ہیجان کا جواب ہیجان نہیں ہو سکتا‘بالکل ایسے ہی جیسے برائی کا جواب برائی نہیں ہے۔
جدید ریاست کی دو اہم خصوصیات ہیں۔ ایک سماجی معاہدہ‘ جسے آئین کہتے ہیں۔ یہ ایک طرف عوام اور ریاست کے حقوق و فرائض کا تعین کرتا ہے اور دوسری طرف ریاست کے اداروں میں طاقت کا توازن قائم رکھتا ہے۔ جدید ریاست تقسیمِ کار کے اصول پر کھڑی ہے۔ اس کے تین ستون ہیں جن میں ہم آہنگی سے ریاست کا نظم قائم رہتا ہے۔ یہ ستون اگر باہم متصادم ہو جائیں تو یہ نظم باقی نہیں رہتا۔ دوسرے لفظوں میں آئین باقی نہیں رہتا۔ عقلِ عام اس کیلئے دلیل کی محتاج نہیں۔ تصادم کی صورت میں وقتی طور پر وہ گروہ غالب رہتا ہے جس کے ہاتھ میں بندوق ہو۔ بندوق لیکن مستقل حل نہیں ہوتی۔ بندوق غیرمہذب معاشروں میں فیصلہ کن ہوتی ہے‘ مہذب سماج میں نہیں۔
سیاسی نظام میں استحکام کے لیے ایک کردار سیاسی جماعتوں کا بھی ہوتا ہے۔ یہ جماعتیں اگرچہ ریاست کے ستونوں میں شمار نہیں ہوتیں لیکن ریاست کا ایک اہم ستون‘ پارلیمان ان جماعتوں پر مشتمل ہوتا ہے۔ یوں یہ جماعتیں بھی بالواسطہ ریاست ہی کا ایک ستون بن جاتی ہیں۔ ان جماعتوں کا اصل کردار یہ ہے کہ پارلیمان اپنے کام کے ذریعے نظام کو مستحکم رکھے۔
کسی ملک میں ریاستی ادارے اگر باہم متصادم ہو جائیں اور سیاسی جماعتیں بھی پارلیمان کے ذریعے مؤثر کردار ادا نہ کر پائیں تو اس صورتحال میں دو ہی انجام متوقع ہیں۔ ایک یہ کہ چند سیاسی جماعتیں ریاست کے ایک ستون کے ساتھ کھڑی ہو جائیں اور چند دوسرے کے ساتھ۔ یوں سیاسی قوت منقسم ہو جائے۔ اس کا نتیجہ خانہ جنگی ہے۔ یہ خانہ جنگی کچھ عرصہ جاری رہ سکتی ہے۔ اس کے بعد ایک صورت یہ ہے کہ ایک گروہ غالب آجائے اور اس کا اقتدار قائم ہو جائے۔ دوسری صورت یہ ہے کہ دونوں مضمحل ہو کر کسی متفقہ حل تک پہنچ جائیں۔ ان دو میں سے جو صورت بھی ہو‘ ملک میں عارضی طور پر امن بحال ہو جاتا ہے۔
یہ سب دور رس نتائج کا حامل ہوتا ہے۔ اس میں انسانی جانوں کا ضیاع ہوتا ہے اور اموال کا بھی۔ ایسے ملک کو سیاسی اور معاشی طور پر بحال ہونے کے لیے عشرے درکار ہوتے ہیں۔ بعض اوقات تو عشرے بھی کافی نہیں ہوتے۔ پہلی صورت کی مثال شام ہے یا پھر افغانستان۔ شام میں خانہ جنگی کے بعد‘ برسرِ اقتدار گروہ اپنا اقتدار بچانے میں کامیاب رہا اور اس سے متحارب گروہ ناکام ہوئے۔ افغانستان میں برسرِ اقتدار اپنا اقتدار بر قرار نہ رکھ سکا اور ایک دوسرے گروہ نے اقتدار سنبھال لیا۔ دوسری صورت کی مثال عراق ہے۔ متحارب گروہ فساد کے ایک دور کے بعد‘ ایک سیاسی حل پر متفق ہو گئے اور یوں سب کی شرکت سے سیاسی نظام بحال ہو گیا۔
ان معاملات میں ایک کردار عالمی قوتوں کا بھی ہوتا ہے۔ بیسویں صدی میں‘ سلطنتوں کا دور ختم ہوا تو عالمی قوتوں نے‘ اقوامِ متحدہ کی چھتری تلے‘ ایک نیا عالمی نظام متعارف کرایا۔ دنیا میں آنے والی تبدیلیوں کو اس عالمی نظام کے تناظر میں بھی دیکھا جاتا ہے۔ کسی ملک کے معاملات‘ اب داخلی نہیں رہے۔ کہنے کو تو یہی کہا جاتا ہے کہ ہم داخلی معاملات میں مداخلت نہیں کرتے لیکن یہ مداخلت کی جاتی ہے۔ اس مداخلت کی نوعیت کیا ہوگی‘ اس کا فیصلہ حسبِ حال کیا جاتا ہے۔ افغانستان‘ عراق اور شام کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں۔ ہر ملک کے نظام کو بہر حال ایک مرحلے پر اس عالمی نظام سے ہم آہنگی پیدا کرنا پڑتی ہے۔
عالمی مداخلت کے حوالے سے‘ ان قوتوں کی باہمی مخاصمت کا پہلو بھی سامنے رہنا چاہیے۔ اہم خطوں میں یہ قوتیں اپنا اپنا اثر و رسوخ قائم کرنا چاہتی ہیں۔ ان کی یہ آویزش بھی حالات پر اثر انداز ہوتی ہے۔ اس کی ایک مثال یوکرین ہے۔ روس اور نیٹو کے مفادات کا تصادم یہاں جاری ہے اور یہ ملک کھنڈر بن چکا ہے۔1989-90ء کے بعد امریکہ کو زیادہ مزاحمت کا سامنا نہیں کر نا پڑا اب مگر صورتِ حال بدل رہی ہے۔ اس کا پلڑا اگرچہ ہنوز بھاری ہے لیکن دوسری قوتیں مکمل دستبرداری پر آمادہ نہیں۔
جدید تاریخ اسی طرح لکھی گئی ہے۔ اس وقت ایک طرف سماجی‘ معاشی اور سیاسی اعتبار سے ایک مستحکم دنیا ہے۔ جیسے سکنڈینیوین ممالک۔ یورپ اور شمالی امریکہ کا ایک بڑاحصہ۔ اس دنیاکا ایک حصہ وہ ہے جہاں استحکام کے ساتھ اضطراب بھی ہے‘ جیسے امریکہ‘ یورپ کے بعض ممالک جیسے سپین۔ یہاں استحکام غالب ہے‘ اس لیے ان ممالک کو کوئی ایسا مسئلہ درپیش نہیں جو سماجی یا سیاسی ابتری پر منتج ہو سکتا ہو۔ اس دنیا کو ہم ترقی یافتہ کہتے ہیں۔
دوسری طرف غیر ترقی یافتہ دنیا ہے۔ یہ مستقل حالتِ اضطراب میں ہے۔ ان کے مستقبل کے بارے میں کوئی پیش گوئی کرنا ممکن نہیں۔ یہاں صبح و شام احوال تبدیل ہوتے ہیں۔ جیسے افغانستان۔ جیسے سوڈان۔ یہ کہنا مشکل ہے یہاں کل کیا ہو گا۔ اس دنیا کا ایک حصہ وہ ہے جو ترقی یافتہ دنیا میں شامل ہونے کے لیے جد وجہد کر رہاہے۔اس کا سفر تیزی کے ساتھ جاری ہے۔وہ ایک طرف داخلی تضادات اور اختلافات کو کم کر رہا ہے اوردوسری طرف عالمی نظام کیساتھ ہم آہنگ ہونے کا ثبوت دے رہا ہے۔ بھارت ان ممالک میں سرِفہرست ہے۔ بنگلہ دیش بھی اس کا ہم سفر ہے۔
ترقی یافتہ اور غیر ترقی یافتہ ممالک میں یہ فرق کیوں ہے؟ وہ کیا چیزہے جو ترقی یافتہ دنیا کو تو میسر ہے‘ غیرترقی یافتہ دنیا کو نہیں؟ اس کا ایک ہی جواب ہے: قیادت۔ قیادت محض سیاسی نہیں ہوتی۔ یہ فکری ہوتی ہے اور اقتصادی بھی۔ ترقی یافتہ دنیا میں ایسے لوگ پیدا ہوئے جنہوں نے اپنے عہد کو سمجھا‘ جنہوں نے اس راز کو پایا کہ دنیا میں ترقی کیسے کی جاتی ہے۔ فکر و فلسفے کی دنیا میں بحثیں ہوئیں۔ اس فکری مکالمے کے نتیجے میں چند بنیادی اقدار پر اتفاق ہوا اور پھر سماجی سطح پر پیدا ہونے والا یہ اتفاق ریاستی پالیسیوں میں ڈھل گیا۔ چونکہ سماج پہلے ہی بنیادی فکر سے متفق تھا‘ اس لیے ان پالیسیوں کو قبولیتِ عامہ حاصل ہوئی اور یوں سماج مستحکم ہو گیا۔ استحکام کے لیے عوامی تائید ضروری ہے۔
جن ممالک میں سماج اور ریاست کی قیادت ذہنی اور اخلاقی طور پر پست لوگوں کے ہاتھوں میں چلی گئی‘ وہاں اتفاقِ رائے پیدا نہ ہو سکا۔ پست فکری کا مطلب بصیرت اور دور اندیشی سے عاری ہونا ہے۔ اخلاقی پستی کا مطلب شخصی اور گروہی مفادات کی اسیری ہے۔ ایسے ممالک مستقل اضطراب کی لپیٹ میں ہیں۔ ان کا مستقبل روشن نہیں۔ اس کے دو اسباب ہیں۔ ایک یہ کہ مسلسل حالتِ اضطراب کے نتیجے میں‘ اعلیٰ دماغ ملک چھوڑ جاتے ہیں۔ پست درجے کے لوگ اعلیٰ ترین مناصب پر فائز ہو جاتے ہیں۔ دوسر ا نتیجہ سرمایے کا ملک سے نکل جانا ہے۔ سرمایے کا مزاج بھی یہی ہے جہاں اس کا مستقبل محفوظ نہ ہو‘ وہاں سے کوچ کر جاتا ہے۔ حب الوطنی جیسے الفاظ اقتصادیات کی لغت میں نہیں ہوتے۔
اس صورتِ حال کا یہ مطلب نہیں کہ ملک ختم ہو جاتے ہیں۔ جن ممالک کی میں نے مثال دی‘ وہاں زندگی جاری ہے۔ تاہم جینے اور زندہ رہنے میں فرق ہے۔ افراتفری سے یہ فرق مزید بڑھ جاتا ہے۔ یہ صورتِ حال باقی رہتی ہے‘ یہاں تک کہ سماج فکری سطح پر کروٹ لے۔ اس میں ہیجان کے بدلے میں ہیجان نہیں‘ دانش بروئے کار آئے۔ عقل کی سنی جانے لگی اور سماج خود احتسابی پر آمادہ ہوتے ہوئے‘ اپنے طرزِ عمل پر نظرثانی کے لیے تیار ہو جائے۔ یہ عمل قدرے طویل ہے۔ اس سے پہلے سماج کو ایک منطقی انجام تک پہنچنا ہوتا ہے۔ لوگ جب دانش کی نہیں سنتے تو پھر انہیں وقت خود سناتا ہے۔ جہاں ہیجان کا جواب ہیجان سے دیا جاتا ہو‘ وہاں سمجھ جانا چاہیے کہ ابھی دانش کی نہیں سنی جا رہی۔