کی افتادِ طبع۔ سیاست ان کا اوڑھنا بچھونا تھی۔ سیاسیات کی تفہیم اور وسعتِ مطالعہ کے اعتبار سے ان کا شمار جواہر لال نہرو جیسے برصغیر کے نامور اہلِ سیاست میں کیا جائے گا۔ نہرو کے دامن میں عملی سیاست کے علاوہ چند بلند پایہ علمی کتب بھی ہیں جو اُن کے سیاسی شعور کی گواہی دیتی ہیں۔ ایسی کتب اور مضامین بھٹو صاحب کی زنبیل میں بھی پائی جا تی ہیں۔
1970ء کی دہائی میں عوام کی سیاست (Politícs of the People) کے عنوان سے ایک سلسلۂ کتب کا آغاز کیا گیا تھا۔ اس میں بھٹو صاحب کی وہ تقاریر اور مضامین بھی شامل تھے جو ان کے یونیورسٹی آف کیلیفورنیا کے زمانۂ طالب علمی کی یادگار تھے۔ 1990ء کی دہائی میں فخر زمان صاحب نے ان کی سب تحریروں اور بیانات کو کئی جلدوں میں مرتب کرکے دوبارہ شائع کیا تھا۔ ان کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ نوجوانی ہی سے عالمی سیاست پر ان کی گہری نظر تھی۔ یہی نہیں‘ ان کی دلچسپی نظریاتی سیاست سے تھی۔ 'اسلامی سوشلزم‘ کے تصور سے علمی اختلاف کیا جا سکتا ہے لیکن سیاست کا کوئی طالب علم یہ اعتراف کیے بغیر نہیں رہ سکتا کہ ایسے تصورات وہی پیش کر سکتا ہے جو نظریاتی سیاست کو اچھی طرح جانتا ہو۔
عمران خان صاحب کا معاملہ اس کے برعکس ہے۔ کم و بیش نصف صدی تک تو سیاست ان کے لیے شجرِ ممنوعہ رہی۔ آکسفورڈ میں انہوں نے اسے بطورِ مضمون پڑھا لیکن برائے مضمون۔ اس کا ا ندازہ سیاسیات میں ان کے حاصل کردہ نمبروں سے کیا جا سکتاہے۔ وہ سر تا پا ایک کھلاڑی تھے بلکہ کھلنڈرے۔ یونیورسٹی میں ان کا داخلہ بھی کھیل کی بنیاد پر ہوا۔ کھلنڈرے ان معنوں میں تھے کہ وہ زندگی کی کسی معنویت سے واقف نہیں تھے۔ ان کا مقصدِ حیات اس سے محض لطف کشید کرنا اور حظ اٹھانا تھا۔ یہ بات انہوں نے اپنی سوانحِ عمری میں بیان کر دی ہے۔
کھلاڑی اور سیاستدان کے ذہنی افق میں وہی فرق ہے جو میسی اور ہنری کسنجر میں ہو سکتا ہے۔ پچاس سال کی عمر میں سیاست کا رُخ کرنے والا ایک کھلاڑی سیاست کو اتنا ہی سمجھ سکتا ہے جتنا کسنجر فٹ بال کو‘ اگر وہ اس عمر میں اس کو سمجھنا چاہے۔ جو لوگ چالاکی‘ دھوکا دہی‘ دروغ گوئی کو سیاست سمجھتے ہیں‘ یہ بات شاید ان کے لیے قابلِ فہم نہ ہو۔ ان صفات کا تعلق فرد کے اخلاقیات سے ہے‘ افتادِ طبع سے نہیں۔
بھٹو صاحب ایک سیاستدان تھے اور ہر سیاستدان کی طرح اقتدار ان کی منزل تھا۔ انہوں نے ابتدا میں ان سہاروں پر انحصار کیا جو انہیں اقتدار کے ایوانوں تک لے جا سکتے تھے۔ جیسے اسکندر مرزا۔ جیسے ایوب خان؛ تاہم ان کے سیاسی نظریات بھی تھے جنہیں وہ ریاستی نظام کی صورت میں متشکل دیکھنا چاہتے تھے۔ انہیں جیسے ہی موقع ملا‘ انہوں نے اپنے نظریات کی بنیاد پر ایک جماعت بنائی۔ ہم نظریہ لوگوں کوجمع کیا۔ بنیادی فکری لٹریچر تیار کیا۔ سماج کو اس سیاسی تحریک کے لیے تیار کیا جو ان کے نظریات کا مظہر تھی۔
عمران خان صاحب کا کوئی سیاسی نظریہ تھا نہ سیاسی عزائم۔ کچھ لوگوں نے ان کی عوامی مقبولیت کو سیاست میں استعمال کرنے کا ارادہ کیا جو انہوں نے کرکٹ سے کمائی تھی۔ ان میں کچھ مخلصین بھی تھے جو چاہتے تھے کہ سیاست میں نئی قیادت ابھرے۔ یہ الگ بات ہے کہ خان صاحب کی شخصیت کے بارے میں ان کے سب اندازے غلط ثابت ہوئے اور سب نے اس کا برملا اعتراف بھی کیا۔ کچھ لوگ وہ بھی تھے جنہوں نے انہیں ایک 'پروجیکٹ‘ کے طور پر استعمال کرنے کا فیصلہ کیا۔ ان کے پاس وسائل تھے اور اقتدار کا حقیقی مرکز پہلے ہی ان کے قبضے میں تھا۔ انہیں اپنے عزائم کے لیے ایک مقبول چہرے کی تلاش تھی جو انہیں عمران خان کی صورت میں مل گیا۔ انہوں نے اس پیکرِ خاکی میں اپنی ابلاغی مشاطگی سے مزید نکھار پیدا کیا اور اسے ایک مسیحا کا روپ دیا۔ انہوں نے اقتدار کی اس خوابیدہ خواہش کو بھی پوری طرح استعمال کیا جو عمران خان صاحب میں شہرت کے حصول کے بعد فطری طور پر بیدار ہو چکی تھی۔ مختصراً بھٹو اور عمران خان میں وہی فرق ہے جوحقیقی ذہانت اور مصنوعی ذہانت میں ہے۔ ایک کا مظہر باشعور انسان ہے اور دوسرے کا ایک ربورٹ۔
دونوں میں بعض امور مشترک بھی ہیں۔ ایک نرگسیت‘ وہ بھی اس فرق کے ساتھ کہ بھٹو صاحب کی شخصیت میں اس کی کوئی ٹھوس بنیاد موجود تھی۔ ان جیسے علم‘ سیاسی شعور اور ادراک کے ساتھ اگر نرگسیت پیدا ہو جائے توقابلِ فہم ہے۔ دوسرا اشتراک عوامی مقبولیت ہے۔ دونوں عوام‘ بالخصوص نوجوانوں میں مقبول ہیں۔ بھٹو سیاست کی وجہ سے اور عمران خان کرکٹ کی وجہ سے۔ دونوں محنتی بھی بہت ہیں۔ بھٹو صاحب اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام کر تے تھے۔ خان صاحب بھی اَن تھک ہیں اور ان کی سیاسی کامیابیوں میں اس کا بڑا دخل ہے۔ ایک قدرِ مشترک فسطائیت بھی ہے۔ یہ خصوصیت بھی دونوں میں پائی جاتی ہے۔
بھٹو صاحب بھی عوام کے ایک طبقے کے لیے کلٹ بن گئے تھے مگر یہ تعداد میں بہت کم تھا۔ اکثریت ان کے ساتھ شعوری وابستگی رکھتی تھی جس میں سماج کا ہر طبقہ شامل تھا۔ عوام سے لے کر اہلِ دانش تک۔ خان صاحب کا معاملہ مختلف ہے۔ ان کے ساتھ شعوری تعلق رکھنے والے شاید انگلیوں پر گنے جا سکیں۔ ان کے زیادہ مداح‘ خواتین میں ہیں یا نوجوانوں میں۔ دونوں اس روپ سے لگاؤ رکھتے ہیں جو دراصل میڈیا اور 'پوسٹ ٹرتھ‘ کا ایک مظہر ہے: ایک پلے بوائے یا ایک مسیحا۔ ان کی مقبولیت کی نفسیاتی بنیادوں کی تلاش سماجی نفسیات کے طالب علموں کے لیے ایک دلچسپ موضوع ہو سکتا ہے۔
بھٹو صاحب اور عمران خان کی مقبولیت میں فرق کا تعلق دونوں کے عہد سے بھی ہے۔ بھٹو1960ء اور 1970ء کی دہائیوں میں مقبول ہوئے۔ یہ نظریاتی سیاست کا دور تھا اور سیاست سے دلچسپی شعوری بلوغیت کی دلیل سمجھی جاتی تھی۔ عمران خان کا عہد غیر نظریاتی اور ہیجان پرور ہے۔ یہ غیر نظریاتی سیاست کا دور ہے۔ یہ ان کے لیے سازگار نہیں جن کی سیاست کی اساس نظریاتی تھی۔ پھر اس میں ایک دخل روایتی سیاست کی ناکامیوں کا بھی ہے۔ سیاست کا یہی وہ سوراخ ہے جو غیرسیاسی قوتوں کو داخل ہونے کا موقع دیتا ہے اور وہ عمران خان جیسے پروجیکٹ بناتے ہیں۔
پاکستانی سیاست کے ان کرداروں کا تقابل ایک دلچسپ موضوع ہے۔ 4اپریل 1979ء کی تاریخ اس مطالعے کے لیے ہمیشہ ایک درست بنیاد فراہم کرے گی۔ صحیح بنیاد پر قائم تقابلی مطالعہ ہی درست نتائج دے سکتاہے۔