جب سب بھاگ رہے تھے تو علی محمد خان کھڑے ہوگئے۔ ان کی یہ 'بہادری‘ قابلِ تحسین ہے۔ وہ کیوں کھڑے رہے‘ اس کا جواب تلاش کریں تو ان کی سیاسی بصیرت اتنی ہی قابلِ افسوس ہے۔
زندگی اللہ تعالیٰ کی نعمت ہے۔ اس کو گنوانا یا بے مصرف گزارنا گناہ ہے۔ ہمیں عمر کے ایک ایک لمحے کے لیے جواب دہ ہونا ہے۔ اللہ کے رسولﷺ سے روایت کی جاتی ہے کہ روزِ قیامت‘ میدانِ حشر سے انسان کے قدم اس وقت تک نہیں اٹھیں گے جب تک کہ وہ پانچ سوالوں کے جواب نہیں دے گا۔ ان میں سے ایک یہ کہ عمر کس کام میں صرف کی؟ دوسرا یہ کہ جوانی کن مشاغل میں گزاری؟ یہ زندگی کی ناقدری ہے کہ اسے کسی ایسے کام میں بسر کیا جائے یا کسی ایسے مقصد کے لیے گنوا دیا جائے جس کی کوئی حقیقی بنیاد نہ ہو۔ جیسے کوئی ریت پر گھروندے بنانے اور بگاڑنے میں عمر بِتا دے۔
زندگی کو انسان دو ہی اسباب سے داؤ پر لگاتا ہے۔ ایک یہ کہ کوئی ایسا مقصدِ حیات اس کو مل جائے جو زندگی سے زیادہ گراں قدر ہو۔ وہ انجام سے بے نیاز‘ آتشِ نمرود میں کود پڑے۔ لوگ خدا کی راہ میں جان دیتے اور حیاتِ ابدی کے مستحق ٹھہرتے ہیں۔ ایک ڈاکٹر یا سائنسدان‘ انسانیت کو کسی جان لیوا مرض سے بچانے کے لیے تجربہ گاہ میں خطرناک جراثیم کی رفاقت میں وقت گزارنے کا خطرہ مول لیتا ہے۔ اس طرح کے لوگ دنیا میں پائے جاتے ہیں۔ خدا کی نظر میں ان کا جو مقام ہے‘ وہ اپنی جگہ‘ انسان بھی انہیں اپنی محبت و عقیدت کا مرکز مان لیتے ہیں۔ ان کی یادگاریں بنائی جاتی ہیں اور ان کی قبروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں۔
دوسرا سبب قبائلی نوعیت کی بہادری ہے۔ اس کو آپ اَنا بھی کہہ سکتے ہیں۔ اس میں مقصدِ حیات کا کوئی تصور نہیں پایا جاتا۔ کسی نے گالی دی تو آپ نے اسے اپنی عزت کا مسئلہ بنا لیا۔ ایک جگہ گاڑی کھڑی کرنے پر جھگڑا ہو گیا تو کسی کی جان لے لی یا اپنی جان گنوا دی۔ کسی کے ساتھ کھڑے ہو گئے تو کھڑے ہوگئے‘ قطع نظر اس کے کہ وہ حق پر ہے یا باطل پر۔ آپ اس لیے پیچھے نہیں ہٹتے کہ 'لوگ کیا کہیں گے؟‘ علی محمد خان کی بہادری کس نوعیت کی ہے؟
یہ اقتدار کی کشمکش تھی جس میں وہ ایک فریق کے ساتھ کھڑے تھے۔ نہ کوئی نظریہ نہ کوئی سوچ۔ وہ موجود نظام کا حصہ تھے۔ انہیں معلوم ہے کہ عمران خان صاحب کیسے وزیراعظم بنے۔ ایک پیج کیا تھا؟ وہ سلامت تھا تو کیوں؟ پھٹا تو کیوں؟ انہیں اچھی طرح معلوم ہے کہ قاسم سوری صاحب نے بحیثیت سپیکر آئین کے ساتھ کیا کیا؟ یہ سب کچھ ان کی آنکھوں کے سامنے ہوا۔ اس پر مستزاد تحریکِ انصاف کی حکومت کے ساڑھے تین سال۔ پھر خان صاحب کا اسلوبِ حکومت اور وزارتوں کے لیے حسنِ انتخاب۔ سچ جھوٹ کی آمیزش کہ جس سے کسی سیاستدان کو استثنا نہیں۔
اب دو ہی باتیں ممکن ہیں۔ ایک یہ کہ وہ کلٹ کا شکار ہوئے اور انہوں نے خیال کیا کہ خان صاحب اہلِ سیاست سے ماورا معرکۂ حق و باطل میں حق کی تنہا آواز ہیں جن کا ساتھ دینا دین اور اخلاق کا تقاضا ہے۔ دوسرا یہ کہ وہ سب کھلی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے اور سب دیکھ بھال کر وہ کھڑے ہوگئے کہ مجھے تو ہر صورت میں خان صاحب کا ساتھ دینا ہے۔ اگر پہلی صورت ہے تو ان کی سیاسی بصیرت قابلِ افسوس ہے۔ اگر دوسری ہے تو پھر یہ قبائلی نوعیت کی 'بہادری‘ ہے جس کا کسی اعلیٰ مقصد سے کوئی تعلق نہیں۔
میں تکرار کے ساتھ یہ لکھتا رہا ہوں کہ اقتدار کی سیاست میں جو چیز سب سے پہلے قربان ہوتی ہے وہ سچائی سے آپ کا رشتہ ہے۔ آپ کرپشن کے خلاف نعرہ بلند کرتے ہیں مگر سیاسی مفاد کے لیے‘ جسے سب سے بڑا ڈاکو سمجھتے ہیں‘ اسے آدھا ملک سونپ دیتے ہیں۔ووٹ لینے کے لیے جھوٹے وعدے کرتے ہیں۔عوام کو سبز باغ دکھاتے ہیں۔ لوگوں کی توہین کرتے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے صریح حکم کے برخلاف لوگوں کو ناموں سے پکارتے ہیں اور ساتھ ہی 'ریاستِ مدینہ‘ کی بھی بات کرتے ہیں۔
یہ سیاست کا روز مرہ ہے۔یہاں روز کے فیصلے روزانہ کی بنیاد پر کیے جاتے ہیں۔ اہلِ سیاست کی منتخب یادداشت (selective memory) ہوتی ہے۔ وہ صرف مطلب کی بات یاد رکھتے ہیں اور ان کی خواہش ہوتی ہے کہ عوام کو بھی کچھ نہ یاد رہے۔ یہاں وفا اور بے وفائی کے وہ پیمانے نہیں ہوتے جس کا ذکر رومانوی شاعری میں ملتا ہے۔ اقتدار کی سیاست رومان سے بہت دور ہوتی ہے۔
سیاسی کارکنوں کو میری نصیحت ہمیشہ یہی رہی ہے کہ جس طرح سیاسی رہنما حقیقت پسند ہوتے ہیں‘ ان کے وابستگان کو بھی اسی طرح حقیقت پسند ہونا چاہیے۔ سب سے پہلے تو ان پر واضح رہنا چاہیے کہ ان کا رہنما اقتدار کے لیے سیاست کر رہا ہے۔ وہ مامور من اللہ ہے نہ اللہ کا ولی۔ سیاسی حمایت کا فیصلہ کرتے وقت انہیں یہ ضرور دیکھنا چاہیے کہ میسر لوگوں میں اخلاق و کردار کے لحاظ سے نسبتاً بہتر کون ہے۔ دوسری بات جس کو نظروں سے اوجھل نہیں ہو نا چاہیے‘ وہ یہ کہ انسانوں میں‘ وہ سیاستدان ہوں یا کوئی اورطبقہ‘ یہ تقسیم ممکن نہیں کہ ایک طرف کے لوگ سراپا حق ہیں اور دوسری طرف کے سراپا باطل۔ اس لیے اگر کوئی دوسری سیاسی جماعت سے وابستہ ہے تو اسے اپنے جیسا ہی سمجھیں۔ ختم نبوت کے بعد مسلمانوں کے گروہوں میں حق و باطل کی بنیاد پر تقسیم فی نفسہٖ ایک باطل تصور ہے۔
علی محمد خان کے خلاف مقدمات‘ ممکن ہیں سب درست نہ ہوں۔ سیاست میں یہی ہوتا ہے اور یہی ہوتا آیا ہے۔ یہ وہی اندازِ سیاست ہے جو خان صاحب نے اختیار کیے رکھا۔ یہ اس وقت تک ہوتا رہے گا جب تک اہلِ سیاست باہم بیٹھ کر کسی ضابطہ اخلاق پر اتفاق نہیں کر لیتے۔ ضابطہ اخلاق سے مرادبعض باتوں پر فریقین کا اتفاق ہے جسے انگریزی میں کوڈ آف کنڈکٹ (code of conduct) کہتے ہیں۔ میں اسی لیے 'میثاقِ جمہوریت‘ کو ایک اہم پیش رفت سمجھتا ہوں۔ 'چور چور‘ کی تکرار اب بے معنی الفاظ کی جگالی کے سوا کچھ نہیں۔
اس کالم میں علی محمد خان صاحب کا نام ایک استعارے کے طور پر لیا گیا ہے۔ ان کی جگہ اگر آپ 'سعد رفیق‘ لکھ دیں یا 'قمر زمان کائرہ‘ اس کی معنویت میں کوئی تبدیلی نہیں آئے گی۔ اسی طرح تحریکِ انصاف کی جگہ کسی دوسری سیاسی جماعت کا نام لکھ دیں تو بھی اس کا مفہوم غیر متبدل رہے گا۔ سیاست کا سبق سب کے لیے ایک ہی ہے۔ اقتدار کی سیاست کے لیے اپنی جان عذاب میں ڈالنا یا اپنی عمر گنوانا کوئی بہادری ہے نہ زندگی کا صحیح مصرف۔ آپ سیاست میں جس جماعت کا چاہیں ساتھ دیں‘ یہ بات مگر جان لیں کہ آپ جن کے ساتھ کھڑے ہیں ان کا آخری مقصد اقتدار ہے۔ کچھ اپنی ذات سے آگے نہیں دیکھتے اور کچھ خاندان سے۔
اس کے ساتھ یقینا ان میں خوبیاں بھی ہوں گی۔ ان خوبیوں کے بارے میں آپ کے پاس کوئی دلیل ہونی چاہیے۔ آپ نے کسی خوبی کا کوئی مظہر دیکھا‘ قابلِ اعتبار ذریعے سے اس کی تصدیق ہوئی‘ تاریخ نے اس کی تائید کی... اس طرح کی کوئی دلیل آپ کے پاس ہونی چاہیے۔ اس کے بعد آپ پوری دیانت داری سے اپنے لیڈر اور جماعت کا ساتھ دیں۔ حد کا لیکن خیال رکھیں اور یہ جان لیں کہ زندگی اللہ کی نعمت ہے جسے اقتدار کی کشمکش جیسے حقیر معرکے کی نذر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ قبائلی طرز کی بہادری ہے جس کا حقیقی بہادری سے کوئی تعلق نہیں۔