عدالت اس لیے ہوتی ہے کہ تنازعات کو حل کرے۔جب عدالت خود فریق بن جائے تو پھر کیا کیا جائے؟
درد ہو دل میں تو دوا کیجیے
دل ہی جب درد ہو تو کیا کیجیے
بلاشبہ یہ ایک غیر معمولی صورتِ حال ہے۔جب ریاست کے ادارے مملکت کو درپیش داخلی تنازعات کو حل نہ کر سکیں تویہ اجتماعی دانش کی ناکامی ہے۔انسان کا ارتقائی سفر انفرادی سے اجتماعی دانش کی طرف ہے۔ انفرادی دانش ناکام ہو تو اجتماعی بصیرت قوموں کے ہاتھ تھام لیتی ہے۔اگر اجتماع ہی ناکام ہو جائے تو پھر سیاسی نظام اعترافِ عجز پر مجبور ہوتا ہے کہ وہ مسائل کے حل کی سکت نہیں رکھتا۔
سپریم کورٹ دو گروہوں میں منقسم ہے۔یہ امرِ واقعہ کا بیان ہے۔تقسیم کی شکارعدالتِ عظمیٰ کی طرف سے جب اہلِ سیاست کووحدت کی تلقین کی جاتی ہے تواس مشورے کے صائب ہونے کے باوصف‘اس میں وہ اخلاقی قوت نہیں ہوتی جوسیاستدانوں پردباؤ کے لیے ضروری ہے۔ جب بزرگ خود گڑ کھاتا ہو تو وہ بچوں کو میٹھے سے منع نہیں کر سکتا۔ اپنی آواز کومؤثربنانے کے لیے‘ پہلے اسے گڑ خوری چھوڑنا پڑتی ہے۔
زندگی کو بہر صورت رواں رہنا ہے کہ جمود اس کو سازگار نہیں۔آئین اگر ہم سفر نہ ہو تو پھر مسافر کے لیے کسی غیرآئینی حل کا ساتھ ناگزیر ہو جا تاہے۔مکرر عرض ہے کہ 'اگر‘ اور 'چاہیے‘ میں مسائل کا حل نہیں ہو تا۔اگر ایسا ہوتا تو معاشرے جنت نظیر بن جاتے۔ ہمارے پاس تجزیے کا وقت بھی نہیں کہ ہم پہلے ان اسباب کا کھوج لگائیں جنہوں نے ہمیں یہاں تک پہنچایا۔یہ تجزیہ مستقبل کے لیے تو مفید ہو سکتا ہے لیکن سرِ دست اس کی کوئی افادیت نہیں۔شیر اس وقت سامنے کھڑا ہے اور ہم نے خود کو اس سے بچانا ہے۔یہ تجزیہ بے معنی ہے کہ شیر انسانی بستی تک آیا کیسے؟
ریاست ہو یا معاشرہ‘یہ پہلی مرتبہ ہو رہا ہے کہ مسائل کوعقل سے نہیں‘ جذبات سے حل کیاجا رہاہے۔مسلمان معاشرے میں‘کیا عقلاً یہ ممکن ہے کہ ختمِ نبوت کے بعد‘ کسی فرد کو معیارِ حق مان لیا جائے؟فقہ و اخلاق‘سیاست وتاریخ اس کے دروازے پر کھڑے ہوں‘اس کے قول و فعل سے نئی فقہ لکھی جا رہی ہو‘ اخلاقیات کے نئے معیارات وضع ہو رہے ہوں‘سیاست کے نئی آداب متعین کیے جا رہے ہوں‘ تاریخ کی نئی تعبیرات ہو رہی ہوں؟
عدت کے احکام کیا ہیں؟ان کا تعین اب ایک فرد کے طرزِ عمل سے ہو گا۔ جھوٹ بولنا اخلاقاً درست ہے یا غلط؟ایک فرد کے اقوالِ زریں سے اس سوال کا جواب ملے گا۔ سیاست میں یو ٹرن بصیرت ہے یا شاطرانہ سیاست کا مظہر؟یہ بھی ہمیں ایک فرد زبانِ حال سے بتائے گا۔ جسٹس قاضی فائز عیسیٰ کے والدِ گرامی کا شمار میر جعفر ومیر صادق کی صف میں کیا جائے گا یا محسنینِ قوم میں؟اس کا تعین جسٹس فائز عیسیٰ کے طرزِ عمل پر ہے کہ وہ کسی فردِ خاص کی حمایت کرتے ہیں یا غیر جانبدار رہتے ہیں؟ایک باشعورمسلمان معاشرے میں‘یہ عقلاً محال ہے۔ ہمارے ہاں مگر یہ واقعہ ہے۔
اسی معاشرے کا ایک اور روپ دیکھیے۔دعوت و ارشاد کے منصب پر براجمان‘بلا تکلف اختلاف رکھنے والوں کے قتل کا فتویٰ جاری کر رہے ہیں اور ریاست انہیں روکنے پر قادر ہے نہ سماج۔ایک آدمی برسوں سے یہ کام کر رہا ہے۔قانون اس کے خلاف حرکت میں آتا ہے نہ معاشرتی سطح پر کوئی اضطراب پیدا ہو تا ہے۔یہ اس بات کی علامت ہے کہ سماجی رویے عقل کے نہیں‘ جذبات کے تابع ہیں۔فقاہت کبھی بصیرت کا نام تھی‘آج جذبات کی ترجمانی کا عنوان ہے۔
ریاست کے احوال سے تو میں نے کالم کا آغاز کیا ہے۔اداروں کے ہاتھ ایک دوسرے کے گریبان میں ہیں۔معیشت اس کا پہلا شکار ہے۔ عام آدمی کے لیے جسم و جاں کا تعلق قائم رکھنا ممکن نہیں رہا۔یہ کیفیت جب عام شہری کو مضطرب کرتی ہے توجرائم کی شرح میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ایک معتبر انگریزی اخبار کی خبر ہے کہ مارچ کے مہینے میں‘ اسلام آباد میں‘روزانہ کم و بیش پچاس جرائم ہوئے ہیں۔دو وارداتیں فی گھنٹہ۔یہ ملک کے سب سے محفوظ اور آسودہ حال شہر کا معاملہ ہے۔ خراب معیشت کا ناگزیر نتیجہ جرائم میں اضافہ ہے۔
آئی ایم ایف سے کیا امید کہ دوست ممالک اس کیفیت میں ہاتھ تھامنے میں ہچکچاہٹ کا شکار ہیں۔آئی ایم ایف کی شرط ہے کہ عالمی سطح پر معاشی ضمانت چاہیے۔ دوست سوچ میں ہیں کہ جس ملک کا یہ حال ہے‘اس کی ضمانت کیسے دی جا ئے؟جب کوئی قوم اپنی باگ عقل کے بجائے جذبات کے ہاتھ میں دے دے اور بڑے مناصب پر بیٹھے لوگوں کی اَنا ملک کے مفاد سے بڑی ہو جائے تو پھر یہی ہو تا ہے۔
ایک خاص سمت میں واقعات کے اس بہاؤ سے‘ میری یہ رائے مزید پختہ ہوئی ہے کہ ہمیں ایک بار بہر صورت منطقی انجام سے دوچار ہو نا ہے۔ زوال کے اس عمل کو پایۂ تکمیل تک پہنچنا ہے۔ ہماری اجتماعی دانش نے بتا دیا ہے کہ اس میں مسائل کے اصلاح کی صلاحیت باقی نہیں ہے۔آئین انفرادی بصیرت سے رجوع کی کوئی صورت تجویز نہیں کرتا۔ نیوٹرل‘ نیوٹرل رہیں تو بحران۔نہ رہیں تو بحران۔
اس صورتِ حال میں کوئی یہ پیش گوئی نہیں کر سکتا کہ کل کیا ہوگا۔تئیس کروڑ کی آبادی میں‘ سب کے چہرے پر ایک سوالیہ نشان ہے۔ معیشت‘ سیاست‘ معاشرت‘ کسی باب میں فیصلہ کن بات نہیں کہی جا سکتی۔جب معاشرے اور ریاست کے پاس مسائل کے حل کا کوئی فورم ہی نہ ہو‘جن کو مسئلے کا حل دینا ہے‘وہ خود مسئلے کا حصہ ہوں تو پھر انجام معلوم ہے۔
تقسیم کا عمل مزید گہراہوتاجا رہا ہے۔یہ صحافی ہو یا عالم‘ اس کے لیے غیر جانبدار رہنا ناممکن ہو چکا۔صحافت میں کچھ لوگ تھے جو عمران خان صاحب کے مداح تھے۔ پھر انہوں نے اس مداحی سے اعلانِ برأت کیا۔ اس پر اظہارِ تاسف کیا کہ وہ ان کے حق میں بولتے اور لکھتے رہے۔ آج وہ سب‘شمشیر بکف واپس آچکے ہیں اور خان صاحب کے دفاع میں صفِ اوّ ل کے مجاہدین میں شامل ہیں۔ان حالات میں وہ غیر جانبدار نہیں رہ سکتے تھے۔یہ حالات کا جبر ہے کہ انہیں کسی ایک فریق کا ساتھ دینا ہے۔وہ دوسری طرف جانے سے تو رہے۔ اس لیے اپنی اصل محبت کی طرف لوٹ آئے ہیں۔
انفرادی زندگی میں ہم ایسے تجربات سے گزرتے ہیں جب معلوم ہوتا کہ سامنے کوئی راستہ نہیں۔ذہن مفلوج ہو جاتا اور کچھ سجھائی نہیں دیتا۔ایسا شدید صدمے کی کیفیت میں ہوتا ہے یا بے بسی کی صورت میں۔ آج اجتماعی سطح پر ہم اسی کیفیت سے دوچار ہیں۔ٹی وی چینلزپر چوبیس گھنٹے مذاکرے ہو رہے ہیں۔مجھ جیسے‘روزانہ اخبارات کے صفحات سیاہ کر رہے ہیں۔یہ سب لا حاصل اور بے نتیجہ ہے۔کسی کے پاس مسئلے کا کوئی حل نہیں۔ہر کوئی فریق ہے۔ریاستی ادارے بھی فریق ہیں حتیٰ کہ منصف بھی۔
آج میں قوم سے یہی درخواست کر سکتا ہوں کہ خود کو حادثات کے لیے تیار رکھے۔یہ عقلی مشورہ ہے۔سوال یہ ہے کہ میں یہ مشورہ کیوں دے رہا ہوں جب عقل کا کردارختم ہو چکا؟ اب اس کا کیا جواب کہ اس سوال کا جو جواب ہو گا اور وہ بھی عقلی ہو گا۔ اس کیفیت کو غالبؔ نے منظوم کر دیا ہے: 'کچھ نہ سمجھے خدا کرے کوئی‘۔